پاناما لیکس... سوال و جواب کافی نہیں، جوڈیشل کمیشن بنائیں!

May 13, 2016

پچھلے مہینے پاناما دستاویزات کے افشا ہونے کی ابتدا کے بعد جہاں بعض سربراہان کے مستعفی ہونے اور بعض کے اپنی غلطیوں کے اعتراف کی خبریں آچکی ہیں وہاں کئی ملکوں میں تحقیقاتی کمیشن کام شروع کرچکے ہیں۔ جمعرات کے روز برطانوی دارالحکومت لندن میں 40ممالک کے رہنمائوں کے علاوہ عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ جیسے اہم مالیاتی اداروں کے سربراہان نے اس بات کا جائزہ لیا کہ عالمی سطح پر بدعنوانی کے خاتمے کے لئے کیا اقدامات کئے جاسکتے ہیں اور اس باب میں کس انداز میں بین الاقوامی اشتراک عمل ممکن ہے۔ مذکورہ بین الاقوامی کانفرنس کے میزبان برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون ہیں جنہیں ان انکشافات میں بالواسطہ طور پر نام آجانے کی بناء پر خفت کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے نہ صرف اپنے اثاثے ظاہر کئے بلکہ بدعنوانی کو ’’ترقی کی بدترین دشمن اور دنیا بھر میں بے شمار مسائل کی جڑ‘‘ قرار دیتے ہوئے اصلاح احوال پر غور کے لئے اہم شخصیات اور صاحبان دانش کے اس اجتماع کا اہتمام کیا۔ تاہم ایک ماہ کے لگ بھگ وقت گزرنے کے باوجود وطن عزیز میں یہ واضح نہیں ہو سکا کہ ہمارے قائدین عدالتی کمیشن کے ذریعے معاملات کی انکوائری چاہتے ہیں یا وزیراعظم سے سوالات کرکے مطمئن ہوسکتے ہیں یا قومی احتساب بیورو(نیب) جیسے کسی ادارے کی تحقیقات کو قبول کرلیں گے۔ ہر روز سامنے آنے والے نت نئے مطالبوں اور ان پر فریقین کی طرف سے اڑائی جانے والی دھول کے پیچھے 3جون کو ممکنہ طور پر پیش کئے جانے والے وفاقی بجٹ سمیت کئی اہم امور چھپ گئے ہیں۔ اسی ہفتے پاناما پیپرز کے دوسرے مرحلے کے افشا سے آف شور کمپنیوں کی ملکیت کے حوالے سے پاکستانیوں کے ناموں کی فہرست میں خاصا اضافہ ہوچکا ہے اور آئندہ سامنے آنے والے ناموں سے ان میں مزید اضافے کی توقع ہے۔ اس لئے احتساب کا بااعتماد طریقہ وضع کرنا نہ صرف ضروری ہوچکا ہے بلکہ اس معاملے کو تاخیر یا سیاسی کھیل کا ذریعہ بنانے سے اجتناب بھی وقت کی ضرورت ہے۔ پچھلے مہینے پاناما پیپرز کے ذریعے آف شور کمپنیوں کی ملکیت کے حوالے سے میاں نواز شریف کے صاحبزادوں کے نام سامنے آنےکے بعد وزیراعظم کی طرف سے ریٹائرڈ ججوں پر مشتمل انکوائری کمیشن کے قیام کا اعلان کیا گیا تھا۔ اپوزیشن کے مطالبے پر حاضر سروس ججوں پر مشتمل کمیشن تشکیل دینے کے لئے انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان کو خط بھی لکھ دیا۔ مذکورہ کمیشن کے لئے وزیراعظم نے جامع ٹرمز آف ریفرنس (ٹی او آرز) کا اعلان کیا جنہیں مسترد کرتے ہوئے اپوزیشن نے اپنے ٹی او آرز پیش کئے۔ اچھا ہوتا کہ جمہوری اطوار کے مطابق دونوں ٹی او آرز کا مل بیٹھ کر جائزہ لینے اور متفقہ ٹی او آرز تیار کرنے کے لئے فریقین تیزی سے حرکت میں آتے۔ اس دوران وزیراعظم سے پارلیمنٹ میں آکر خطاب کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ یہ مطالبہ تسلیم کئے جانے کے بعد توقع ہے کہ وزیراعظم آج یعنی جمعہ کے روز قومی اسمبلی میں منتخب نمائندوں کو اعتماد میں لیں گے۔ اب اپوزیشن کی طرف سے وزیراعظم کے لئے تیار کئے گئے سات سوالات اور ان کے جواب میں حکومت کی طرف سے پوچھے گئے سات سوالات کے لب و لہجے اور زور بیان سے جو کنفیوژن پیدا ہورہا ہے اس کی بجائے ضرورت اس بات کی ہے کہ معاملے کو دانش اور تحمل سے نمٹایا جائے اور چیف جسٹس صاحب کی طرف سے عدالتی کمیشن کی تشکیل کا انتظار کیا جائے۔ عدالت عظمیٰ کے منصف اعلیٰ بااختیار ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن کے متفقہ ٹی او آرز کا انتظار کریں یا احتساب اور انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے خود ٹرمز آف ریفرنس تیار کریں۔ یہ معاملہ ایسا نازک اور سنگین ہے کہ پوری قوم بے چینی کے ساتھ اس باب میں پیشرفت کی منتظر ہے تاکہ الزامات کی زد میں آنے والے تمام افراد کے بارے میں حقائق سامنے آسکیں۔