پُرعزم فلائنگ افسر کی شجاعت

September 05, 2021

1979کا سال تھا، دسمبر کا مہینہ تھا، سردیاں اپنے عروج پر تھیں، روس افغانستان میں داخل ہو چکا تھا، جس کی اگلی منزل ممکنہ طور پر پاکستان تھی لیکن پاک فوج دفاعِ وطن کے لئے پوری طرح تیار تھی، ایک جانب افغان مجاہدین افغانستان میں روسی افواج سے برسرپیکار تھے تو دوسری جانب پاک فوج نے ایئرفورس کے ساتھ مل کر بڑے پیمانے پر جنگی مشقیں شروع کردیں تھیں، جن کا مقصد روس کی جانب سے پاکستان کے خلاف کسی بھی قسم کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کے لئے ہر وقت تیار رہنا تھا۔ وہ 13دسمبر کی صبح تھی، پشاورمیں پاکستان ایئرفورس بیس پر شاہینوں کو اِن اہم ترین جنگی مشقوں کے حوالے سے اُن کے مشن تفویض کئے جارہے تھے، انہی میں ایک جواں سال، پُرعزم نوجوان فلائنگ افسر سید سکندر علی شاہ بھی تھے جن کے پشاور ایئربیس سے کراچی کے مسرور ایئربیس کے لئے ٹرانسفر آرڈر بھی جاری ہو چکے تھے لیکن ملکی سلامتی کے حالات اس بات کے متقاضی تھے کہ وہ ان مشقوں میں شریک ہوتے جس کا تجربہ انہیں مستقبل کی ذمہ داریوں کے لئے کام آتا۔ 23سالہ فلائنگ افسر سید سکندر علی شاہ کو جنگی مشقوں کے دوران انتہائی اہم مشن مل چکا تھا، انہیں اگلے چند گھنٹوں میں ٹیک آف کرنا تھا اور اپنی زمینی افواج کی مدد کے لئے ان کی جانب سے نشاندہی کردہ 15مقامات پر دشمن کی پوزیشنوں پر انتہائی نچلی پرواز کے ساتھ فضائی حملے کرنا تھے اور واپس اپنی پوزیشن پر لینڈ کرنا تھا، ان کے پاس F-86سائبر نامی لڑاکا طیارہ تھا جو امریکہ کا تیار کردہ اپنے وقت کا کامیاب ترین جنگی جہاز کہلاتا تھا، وہ ہدایات ملتے ہی اپنے مشن پر جانے کے لئے تیار تھے، اگلے چند لمحوں میں وہ پشاور ایئر بیس سے اپنے مشن کے لئے ٹیک آف کر چکے تھے، ان کا مشن اگلے ایک گھنٹے میں اپنی زمینی افواج کی جانب سے بتائے جانے والی دشمن کے 15اہداف کوٹارگٹ کرنا اور واپس آنا تھا، پاک فوج اور ایئرفورس کی مشترکہ مشقوں کا یہ اہم ترین مشن تھا، وہ ایک کے بعد ایک حملہ کرکے دشمن کے ٹارگٹ کو تباہ کرکے اپنے ہیڈ کوارٹر کو اپنی کامیابی سے آگاہ کررہے تھے، اگلے چند منٹوں میں دشمن کے 10ٹارگٹ تباہ ہو چکے تھے لیکن اس سے پہلے کہ وہ 11ویں ٹارگٹ کو اپنا ہدف بناتے ان کے کاک پٹ میں شارٹ سرکٹ سے آگ لگ چکی تھی، صورتحال انتہائی سنگین ہو چکی تھی، انہوں نے کنٹرول ٹاور کو صورتحال کی سنگینی سے آگاہ کیا، آگ اس تیزی سے پھیل رہی تھی کہ کنٹرول ٹاور نے انہیں فوری طور پر جہاز سے چھلانگ لگانے کے احکامات جاری کر دیے لیکن جہاز کو بچانے کے لئے آخری وقت تک کوششیں جاری رکھیں، جب اپنی اس کوشش میں ناکام ہوئے تو انہوں نے جہاز کو آبادی سے دور لے جانے کی بھرپور کوشش کی، جس میں وہ کامیاب بھی ہوئے لیکن جب انہوں نے جہاز سے نکلنے کی کوشش کی تو آگ بہت زیادہ بڑھ چکی تھی جبکہ مشن کی تکمیل کے لئے وہ صرف ڈیڑھ سو سے دو سو فٹ کی بلندی پر پرواز کررہے تھے لہٰذا جہاز سے نکلنے کے لئے جیسے ہی انہوں نے ایجیکٹ کا بٹن دبایا تو وہ جہاز سے باہر توآ گئے لیکن وہ زمین سے چار سو فٹ اوپر ہی جا سکے جبکہ پیرا شوٹ کھلنے کے لئے کم از کم ایک ہزار فٹ کی بلندی ضروری ہوتی ہے یہی وجہ تھی کہ فلائنگ افسر سید سکندر علی شاہ کا پیرا شوٹ نہیں کھل سکا اور ان کے جہاز کے تباہ ہونے کے چند لمحوں بعد وہ بھی جمرود کے مقام پر شدید زخمی حالت میں گر کر شہید ہو گئے، وہ پاکستان ایئر فورس کے 23 سال کے انتہائی بہادر پائلٹ تھا جس نے پہلے جہاز کو بچانے کی کوشش کی پھر جہاز کو آبادی سے دور لے کر گیا اور پھر مادرِ وطن کے لئے اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کردیا، 13دسمبر کو شہید ہونے کے بعد ان کی میت کو مسرور ایئر بیس لایا گیا اور پورے پروٹو کول کے ساتھ کراچی میں ان کی تدفین کردی گئی، شہید سکندر علی شاہ سات بھائی بہنوں میں پانچویں نمبر پر تھے، انتہائی ذہین تھے، ہمیشہ اپنی کلاس میں ٹاپ کرتے رہے، بچپن سے ہی فوج میں جانے کے شوقین تھے جس کے لئے پہلے پاک آرمی میں اپلائی کیا، ناکامی ہوئی تو ایئر فورس میں اپلائی کیا جہاں پہلی کوشش میں ہی ان کی سلیکشن ہوئی اور 18سال کی عمر میں ان کی ٹریننگ کا آغاز ہوا، ڈھائی سالہ ٹریننگ کے بعد بطور پائلٹ افسر ملازمت کا آغاز کیا، ایک پروموشن بھی ہوئی اور پھر صرف تیئس سال کی عمر میں ملک کے لئے جان کا نذرانہ پیش کردیا، ان کے بڑے بھائی اپنے شہید بھائی کی شہادت کی تفصیلات سے آگاہ کررہے تھے، ان کی آنکھیں نم تھیں اور وہ دکھی تھے لیکن خوش بھی کہ وہ شہید کے بھائی ہیں، میں گزشتہ دو ہفتوں سے ہر روز شہید کی قبر پر حاضری دیتا ہوں کیونکہ ان کی قبر کے برابر میں میرے والد بھی دفن ہیں، دعا ہے اللہ تعالیٰ دونوں کے درجات بلند کرے، بے شک شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے، پوری قوم کو 6 ستمبر کی مناسبت سے یومِ دفاع مبارک ہو۔