افغانستان: پہلی ضرورت پائے دار امن

September 22, 2021

افغانستان میں حالیہ دنوں میں امریکا نے ڈرون حملہ کرکے داعش کے سرکردہ رہنما سمیت دس دہشت گردوں کی ہلاکت کا اعلان کیا تھا۔ پھر فوری طور پر پینٹاگون کے سربراہ نے اعلان کیا کہ ہم سے غلطی ہوئی اور اس ڈرون حملے میں داعش کے دہشت گرد نہیں بلکہ سویلین افراد ہلاک ہوئے۔ یہ امریکا کے لئے ایک اور بڑی حزیمت تھی جو اس کو اُٹھانی پڑی۔ سوال یہ ابھرتا ہے کہ امریکا مزید کتنی ہزیمتیں اُٹھانے کی سکت رکھتا ہے۔ رواں صدی میں افغانستان اس کے گلے کی ہڈی بن چکا ہے۔ اکیس سالوں سے زائد عرصہ افغانستان میں الجھا رہا، پھر یکایک وہاں سے پوری فوج سمیت غائب ہوگیا۔

ہر چند کہ دوحہ قطر میں امریکا اور طالبان رہنمائوں کے درمیان بہت کچھ طے ہوا، مگر امریکا نے کابل سے انخلا کا جو طریقہ کار اپنایا اس سے پوری دنیا حیران اور امریکی رائے عامہ امریکی صدرا ور دفاعی اداروں سے سخت ناراض ہیں۔ وہ کہتے ہیں 79سال ضعیف اور بیمار صدر وائٹ ہاؤس میں کیوں جما بیٹھا ہے جو فیصلے کرنے کی صلاحیت کھو چکا ہے۔ صدر کی یادداشت مشکوک ہے۔ پی پی پی کے بانی رہنما ذوالفقار علی بھٹو نے جب وہ جیل میں تھے ایک بیان میں کہا تھا کہ افغانستان ایک سویا ہوا بیل ہے۔

کچھ ناعاقبت اندیش لوگ اس سوئے ہوئے بیل کی دم پکڑ کر کھینچ رہے ہیں۔ وہی ہوا سویا ہوا بیل بپھر کر کھڑا ہوگیا، تب سے اب تک کسی کے قابو نہیں آرہا۔ تازہ حالات یہ ہیں کہ طالبان نے افغانستان میں عبوری حکومت قائم کرلی ہے ۔امریکی افواج طالبان سے ایک معاہدے کے تحت کابل چھوڑ کر جاچکی ہیں۔ لگ بھگ پورے افغانستان پر طالبان کا کنٹرول قائم ہے، مگر صورت حال اتنی سادہ بھی نہیں ہے بیشتر تر مسائل حل طلب بھی ہیں۔

سب سے بڑا مسئلہ نوزائیدہ افغان حکومت کو جو درپیش ہے وہ یہ ہے کہ حکومت کے پاس تنخواہیں دینے کے لئے بھی کوئی رقم نہیں ہے۔ شدید معاشی مسئلہ، خوراک کی کمی اور انتظامی امور کو چلانے کے لئے تربیت یافتہ عملے کی شدید کمی، یہ سب طالبان کی عبوری حکومت کو درپیش ہیں اور ان مسائل سے نمٹنے کے لئے عبوری حکومت کے سرکردہ رہنما پاکستان سے بات چیت کر رہے ہیں۔ افغان رہنمائوں کو اب بہت کچھ کرنا ہے واضح رہے کہ طالبان جو سیاسی نظریہ رکھتے ہیں وہ ایک ٹھوس عقیدہ پر مشتمل ہے طالبان کی قطعی اکثریت اسلامی عقیدہ، اسلامی شعائر اور طرز کو اپنا سیاسی نظریہ مانتے ہیں۔

اس سیاسی نظریہ کے مطابق وہ اپنی طرز حکومت کو استوار کرنا چاہتےہیں، اس ضمن میں پاکستان کا موقف یہ ہے کہ طالبان حکومت کو تسلیم کیا جائے۔ طالبان کی مدد کی جائے تاکہ افغانستان میں پائیدار امن قائم ہوسکے اور یہ پورا خطہ پھر کسی نئے مسئلے سے دوچار ہونے سے محفوظ رہ سکے۔ اس کا دارومدار امریکا اور یورپی ممالک کے رویوں اور پالیسیوں پر منحصر ہیں۔ امریکا نے افغانستان کا بینکوں میں محفوظ سرمایہ منجمد کرادیا ہے۔ یورپی ممالک میں سے تاحال کسی ملک نے افغانستان حکومت کی مالی امداد کا اعلان نہیں کیا ہے۔ ان سب کا رویہ محتاط ہے، تاہم پاکستان مالی امداد دینے کی پوزیشن میں نہ سہی مگر طالبان حکومت کو سیاسی، انتظامی اور اخلاقی مدد ضرور فراہم کررہا ہے ۔

