ڈیسک خریداری،ٹینڈر کا طریقہ درست ہے، صوبائی وزیر سعید غنی

September 18, 2021

کراچی ( اسٹاف رپورٹر) سندھ اسمبلی، محکمہ تعلیم کی جانب سے ڈیسک خریداری کا معاملہ ایوان میں پہنچ گیا، صوبائی وزیر سعید غنی نے کہا کہ پروکیورمنٹ اور ٹینڈر کا جو طریقہ کار اختیار کیا گیا وہ درست ہے، تاہم میں چاہتا ہوں یہ ٹینڈرز منسوخ ہوجانا چاہیے، زبانی باتوں پر نہ جائیں، یہاں صرف سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی گئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق جمعہ کو اجلاس میں اپوزیشن لیڈر حلیم عادل شیخ نے اپنے ایک نکتہ اعتراض پر کہا کہ ایک نجی اسکول میں ایک بچی کو فیس نہ ہونے کی وجہ سے ہراساں کیا گیابچی کے والد کو اسکول سے دھکے دیکر باہر نکال دیا گیا۔ انہوں نے حکومت سندھ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جب اسکولوں کو بند کیا جائیگا تو پھر نجی اسکول میں بچے جائینگے اورنجی اسکولوں کو ٹھیک کرنے والا کوئی نہیں ہے حالانکہ یہ سندھ کے بچوں کی تعلیم کا معاملہ ہے۔انہوں نے کہا کہ سندھ میں دس ہزار اسکولوں کو بند کیا جارہا ہے۔ وزیر پارلیمانی امور مکیش چاولہ نے اس پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ کیس کورٹ میں چل رہا ہے یہ عدالتی معاملہ ہے۔ حلیم عادل شیخ نے ایوان کو بتایا کہ محکمہ تعلیم نے ساڑھے پانچ ہزار کی ڈیسک 30 ہزار فی ڈیسک کی قیمت پرخریدی ہیں۔ جب یہ فیصلہ ہوا اس وقت سردار شاہ وزیر تعلیم تھے۔قائد حزب اختلاف نے کہا کہ سندھ کے بچوں اور تعلیم پر رحم کیا جائے۔اس موقع پر صوبائی وزیراطلاعات سعید غنی نے صورتحال کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ 2018 میں ایک سینٹرل پروکیورمنٹ کمیٹی بنائی گئی تھی، جسکے سربراہ نثار صدیقی تھے۔وہ بہت ہی معتبر نام ہے۔اس کمیٹی کے معین الدین حیدر بھی ممبر تھے۔اسوقت کمیٹی نے جو اسسمنٹ بنایا تھا۔اس میں بھی 14 ہزار تک کی ڈیسک تھی اورایک بڈ میں سات ہزار کی بھی آئی تھی۔انہوں نے کہا کہ نیب کو خطوط لکھ کر کہا گیا اپنا نمائندہ مقررکر دیںلیکن جب یہ پروکیورمنٹ کا سلسلہ شروع ہوا۔دس مختلف ٹینڈرز ہونے تھے۔ پانچ ٹینڈرز کیلئے مختلف پارٹیوں نے کوالیفائی کرلیا۔ سعید غنی نے کہا کہ چار صفحات کا خط ڈی جی نیب کو لکھا۔جسکے ساتھ میں ڈاکومنٹس بھی لگائے گئے تھے۔انہوں نے کہا کہ یہ سارا ایشو ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے خط سے بنا ہے اور نیب کے پاس اس حوالے سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ وزیر اطلاعات نے کہا کہ ٹرانسپرنسی کا نمائندہ بھی کمیٹی کا ممبر ہے وہ شروع میں آیا پھر آنا چھوڑ دیا۔سعید غنی نے کہا کہ کمیٹی کا سربراہ حکومت اپنی مرض سے نہیں بنا سکتی ہے۔ہمارے ایک دوست بازار سے بینچ خرید کرلے آئے۔ سرکاری اداروں میں پیسے جیب میں ڈال کر لیاقت آباد سے خریداری نہیں کرسکتے۔جو طریقہ کار اختیار کیا گیا وہ درست ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں چاہتا ہوں یہ ٹینڈرز منسوخ ہوجانا چاہیے۔