امریکی اعتراف۔ معصوم بچوں کے خون کا ازالہ نہیں

September 22, 2021

26اگست کو کابل ایئر پورٹ پر داعش کے خود کش بم دھماکے میں 13امریکی فوجیوں کی ہلاکت کے ردعمل کے نتیجے میں امریکہ نے 29اگست کو کابل کے گنجان آباد علاقے میں ایک گھر کے باہر کھڑی گاڑی پر ڈرون حملہ کرکے داعش کے دہشت گردوں کے ہلاک ہونے کا دعویٰ کیا تو مرنے والے 10افراد میں 7بچوں کی ہلاکت سے یہ بات واضح ہوگئی کہ جاں بحق افراد کا تعلق داعش سے نہیں تھا۔ امریکی حکام بضد رہے کہ ہدف بنائی جانے والی گاڑی بارود سے بھری ہوئی تھی اور حملے میں ہلاک ہونے والا شخص زماری احمدی داعش کا سرگرم دہشت گرد تھا جو امریکی افواج پر حملہ کرنے والا تھا۔ بعد ازاں حملے میں مرنے والے شخص زماری احمدی کے بھائی کے بیان اور عالمی میڈیا کی تحقیقی رپورٹ سے یہ بات سامنے آئی کہ ڈرون حملے میں ہلاک ہونے والوں کا داعش سے کوئی تعلق نہیں تھا اور زماری احمدی اپنے 3بھائیوں اور اہلِ خانہ کے ساتھ ڈرون حملے میں تباہ ہونے والے گھر میں رہائش پذیر تھا۔ اطلاعات ہیں کہ ڈرون کا نشانہ بننے والی گاڑی افغان الیکٹریکل انجینئرز ماری احمدی کی تھی جو امریکی امدادی تنظیم کیلئے کام کرتا تھا اور اس نے امریکہ میں پناہ گزین بننے کی درخواست بھی دے رکھی تھی۔ زماری فلاحی کاموں کے باعث محلے میں مقبول تھا۔ وہ ڈرون حملے سے کچھ دیر پہلے محلے کے بچوں میں خوراک تقسیم کرکے جونہی اپنے گھر لوٹا اور گھر میں موجود بچے اس سے ملنے کیلئے لپٹے ہی تھے کہ ان پر قیامت ٹوٹ پڑی اور کچھ لمحوں بعد ہی زماری احمدی اور بچوں کی لاشیں اور اعضا بکھرے پڑے تھے۔

بالآخر گزشتہ دنوں امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل فرینک میکنزی کو عالمی میڈیا کے دبائو پر یہ اعتراف کرنا پڑا کہ امریکی ڈرون حملے میں مارے جانے والے افراد دہشت گرد نہیں بلکہ عام شہری تھے۔ جنرل فرینک میکنزمی کے بقول انہیں یہ انٹیلی جنس اطلاعات تھیں کہ کابل ایئر پورٹ پر موجود امریکی افواج پر حملہ کیا جائے گا، اس لئے ڈرون حملہ کیا گیا لیکن بعد ازاں یہ انٹیلی جنس معلومات غلط نکلیں جس کی وہ مکمل ذمہ داری لیتے ہیں۔ واضح رہے کہ اس سے قبل پنٹاگون اس بات پر بضد تھا کہ مرنے والوں کا تعلق داعش خراساں سے تھا اور ڈرون حملے میں تباہ ہونے والی زماری احمدی کی گاڑی دھماکہ خیز مواد سے بھری ہوئی تھی تاہم بعد ازاں سی سی ٹی وی کیمرے کی رپورٹ سے یہ واضح ہوا کہ گاڑی میں بارود نہیں بلکہ پانی کے کین رکھے تھے جو زماری اپنے گھر لے جارہا تھا۔یہ پہلا موقع نہیں بلکہ اس سے قبل بھی سینکڑوں بےگناہ شہری غلط انٹیلی جنس کی بنیاد پر امریکی ڈرون حملوں کا نشانہ بنتے رہے ہیں اور امریکہ وقتاً فوقتاً اپنی غلطیوں کا اعتراف بھی کرتا رہا ہے۔ سابق امریکی صدر بارک اوباما اپنے دور حکومت میں ڈرون حملوں میں بڑی تعداد میں معصوم شہریوں کی ہلاکت کا اعتراف کر چکے ہیں۔ بات صرف عام شہریوں کی ہلاکت کی نہیں بلکہ غلط انٹیلی جنس کا شکار اسلامی ممالک بھی ہوئے جس کی مثال عراق ہے جہاں امریکہ نے مہلک ہتھیاروں کی موجودگی کی غلط انٹیلی جنس کی بنیاد پر حملہ کیا جس میں بے گناہ بچوں سمیت ہزاروں عام شہری مارے گئے اور پورا ملک تباہی سے دوچار ہوا مگر مہلک ہتھیاروں کی موجودگی کے کوئی ثبوت نہیں ملے۔ اسی طرح 2011میں غلط انٹیلی جنس کی بنیاد پر سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی حملے کے نتیجے میں پاک فوج کے 24جوان شہید اور 13زخمی ہو گئے تھے۔ حملے سے پاک امریکہ تعلقات کشیدہ ہو گئے تھے اور حکومت پاکستان نے امریکہ سے شمسی ایئر بیس خالی کرواکر افغانستان جانے والی اتحادی افواج کی سپلائی روک دی تھی جو 7ماہ سے زائد عرصہ بند رہی۔ بعد ازاں امریکی وزیر خارجہ کی معذرت کے نتیجے میں کشیدگی میں کمی آئی اور اتحادی افواج کی سپلائی بحال ہوئی۔