ہرچند کہ پاکستان نے بھی طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے مگر پاکستان پڑوسی ملک ہونے، ہم مذہب، ہم عقیدہ، ہم خیال ہونے اور انسانی بنیادوں پر افغان حکومت کے ساتھ ہمدردانہ اور برادرانہ رویہ اپنائے ہوئے ہے۔ اگر دیکھا جائے تو افغانستان کا سب سے قریبی ملک اور ہمدرد پاکستان ہی ہے۔ پاکستان کے عوام کی بڑی تعداد طالبان سے دلی ہمدردی رکھتی ہے۔ یوں جب کسی اسلامی ملک کو مسئلہ پیش آیا، پاکستان کے عوام نے اس برادر ملک کے ساتھ یکجہتی اور دوستی کا اظہار کیا ہے۔

افغانستان اور پاکستان کے شمال مغربی علاقہ جات کے عوام کے صدیوں پرانے تعلقات چلے آرہے ہیں۔ یہ حقیقت نمایاں ہے کہ اس وقت ان نامساعد حالات میں پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نےطالبان حکومت کی حمایت میں آواز اٹھائی ہے۔ اس حوالے سے ملک کے بعض سیاسی حلقوں کے تحفظات ہیں۔ ان حلقوں کا خیال ہے کہ عمران خان کا موقف اور پالیسی قبل از وقت ہے جبکہ فی الفور یہ ضروری ہے کہ دیکھو اور انتظار کرو۔ اس کے بعد جو حالات ہوں اس میں اپنا موقف واضح کردے۔

جاری حالات میں حقیقت میں دیکھا جائے تو گومگو کی صورت حال ہے۔ صبح کچھ اور شام کچھ ہورہا ہے، ایسے ہی کوئی دوٹوک موقف نہیں اپنایا جاسکتا۔ ایک خبر یہ آئی کہ جاپان طالبان کی حکومت کی مالی اور سیاسی مدد کرنے پر تیار ہے، یہ خوش آئند بات ہے۔ اس کے علاوہ چین نے پہلے ہی خوراک اور دوائیں فراہم کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔ تاہم ایران کو ایک اعتراض طالبان کے عبوری سیٹ اپ میں ہے جس میں ایک بھی شیعہ رہنما شامل نہیں کیا ہے جبکہ افغانستان میں شیعہ مسلک سے وابستہ افراد کی تعداد مجموعی آبادی کا پندرہ فیصد سے زائد ہے۔

اس مسئلے پر طالبان کے ترجمان نے ایران پر تنقید کی ہے اور کہا کہ کبھی افغانستان نے ایرانی سیاسی سیٹ اپ پر اعتراض نہیں کیا کہ اس میں کوئی سنی نمائندہ کیوں شامل نہیں ہے، مگر یہ معاملہ زیادہ زور نہیں پکڑ سکا ہے۔ افغانستان میں سنی مسلک کے ماننے والوں کی تعداد اکثریت میں ہے۔ تاہم طالبان حکومت کے نزدیک اس وقت معاشی مسائل کو حل کرنا ہے۔ طالبان کے ذرائع کا کہنا ہے کہ کچھ جنگجو دھڑے آزاد ہیں اور طالبان کے ساتھ نہیں ہیں۔ مگر یہ دھڑے طالبان حکومت کے خلاف نہیں، انہیں بھی ساتھ ملانا چاہتے ہیں۔

اس کے علاوہ طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ القاعدہ گروپ سے پرانی شناسائی ہے اور القاعدہ نے ہمیشہ طالبان کی حمایت کی ہے اس لئے طالبان رہنمائوں کی پوری خواہش ہے کہ القاعدہ اور طالبان حکومت کے مابین تعاون اور مشترکہ لائحہ عمل کا کوئی وسیع معاہدہ طے پا جائے۔ اس سلسلے میں آزاد ذرائع کا کہنا ہے کہ القاعدہ اور طالبان کے اشتراک عمل کو امریکا اور یورپ بالکل پسند نہیں کریں گے اور طالبان حکومت کو مغرب کی طرف سے مزید مخالفت کا سامنا کرنا ہوگا۔

