رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو دستاویزی کرنے کی شرط

September 20, 2021

FATF پر میں تواتر کے ساتھ مختلف کالم لکھ چکا ہوں۔ میں نے اپنے آخری کالم میں بتایا تھا کہFATF کی 40میں سے اب صرف ایک شرط پر عملدرآمد کرنا باقی ہے جو پراپرٹی میں مشکوک سرمایہ کاری اور رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو دستاویزی بنانے سے متعلق ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان کے رئیل اسٹیٹ سیکٹر کی مالیت 300سے 400ارب ڈالر ہے جبکہ جی ڈی پی میں اس سیکٹر کا حصہ 2فیصد یعنی 5ارب ڈالر سالانہ ہے۔ ملک میں روزگار اور سستے مکانات فراہم کرنے کیلئے وزیراعظم نے تعمیراتی ایمنسٹی کا اعلان کیا تھا جس سے کنسٹرکشن اور اس سے منسلک شعبوں میں تیزی دیکھنے میں آئی۔ چند روز پہلے ایف بی آر کے نئے چیئرمین ڈاکٹر محمد اشفاق نے اعلان کیا تھا کہ اب بلڈرز، ڈویلپرز اور رئیل اسٹیٹ ایجنٹس سے خرید و فروخت کا مکمل ریکارڈ حاصل کیا جائے گا اور اینٹی منی لانڈرنگ اور دہشت گرد فنانسنگ کے قوانین کے تحت ان کے مشکوک سودوں کی تفتیش کی جائے گی جس کیلئے پراپرٹی ڈیلرز کو 4صفحات پر مشتمل آسان سوالنامہ دیا جائے گا جو آن لائن فائل کرنا ہوگا جبکہ ایف بی آر نے 22,000پراپرٹی ڈیلرز کی رجسٹریشن کیلئے لائسنس کا نظام بھی تجویز کیا ہے۔

قارئین! ملک میں رئیل اسٹیٹ سیکٹر کالا دھن چھپانے کا سب سے آسان ذریعہ ہے کیونکہ پراپرٹی کی سرکاری ویلیو مارکیٹ ویلیو سے نہایت کم اور پراپرٹی آدھی سے بھی کم ویلیو ڈکلیئر کی جاتی ہے جبکہ بقایا رقم Unofficial ادا کی جاتی ہے جس کی وجہ سے حکومت کو ٹیکسوں کی وصولی کم ہوتی ہے۔ کالا دھن چھپانے کا یہ آسان طریقہ کار کئی دہائیوں سے چلا آرہا ہے جس پر اب FATF نے بھی اعتراض کیا ہے اور اصلاحات کے ذریعے رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو اینٹی منی لانڈرنگ قوانین کے نفاذ سے دستاویزی شکل دینے پر زور دیا ہے۔ ایف بی آر کے نئے طریقہ کار کے مطابق اب پراپرٹی ڈیلر کو 86 سوالوں پر مشتمل سوالنامے میں پراپرٹی خریدتے یا فروخت کرتے وقت پیمنٹس سمیت تمام تفصیلات فراہم کرنا ہوں گی۔ FATF کی ہدایات کے مطابق کسی دہشت گرد یا کالعدم تنظیم سے کوئی جائیداد کی خرید و فروخت نہیں کی جاسکتی اور کسی پراپرٹی کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم دہشت گردوں کو منتقل نہیں کی جاسکتی۔ ایف بی آر نے ایک App کے ذریعے 4500دہشت گردوں کی ایک فہرست رئیل اسٹیٹ ایجنٹس کو فراہم کی ہے ، رئیل اسٹیٹ ٹرانزیکشن کرتے وقت اگر کسی دہشت گرد کا نام ظاہر ہوتا ہے تو ایجنٹ کو ’’مشکوک ٹرانزیکشن رپورٹ‘‘ (STR) کے ذریعے فوری طور پر متعلقہ حکام کوآگاہ کرنا ہوگا۔ اسکے علاوہ پراپرٹی بیچنے یا خریدنے والے کو پراپرٹی کے اصل مالک کے بارے میں بھی بتانا ہوگا۔ اگر حقیقی خریدار کے بجائے تھرڈ پارٹی پراپرٹی خرید رہی ہے تو انہیں پراپرٹی کے حقیقی مالک کے بارے میں آگاہ کرنا ہوگا اور سودے کی منی ٹریل بھی فراہم کرنا ہوگی جس پر آج کل عملدرآمد نہیں ہورہا۔

