سب کچھ سچ ہوگیا

September 02, 2021

جدید سائنس کی ایجادات اور دریافتیں دیکھنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ انسان جو کچھ سوچتا ہے وہ سب کچھ ذرا سی سوچ بچار کے بعد عملی شکل بھی پاسکتا ہے۔ اب تک گزرے ہوئے اور آج کے سارے سائنس دانوں نے مل جل کر مبالغہ آرائی کی آخری حدیں پار کر جانے والے اردو داستان نگاروں کی لاج رکھ لی ہے۔ انہوں نے وہ سب کچھ بنا کر دکھا دیا ہے جسے کبھی مبالغہ آرائی کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا تھا۔بلکہ یہ مبالغہ آرائی ہی ہے جو داستان کا سب سے بڑا عیب ہوا کرتا تھا۔سینکڑوں سال پرانی یہ داستانیں آپ آج پڑھیں تو لگے گا کہ یہ آج کی کہانیاں ہیں۔

ہماری ایک داستان ’’ علی بابا چالیس چور‘‘میں ڈاکو ’’کھل جا سِم سِم‘‘ کہتے اور غار کا منہ خود ہی کھل جایا کرتا تھا۔ تب یہ بات جھوٹ لگتی تھی۔ عقل سوچتی تھی کہ ایسا بھلا کس طرح ہو سکتا ہے کہ بھاری بھر کم دروازہ خودبخود کھل جائے؟آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ بڑے بڑے شاپنگ مالز کے دیوقامت دروازے کھل جا سِم سِم کہے بغیر خودبخود کھل جاتے ہیں اور ہم ایک لمحے کے لئے بھی حیران نہیں ہوتے۔

اسد ﷲ غالب نے اپنے ایک شعر میں ایک داستانوی چیز جامِ جم کا ذکر یوں کیا تھا:

اور لے آئیں گے بازار سے گر ٹوٹ گیا

جامِ جم سے یہ مرا جامِ سفال اچھا ہے

کہتے ہیں کہ ایران کے ایک بادشاہ جمشید کے پاس ایک ایسا پیالہ تھا جس میں وہ دنیا بھر کے حالات وواقعات دیکھ لیا کرتا تھا۔ آج دنیا بھر میں بچے بچے کے پاس موبائل فون، لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر کی شکل میں ایک جامِ جم ہے۔ اس ’’جامِ جم‘‘ کے ذریعے سے ہر شخص دنیا بھر میں رونما ہونے والے واقعات دیکھتا ہے اور باخبر رہتا ہے۔ یہ جامِ جم ہزارروں میل دور بیٹھے لوگوں کی آپس میں بات چیت بھی کرا دیتا ہے۔ یہ اسی جامِ جم کا فیض ہے کہ اتنی بڑی دنیا، چھوٹا سا ایک گائوں بن کر رہ گئی ہے۔ اور آج ہر شخص جمشید بادشاہ بنا پھرتا ہے۔ آج کے ہر ’’جمشید بادشاہ‘‘ کے پاس وہ پیالہ ہے جو ٹوٹ جائے تو دوبارہ بھی خریدا جا سکتا ہے۔

ہماری پرانی داستانوں میں اڑن قالین اور اڑن کھٹولے کا بھی بہت ذکر ہوا کرتا تھا۔بڑی عمر کے لوگ بھی اڑن قالین اور اڑن کھٹولے کی کہانیاں سن سن کر حیران ہوا کرتے تھے اور خود بھی اڑنے کے خواب دیکھا کرتے تھے۔آج ہم آسمان کی طرف نگاہ دوڑائیں تو بہت بڑے بڑے ’’اڑن قالین‘‘ اور ’’اڑن کھٹولے‘‘ تیزی سے ، ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر آتے جاتے دکھائی دیتے ہیں۔داستانوی اڑن قالین اور اڑن کھٹولے دو چار آدمیوں کو پلک جھپکنے کے عرصے میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کا فریضہ انجام دیا کرتے تھے۔ آج کے اڑن قالین اور اڑن کھٹولے ایک ہی وقت میں سینکڑوں مسافروں اور ہزاروں ٹن وزنی سامان کو ادھر سے ادھر لے جاتے دکھائی دیتے ہیں۔ بس اتنا ہے کہ داستانوی کرداروں کو یہ سہولت کسی کی مہربانی سے مفت حاصل ہو جایا کرتی تھی اور آج کے عام آدمی کو یہ سہولت حاصل کرنے کے لئے اپنی کمائی خرچ کرنا پڑتی ہے۔ البتہ آج کے ’’بادشاہوں، ملکائوں، شہزادوں، شہزادیوں‘‘ اور رئیسوں کو آج بھی یہ سہولت مفت مل جاتی ہے۔