درحقیقت طالبان اور القاعدہ کے مجوزہ اشتراک عمل کا سبب یہ ہے کہ داعش نے بڑی تیزی سے افغانستان میں اپنا اثرو رسوخ بڑھایا ہے اور مزید اثر بڑھا رہا ہے، ایسے میں القاعدہ اور طالبان کا قریب آنا سمجھ میں آتا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا داعش افغانستان میں واقعی اپنے قدم جماسکے گی۔ اس ضمن میں باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ داعش کے زیادہ ہم خیال جنگجو عراق اور شام میں موجود ہیں اگر وہ سب افغانستان کا رخ کرتے ہیں تو پھر بڑے خطرات کا امکان ہے۔ افغانستان سے موصولہ خبروں کے مطابق افغانستان میں رفتہ رفتہ زندگی معمول پر آتی جارہی ہے۔ لوگ روزمرہ کی خریداری کے لئے گھروں سے باہر آ رہے ہیں۔ طلبا اسکول جارہے ہیں تاہم ہائی اسکول کی لڑکیوں پر اسکول جانے پر پابندی عائد ہے۔

طالبان حکومت کے ان ہی اقدام کی وجہ سے بیش تر غیر ملکی سفارتکار اور مبصرین تذبذب کا شکار ہیں کہ ایک طرف یہ کہا جارہا ہے کہ یہ طالبان نوے کی دہائی والے نہیں ہیں، مگر پالیسی بازی میں پرانی جھلک بھی نمایاں ہے۔ یہ درست ہے کہ طالبان میں اکثریت نوجوانوں کی ہوگی جو نوے کی دہائی میں بہت کم سن ہوں گے۔ یہ تبدیلی واضح ہے مگر نظریانی طور پر واقعی تبدیلی آئی ہے اس پر حتمی رائے دینا مشکل ہے۔ نظریاتی گروہ یا جماعت اپنے منشور میں فرق لے آتی ہے یا پچھلے موقف میں کچھ تبدیلی کرتی ہے تو پھر اس نظریاتی جماعت یا گروہ کا متحد رہنا مشکوک ہو جاتا ہے۔

اس لئے یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ طالبان ذہنی اور نظریاتی طور پر تبدیل ہوچکے ہیں چونکہ ان کا نظریہ عقیدہ پر استوار ہے اور وہ یہ عزم رکھتے ہیں کہ افغانستان میں اسلامی شریعت نافذ کریں گے تو وہ اس پر اٹل دکھائی دیتے ہیں۔ اس تبدیلی کو ثابت کرنے کے لئے کہا جاتا ہے کہ وہ گزشتہ ایک عرصے سے دنیا کے مختلف ممالک کے دورے کررہے ہیں۔ دنیا کو دیکھ رہے ہیں اس لئے ان میں تبدیلی آئی ہے۔

اس پر کوئی رائے نہیں دی جاسکتی۔ عقیدے میں تبدیلی نہیں آتی۔ جہاں تک دنیا دیکھنے لوگوں سے ملنے ملانے کا مسئلہ ہے یہ کوئی ٹھوس دلیل نہیں ہے وہ اس صدی میں گھروں سے باہر آئے ہیں اور اپنے اطراف ریڈیو، ٹی وی، اخبار، جرگے یہ سب کچھ دیکھتے آئے ہیں۔ اس لحاظ سے وہ جدید دنیا اور اسی کی سہولت سے بہرہ ور ہیں تاہم وقت بتائے گا کیا درست ہے اور کیا غلط ہے۔

طالبان جس مقصد سے آئے ہیں اس کا برملا اظہار کرتے رہے ہیں۔ اگر ان کا عزم شرعی قوانین کی روشنی میں حکومت چلانا ہے تو وہ یہ کرسکتے ہیں اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو پھر ان سے سوال پوچھا جاسکتا ہے کہ اگر آپ اپنے موقف اور پروگرام سے ہٹ رہے ہیں تو پھر اس تمام کھڑاک کی کیا ضرورت تھی تو یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ان میں تبدیلی آئی ہے۔ اس کا دوسرا مطلب یہ بھی لیا جاسکتا ہے افغان طالبان کا نظریہ اور موقف درست نہیں تھا۔ اب طالبان اس میں ترمیم کے ساتھ آرہے ہیں۔وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے بھی تبدیلی کی بات دہرائی ہے۔