امریکہ، افغانستان میں اپنی ناقص انٹیلی جنس کی بنیاد پر ہونے والی شکست کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے پاکستان کوقربانی کا بکرا (Scapegoats) بنانا چاہتا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن کا حالیہ بیان قابلِ افسوس ہے جس میں انہوں نے افغانستان میں امریکی شکست کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہراتے ہوئے واشنگٹن، اسلام آباد تعلقات پر نظرثانی کا عندیہ دیا ہے۔ ان کے اس بیان کو دھمکی تصور کیا جارہا ہے جس کے بعد امریکہ اور اس کے حواریوں نے پاکستان کے خلاف الزامات کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کی اچانک واپسی، انگلینڈ ٹیم کا پاکستان آنے سے انکار، پاکستان کا FATFگرے لسٹ میں برقرار رہنا، یورپی یونین کا ڈیوٹی فری جی ایس پی پلس سہولت واپس لینا اور آئی ایم ایف کی سخت شرائط پاکستان کے خلاف انہی سازشوں کا نتیجہ ہیں۔ پاکستان کیلئے یہ وقت افغان جنگ کی فتح کا جشن منانے کا نہیں بلکہ لمحہ فکریہ ہے کہ وہ ملک جس نے 40سال تک امریکہ کا ساتھ دیا اور امریکی جنگ میں ہزاروں جانیں قربان کیں، آج وہی امریکہ پاکستان سے اپنے تعلقات پر نظرثانی کا کہہ رہا ہے جسے محض دھمکی نہیں بلکہ سنجیدگی سے لینا چاہئے۔ حالیہ افغان ڈرون حملے پر غلطی کے اعتراف سے یہ واضح ہو گیا کہ امریکی غلطیوں کی ایک لمبی فہرست ہے جو غلط انٹیلی جنس کا نتیجہ تھیں جس نے دنیا کی بہترین انٹیلی جنس قرار دینے والی سی آئی اے پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ امریکہ نے کابل ایئر پورٹ پر مارے جانے والے اپنے فوجیوں کی ہلاکت کا کچھ ہی دنوں میں معصوم بچوں کی جانوں سے بدلہ لے کر یہ ثابت کردیا ہے کہ امریکہ کی نظر میں مسلمانوں کے خون کی کوئی وقعت نہیں لیکن امریکہ کو نہیں بھولنا چاہئے کہ مسلمانوں کا خون، امریکیوں کے خون سے ارزاں نہیں اور غلطی یا افسوس کا اظہار کرنے سے اس کا ازالہ نہیں ہو سکتا۔