پیارا پاکستان

July 28, 2013

عمر اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میرا یہ یقین پختہ سے پختہ تر ہوتا جارہا ہے کہ خون میں ڈوبی ہوئی کسی بڑی تبدیلی کے بغیر سیاسی فراڈیوں سے پاکستانیوں کی جان نہیں چھٹ سکتی۔ یہ ٹھگ اور بہروپئے عوام کو کس کس طرح کتنی بے حیائی سے بے وقوف بناتے ہیں، ذرا غورفرمائیں کہ یہ ایک مثال ہی کافی ہے۔
امیگریشن قوانین کے ماہر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ مبین الدین قاضی نے یہ سنسنی خیزانکشاف کیاہے کہ پاکستان میں الیکشن لڑنے اور بڑے منصب حاصل کرنے والے دوہری شہریت کے حامل لوگ سپریم کورٹ کے احکامات کامذاق اڑارہے ہیں۔ غیر ملکی شہریت سے بظاہر دست برداری اختیار کرنے والے کسی بھی نوٹنکیئے سیاستدان نے کبھی اپنا”آئی ایل آر“ سٹیٹس ترک نہیں کیا۔ سپریم کورٹ اس کا نوٹس لے، مبین قاضی بتاتے ہیں کہ غیر ملکی شہریت ترک کے دعویدار دراصل سپریم کورٹ کی پابندی کا پیٹ بھرنے اور خانہ پری کے لئے جواقدامات کررہے ہیں اس میں وہ ILRیعنی غیرمعینہ مدت کے قیام سے دستبردار ہرگز نہیں ہورہے، برطانیہ کے الیکٹورل ایڈمنسٹریشن ایکٹ2006ء کے تحتILRسٹیٹس کے حامل پاسپورٹ سے دستبرداری کے بعد معمولی سی فیس آر ایف آئی فارم کے ساتھ جمع کروا کر وہاں دوبارہ الیکشن لڑسکتے ہیں اور انہیں بدستور وہاں صحت، تعلیم وغیرہ کی سہولیات بھی حاصل رہیں گی اور اس کے علاوہ ان کے ہاں پیدا ہونے والے بچے بھی پیدائشی برطانوی ہوں گے۔ قاضی صاحب نے اس سلسلہ میں متعدد وارداتیوں کی اس حوالہ سے دستاویزات اکٹھی کرلی ہیں جنہیں وہ سپریم کورٹ کے سامنے پیش کرکے ایسے ٹھگوں کو بے نقاب کرینگے جو ایک طرف سپریم کورٹ کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں تو دوسری طرف پاکستانی قوم کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ ان کے سیاسی گاڈ فادرز اور سیاسی سرپرستوں کی بھی سرکوبی کی جائے جو ان سے ڈالرز اور پاؤنڈز کھانے کے بعد انہیں پاکستان ”کھلوانا“ چاہتے ہیں۔
عام طور پر تارکین وطن اور بیرون ملک پاکستانیوں کو بہت بہتر سمجھا جاتا ہے اور وہ ہوتے بھی ہیں کیونکہ مالی آسودگی پالینے اور مہذب دنیا میں سالوں رہ لینے کے بعد ان کی ترجیحات تبدیل ہوجاتی ہیں اور وہ”دو نمبرکاموں میں ایک نمبر“ کی دوڑ سے مکمل طور پردستبردار ہوجاتے ہیں
لیکن پاکستان کو دیکھتے ہی اندر کا سویا ہوا شیطان پھر سے بیدار ہو کر دانت تیز کرنے لگتا ہے۔ خدا جانے پاکستان میں ایسی کیا چیز ہے کہ یہاں”چانس“ ملتا دیکھ کر ہر کوئی ہیجان میں مبتلا ہوجاتا ہے۔
اچھی صورت بھی کیا بری شے ہے
جس نے ڈالی بری نظر ڈالی