اس ضمن میں کیا کہا جاسکتا ہے۔ ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ آیا طالبان اپنے موقف پر قائم ہیں تو ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ اگر طالبان اپنے پرانے موقف میں کچھ لچک لا رہے ہیں تو پھر وہ تبدیلی کیا ہے؟ ہمیں اس کے مطابق اپنی پالیسی بنانا ہوگی۔ اس گو مگو کی صورت حال کو دور کرنا ضروری ہے۔ افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سب سے زیادہ بھارت متاثر ہوا ہے۔ ہر چند کہ کہا جاتا ہے کہ چند طالبان رہنمائوں نے بھارتی سفارت کاروں سے ملاقات کی ہے، مگر بھارت نے کابل میں اپنا سفارت خانہ بند کردیا ہے اوربھارتی سفارتی عملہ کابل چھوڑ چکا ہے اس حوالے سے ’’دیکھو اور انتظار کرو‘‘ کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔ بھارتی میڈیا پر اس کا پروپیگنڈہ جاری ہے جس کو افغانستان کے ذرائع مسترد کر چکے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جس طرح امریکی صدر پر نکتہ چینی ہورہی ہے، اسی طرح بعض بھارتی حلقے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو بھی اپنی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں، ان حلقوں کا استدلال یہ ہے کہ بھارتی وزیراعظم نے تین ارب سے زائد رقم افغانستان میں پھونک دی انہوں نے وہاں ترقیاتی منصوبوں پر کام کیا اس وقت آگے کیا ہوگا یا کیا ہوسکتا ہے، کیوں نہ سوچا۔ اب بھارت بالکل الگ تھلگ ہوگیا اور محض ایک تماشائی کا کردار ادا کررہا ہے، یہ سچ ہے کہ بھارت کی خارجہ پالیسی افغانستان کے مسئلے میں پاکستان سے بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ اب افغان مسئلہ پر پاکستان اپر ہینڈ ہے۔ کچھ ایسا ہی تجربہ بھارت کو ایران کے ساتھ ہوا ہے۔

چاہ بہار بندرگاہ کی تعمیر میں بھارت نے سرمایہ لگایا مگر اب بتایا جاتا ہے کہ بھارت تاحال چا ہ بہار بندرگاہ استعمال کرنے سے قاصر ہے۔ نریندر مودی نےمعلوم نہیں ان دونوں ممالک سے کچھ سیکھا ہے کہ نہیں۔ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے حال ہی میں غیر ملکی دوروں کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا جس کا بہت شہرہ تھا کہیں یہ دورے بھی چائے کی پیالی میں طوفان ثابت نہ ہوں۔ جبکہ روس، چین، امریکا اور یورپی یونین پوری طرح افغانستان پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ درحقیقت افغانستان کاآج کے دور میں بیش قیمت معدنیات کے ذخائر کے حوالے سے دنیا کا امیر ترین ممالک کی فہرست میں شمار کیا جاسکتا ہے۔

جدید دنیا کو مزید ترقی کے لئے جن قدرتی وسائل اورمعدنیات کی ضرورت ہے وہ افغانستان میں موجود ہیں، جن میں سب سے اہم اور قیمتی جوہر ’’لیتھیویم‘‘ہے، یہ قیمتی تحفہ سب سے زیادہ افغانستان کے پاس موجود ہے جو جدید ٹیکنالوجی اور ایجادات میں سب سے زیادہ کام آتی ہے۔ اس حوالے سے افغانستان نہ صرف خطے میں بلکہ کئی ممالک کے مقابلے میں اپر ہینڈ ہے اس کے علاوہ افغانستان میں لوہا، سونا، تانبا، قدرتی کوئلہ، تیل، میگنیشم اور دیگر قیمتی معدنیات موجود ہیں۔ چبن نے چند سال قبل قدرتی کوئلہ اور دیگر معدنیات نکالنے کے معاہدے کئے تھے اور وہ وہاں کام کررہا ہے۔ ایسے میں روس اور دیگر ممالک کی نظریں افغانستان پر جمی ہوئی ہیں۔

اگر یہ قیمتی معدنیات نکالی جائیں، حالات پرامن رہیں تو پھر افغانستان کو دنیا کے ٹاپ امیر ترین ممالک کی صف میں شامل ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ امریکا جیولوجیکل سروے کے مطابق افغانستان میں من جملہ قدرتی وسائل کی مالیت تین سے پانچ ٹریلین ڈالر ہوسکتی ہے۔ یورپی یونین کے تحقیقی ادارے کا بھی لگ بھگ اتنی ہی مالیت کا اندازہ ہے۔ افغانستان کی آبادی زیادہ نہیں، رقبے کے لحاظ سے بہت وسیع و عریض ملک ہے۔ ساٹھ کی دہائی میں پہلی بار افغانستان میں جدید پختہ سڑکیں تعمیر ہوئی تھیں اس ضمن میں تمام سرمایہ کاری ایران نے کی تھی یہ کام رضاشاہ پہلوی کے دور میں سرانجام پایا تھا یہ جدید سڑکوں کا جال افغانستان کو ایران کا تحفہ تھا جو آج تک کام کررہا ہے۔

مختصر یہ کہ عالمی برادری کو افغانستان کی صورت حال پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ روز بدلتی صورت حال نہ افغانستان کے لئے مفید ہے نہ اس خطے کے پائیدار امن کے لئے مفید ہے۔ اس خطے میں پائیدار امن بہت ضروری ہے۔