عمران طالبان مذاکرات

September 20, 2021

افغانستان میں جامع حکومت کے قیام کے لیے وزیر اعظم عمران خان کا طالبان سے بات چیت کے آغاز کا اعلان خطے کی موجودہ صورت حال میں ایک اہم انکشاف ہے ۔ سوشل میڈیا کے توسط سے اس اعلان کے لیے جس وقت اور جس مقام کا انتخاب کیا گیا، اُس نے اِس کی اہمیت مزید بڑھادی ہے۔ وزیر اعظم نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر یہ بیان تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے اختتام پرجاری کیا جس میں اس عزم کا اظہار کیا گیا ہے کہ’’ پر امن اور مستحکم افغانستان کیلئے تاجک،ہزارہ اور ازبک برادری کو عبوری حکومت میں شامل کرائیں گے ۔‘‘ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’ دوشنبے میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے رہنماؤں سے ملاقاتوں خصوصاً تاجکستان کے صدر امام علی رحمان سے طویل بات چیت کے بعد میں نے ایک جامع حکومت کی خاطر تاجک، ہزارہ اور ازبک برادری کی افغان حکومت میں شمولیت کیلئے طالبان سے مذاکرات کی ابتدا کر دی ہے کیونکہ چالیس برس تک لڑائی کے بعد تمام دھڑوں کا اقتدار میں شامل ہونا نہ صرف افغانستان کے استحکام کا ضامن بلکہ خطے کے مفاد میں بھی ہے۔ ‘‘ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں حالات کے تقاضے کے عین مطابق افغانستان اہم ترین موضوع رہا۔چالیس سال تک جنگ کے شعلوں میں جھلسنے والے اس تباہ حال ملک میں اب بہرصورت امن و استحکام کے دور کے آغاز پر چین، روس ، پاکستان، ایران اور تاجکستان سب نے اتفاق کیا۔ چین، روس، پاکستان اور ایران کے وزرائے خارجہ کے ایک غیررسمی اجلاس میںچینی وزیر خارجہ وانگ یی کا کہنا تھا کہ چاروں ممالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ مواصلات اور ہم آہنگی کو مضبوط کریں، متفقہ آواز اٹھائیں، مثبت اثر و رسوخ رکھیں اور افغانستان کی صورتحال کو مستحکم کرنے میں تعمیری کردار ادا کریں۔انہوں نے مزید کہا کہ خطے کے ممالک نئی افغان حکومت سے توقع کرتے ہیں کہ وہ وسیع بنیادوں پر مشتمل، دہشت گردی سے پاک اور پڑوسیوں کے لیے دوستانہ ہو۔ افغانستان کے امن و استحکام اور تعمیر و ترقی کے لیے اس کے ہمسایہ ملکوں کی یہ فکرمندی طالبان کے لیے یقینا قابل قدر ہونی چاہیے ۔ پاکستان ، چین اور دوسرے دوست ملکوں کا افغانستان میں تمام نسلی گروپوں کی نمائندہ حکومت کے قیام کے مشورے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اب پوری افغان قوم ہر طرح کی باہمی کشمکش سے دامن کش ہوکر پوری یکسوئی کے ساتھ اپنے وطن کی تعمیر و ترقی میں مشغول ہو۔ وزیر اعظم عمران خان کاطالبان سے مذاکرات کے آغاز کا اعلان اگرچہ خوش آئند ہے لیکن طالبان سے کوئی بات بالکل اپنی تجویز کے مطابق منوالینے کا دعویٰ نہیں کیا جانا چاہیے۔ بیرونی جارحیت کے خلاف بیس سال کی فقید المثال مزاحمت میں انہوں نے افغان عوام کی بھاری اکثریت کی بھرپور حمایت لیکن دنیا کی کسی دوسری طاقت کی ذرّہ برابر مدد کے بغیر کامیابی حاصل کی ہے لہٰذا وہ آزادانہ فیصلوں کا پورا اختیار رکھتے ہیں۔ مزید یہ کہ طالبان سے مذاکرات کے اعلان کا یوںاچانک ڈرامائی طور پر منظر عام پر آنا ، اس سے پہلے قومی سطح پر کسی مشاورت کا نہ ہونا اور پارلیمنٹ کا بظاہر اس پیش رفت سے قطعی لاعلم ہونا، اس معاملے کے نہایت غور طلب پہلو ہیں۔ دو سال پہلے صدر ٹرمپ سے ملاقات کے بعد ایران اور امریکہ میںمفاہمت کرانے کا عزم بھی اس طرح یکایک ظاہر کیا گیا تھا، ان ہی دنوں ایران اور سعودی عرب میں مصالحت کا مشن شروع کرنے کا اعلان بھی سامنے آیا تھا، لیکن کسی قومی پالیسی کے بغیر کیے گئے یہ اعلانات کسی نتیجے تک نہ پہنچ سکے۔لہٰذا طالبان سے مذاکرات کے معاملے کو بھی محض ذاتی فیصلے کے تحت آگے بڑھانے کے بجائے پارلیمنٹ میں پالیسی سازی کے مطابق ہی چلایا جانا چاہئے۔