یہی حال پاکستان ہے کیونکہ یہاں منصب پانے کا مطلب ذمہ داری یا خدمت نہیں…لوٹ مار اور بادشاہت ہے۔ میں نے ایک بار ٹی وی پر کہہ دیا تھا کہ”دوہری شہریت دراصل دوہری ولدیت کی طرح ہے“۔ بیرون ملک پاکستانیوں بالخصوص میرے دوستوں اور رشتہ داروں نے اس کا برا منایا، احتجاج کیا اور اس کے حق میں زور دار دلائل بھی دئیے تو میں نے اپنی عادت کے خلاف نہ صرف اپنے الفاظ واپس لے لئے بلکہ معذرت بھی کی لیکن ایڈووکیٹ مبین الدین قاضی کے اس انکشاف نے مجھے پھر سے ڈانواں ڈول کردیا ہے کہ جو موقعہ پرست کسی چار روزہ منصب یا ”دو ٹکیاں دی نوکری“ کے لئے اپنی عدلیہ اور عوام کے ساتھ دھوکہ، فریب، ہیرا پھیری اور فراڈ سے کام لے سکتا ہے وہ اس ملک و معاشرہ کے لئے مزید منحوس نہیں تو اور کیا ثابت ہوگا۔ آخر پر میں مبین قاضی صاحب کا شکریہ ادا کروں گا جو ثبوت، حقائق اور اعداد و شمار اکٹھے کرنے کی زحمت اٹھانے کے بعد عوام کو ان شیطانوں سے محفوظ رکھنے کے لئے عدالت سے رجوع کررہے ہیں۔
بات ہوری تھی عدلیہ کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی خبیثانہ کوشش کی کہ اعتزاز احسن کے اس تازہ ترین بیان نے باقاعدہ جھنجھوڑ کر رکھ دیاکہ…”عدلیہ کا رازداں ہوں، وقت آنے پر تمام پردے اٹھادوں گا“تو اس پر محاوروں سے لے کر شاعری تک بہت کچھ یاد آرہا ہے مثلاً
”گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے“
”پردے میں رہنے دو، پردہ نہ اٹھاؤ، پردہ جو اٹھ گیا بھید کھل جائے گا…اللہ میری توبہ اللہ میری توبہ“
یا پھر وہ شعر جس کا دوسرا مصرعہ یوں ہے کہ #
شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے“
ویسے ا للہ ای جانے”مناسب وقت“ سے اعتزاز کی مراد کیا ہے کہ لڑائی کے بعد یاد آنے والا تھپڑ تو اپنے منہ پر ہی ماراجائے تو بہتر ہوتا ہے۔
اک عربی کہاوت ہے کہ
”راز امانت ہوتا ہے“
”چھوٹے راز شور مچاتے ہیں، بڑے راز خاموش رہتے ہیں“(یہ ایک ہسپانوی ضرب المثل ہے)۔
اک مردہ زبان پر اکرت کے ایک محاورے کا ترجمہ ہے کہ…”شریک حیات کو بھی اپنے کسی راز میں شریک نہ کرو“۔
اور اس قدیم چینی دانشور کا بھی جواب نہیں کہ
”عورت کمزور ہوتی ہے اس لئے راز کی حفاظت نہیں کرسکتی
مارکوئیس نے کہا تھا
”عورت صرف اپنی عمر کاراز ہی مخفی رکھ سکتی ہے“
ملکی حالات کو مزید اچھی طرح سمجھنے اور اپنے ”مستقبل بارے ذرا بہتر اندازہ لگانے کے لئے آئی ایم ایف اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے بیان پڑھئیے اور سوچیئے کہ آپ کے ساتھ اور کیا کیا کچھ ہونے والا ہے۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ…ہر پاکستانی شہری81ہزار روپے کا مقروض ہے اور گزشتہ14برس میں قرضے 2000 اور 800 ارب سے بڑھ کر14ہزار800ارب تک پہنچ گئے ہیں۔ ابھی اندرونی قرضوں کا ذکر نہیں اور میں سوچ رہا ہوں کہ اس ملک میں صرف آبادی، قرضے ،لوٹ مار، مہنگائی، افراط زر، لوڈشیڈنگ، پروٹوکول اور دہشتگردی ہی بڑھتی پھلتی پھولتی ہے…کبھی کسی ڈھنگ کی چیز میں اضافہ نہیں ہوا تو آسکر وائیلڈ یاد آتا ہے جس نے ایسی لعنتی جمہوریت کے بارے میں کہا تھا
”جمہوریت کی سادہ ترین تعریف یہ ہے کہ لوگوں کے ڈنڈے کو لوگوں کے لئے لوگوں کی ننگی پیٹھ پر توڑ دیا جائے“
پاکستان میں کچھ بیرون ملک پاکستانیوں سے لے کر اندرون ملک پاکستانیوں تک……سب اسی کار خیر میں مصروف ہیں ورنہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کو یہ نہ کہنا پڑتا کہ
”دودھ جلیبیاں بیچنے والے صدارتی امیدوار ہیں“
واقعی جیسی روح ویسے فرشتے، جیسا منہ ویسا تھپڑ، جیسا قبیلہ ویسا سردار!