FATF کی شرط ورثے میں ملنے والی پراپرٹی پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ ان اقدامات کے بعد اب بے نامی جائیداد رکھنا ممکن نہیں رہیگا۔ اِن شرائط پر عملدرآمد کیلئے ضروری ہے کہ پاکستان میں جائیداد، دکان، مکان اور اراضی کی خرید و فروخت کے عمل کو دستاویزی بنایا جائے۔ ایف بی آر کے مطابق اس نئے طریقہ کار پر عملدرآمد نہ کرنے کی صورت میں جرمانے کے ساتھ سزائیں بھی تجویز کی گئی ہیں۔ نئی ترامیم کے مطابق جرمانے کی رقم ایک کروڑ روپے سے بڑھاکر 5کروڑ اور 10سال قید کی سزا ہوگی۔ اس کے ساتھ دہشت گردوں کی فہرست میں شامل افراد کے اسلحہ لائسنس منسوخ کردیئے جائیں گے اور کسی مشتبہ دہشت گرد کو کوئی ادارہ قرض نہیں دے سکے گا۔ دہشت گردی ایکٹ پر عملدرآمد نہ کرنے کی صورت میں قرض دینے والے ادارے پر 5کروڑ روپے تک کا جرمانہ کیا جاسکتا ہے۔ کسی کالعدم تنظیم سے تعلق رکھنے والے شخص کی تمام منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد فوری منجمد کی جائے گی اور جائیداد کی تصدیق نہ ہونے کی صورت میں اس کی قرقی کی جائے گی۔

بظاہر FATF کے یہ قوانین بہت سخت نظر آتے ہیں جس پر ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈویلپرز (آباد) نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان اقدامات سے تعمیراتی پروجیکٹس متاثر ہوں گے اور ملکی معاشی گروتھ میں کمی آئے گی۔پاکستان 29جون 2018ء سے FATF کی گرے لسٹ میں ہے اور 22سے 25 فروری 2021ء کے گزشتہ اجلاس میں پاکستان کو شدت پسندوں کی مالی امداد کی روک تھام کیلئے 3 شعبوں میں مزید اقدامات کرنے کا کہا گیا تھا جس میں دہشت گردوں کی مالی معاونت اور کالعدم تنظیموں کیلئے کام کرنے والے افراد کے خلاف قانونی کارروائی اور ان کی مالی امداد میں ملوث افراد کو سزا دینا شامل ہے۔ پاکستان گزشتہ 38 مہینوں میں FATF کے 27 میں سے 26 ایکشن پلان پر عملدرآمد کرچکا ہے اور اب ہمیں باقی 3 نکات پر مکمل عملدرآمد کرکے پاکستان کو گرے لسٹ سے جلد از جلد نکالنا ہوگا کیونکہ پاکستان کا گرے لسٹ میں مزید رہنا ملکی کمزور معیشت کیلئے اچھا شگون نہیں ہوگا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق ترکی، چین اور سعودی عرب (مبصر)نے پاکستان کے گرے لسٹ میں شامل رکھنے کی قرارداد کی مخالفت کی تھی لیکن بعد میں چین اور سعودی عرب نے بھی پاکستان کے خلاف ووٹ دے دیا۔ وزارت خارجہ کو چاہئے کہ FATF کے باقی 33 ممالک کو قائل کرے کہ پاکستان نے اینٹی منی لانڈرنگ اور دہشت گرد فنانسنگ کے خلاف موثر اقدامات کیے ہیں جن میں ملکی قوانین میں ترامیم بھی شامل ہیں جس کی بنیاد پر پاکستان کو گرے لسٹ میں مزید شامل رکھنا زیادتی ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)