ہماری داستانوں میں انسانی کرداروں کے ساتھ ساتھ جن، دیو، پریاں اور چڑیلیں بھی ہوا کرتی تھیں۔ بُرے جن اور دیو انسانوں کو قید کر لیا کرتے تھے اور نیک دل جن اور دیو، کسی نیک دل انسان کو اپنا آقا سمجھ کر اس کا ہر حکم بجا لایا کرتے تھے۔آپ اگر عالمی سیاسی منظرنامے پر نظر ڈالیں تو آپ کو دونوں طرح کے جن اور دیو دکھائی دیئے جائیں گے۔ کسی نے انسانوں کو اپنی قید میں رکھا ہوا ہے اور کسی نے اپنے آقائوں کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے شہر کے شہر کھڑے کرکے دکھا دیئے۔داستانوں میں پائی جانے والی حسین وجمیل پریوں اور بدصورت چڑیلوں کا وجود آج بھی ہے مگر ان کا ذکر کرنا کسی بھی طرح خطرے سے خالی نہیں۔ یہ ہر وقت ہمارے آس پاس منڈلاتی رہتی ہیں۔ یہ بہت اچھی ہوتی ہیں ہمارے بہت کام آتی ہیں لیکن کچھ پتا نہیں چلتا کہ کون سی پری کب بُری بن جائے اور کون سی چڑیل کب اچھی ہو جائے ؟

داستان گو جب کچے مکانوں اور جھونپڑیوں میں رہنے والے غریب لوگوں کے درمیان بیٹھ کر بادشاہوں کی کہانیاں سناتا تھا تو وہ عالی شان محلات کی شان وشوکت بیان کرتا۔ ملبوسات، لذتِ کام ودہن کے سامان اور آرائشی سازو سامان کی فراوانی کا ذکر بالخصوص کرتا جس سے سننے والوں کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتیں۔ وہ ان سب چیزوں کو چشمِ تصور سے دیکھتے اور خوش ہوتے۔ آج یہ سب کچھ عام آدمی کے سامنے ہے بلکہ یوں کہئے کہ کسی نہ کسی طرح اس کے تصرف میں بھی ہے۔ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر آج کوئی مغل بادشاہ زندہ ہوتا تو اسے اپنی بادشاہت پر افسوس ہوتا کیونکہ اس کے پاس ان مفید چیزوں میں سے کوئی ایک بھی نہ تھی، جو آج تقریباً ہر عام آدمی کو میسر ہیں ہمارے صوفے، بیڈ، کرسیاں، پنکھے، ایئرکنڈیشنر، ٹیلی ویژن، ایل ای ڈیز، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، موبائل فون، کاریں اور موٹر سائیکلیں ہی اسے ورطہ حیرت میں ڈال دیتیں۔ ہوائی جہازوں کو دیکھ کر تو وہ شاید ویسے ہی پاگل ہو جاتا۔

آخر میں تین تازہ شعر ملاحظہ کیجئے :

دشتِ مکاں سے کوئی راہ نکل سکتی ہے

زندگی ٹھہری ہوئی ہو بھی تو چل سکتی ہے

بادشاہوں کو یہ احساس دلاتے رہئے

آپ بدلے تو رعایا بھی بدل سکتی ہے

سلطنت دل کی ترے نام رہے یا نہ رہے

یاد رکھ تیری حکومت بھی بدل سکتی ہے

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)