اٹھارہ سال سے کم عمر افراد کےقبولِ اسلام کے حوالے سے مجوزہ بل (گزشتہ سے پیوستہ)

September 24, 2021

(قرآن وسنّت کی روشنی میں جائزہ)

آپ کے مسائل اور اُن کا حل

تاریخ کے کس دور سے ثابت کیا جاسکتا ہے کہ اسلام لانے سے پہلے نومسلموں کو کہا گیا ہوکہ پہلے عدالتی طریقۂ کار سے گزرو،پھرصبر کرو،خوب غوروفکر کرو اور اس کے بعد فیصلہ کرو؟بل کو جبر ی تبدیلی مذہب کا عنوان دے کر دنیا کو کیا پیغام دینا مقصود ہے؟ اگر بزورو جبرمذہب تبدیل کرانا جرم ہے تو زورزبردستی سے کسی مذہب پر قائم رکھنا کیا حکم رکھتا ہے؟اگرجبرا ًکسی کو مسلمان بنانا مقصود ہوتا تو ہندوستان میں ساڑھے نو سو سال اور اسپین میں آٹھ سوسال مسلمانوں کی حکومت رہی ہے ،اس وقت ریاستی قوت کے ذریعے بہت سہولت سے لوگوں کو مسلمان بنایاجاسکتا تھا ۔

قرآن وسنت کے علاوہ مجوزہ بل ہمارے دستور،اقوام متحدہ کے منشور،عدل وانصاف کے مسلمہ اصولوں اورعقل ودانش کے تقاضوں کے بھی خلاف ہے۔ہمارا آئین اسلام کو پاکستان کا سرکاری مذہب قراردیتا ہے اور قرآن وسنت کے مطابق قانون سازی کی ضمانت فراہم کرتا ہے: اسلام،اسلامی جمہوریہ پاکستان کا مملکتی مذہب ہوگا۔(آئین پاکستان ،آرٹیکل۲۔)قرارداد مقاصد مستقل احکام کا حصہ ہوگا۔(آرٹیکل(۲) الف)تمام موجودہ قوانین کو قرآن پاک اور سنت میں منضبط اسلامی احکام کے تابع بنایاجائے گا،جن کا اس حصے میں بطور اسلامی احکام حوالہ دیا گیا ہے ،اور ایسا کوئی قانون وضع نہیں کیا جائے گا جو مذکورہ احکام کے منافی ہو۔)آرٹیکل ۲۲۷(۱))

آرٹیکل ۳۱ اسلامی طریق زندگی کے بارے میں ہے اور اس کی پہلی شق میں درج ہے کہ :’’پاکستان کے مسلمانوں کو ،انفرادی اوراجتماعی طور پر، اپنی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں اوراساسی تصورات کے مطابق مرتب کرنے کے قابل بنانے کے لیے اور انہیں ایسی سہولتیں مہیا کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے، جن کی مدد سے وہ قرآن پاک اور سنت کے مطابق زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں‘‘۔

آئین کے یہ احکام اس بارے میں بالکل واضح ہیں کہ یہاں قانون سازی قرآن وسنت کے مطابق ہوگی ،مگر ہمارے قانون ساز ان احکام کو اہمیت دینے کے لیے آمادہ نہیں ہیں۔ شریعت اور دستور کے علاوہ اقوام متحدہ کے ’’انسانی حقوق کے عالمی منشور کی رو سے بھی اسلام قبول کرنے پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی‘‘۔ چنانچہ دفعہ ۱۸ میں ہے کہ:’’ہر انسان کو آزادی فکر، آزادی ضمیر اور آزادی مذہب کا پورا حق ہے۔ اس حق میں مذہب یا عقیدے کو تبدیل کرنے اور پبلک میں یا نجی طور پر، تنہا یا دوسروں کے ساتھ مل جل کر عقیدے کی تبلیغ، عمل، عبادت اور مذہبی رسمیں پوری کرنے کی آزادی بھی شامل ہے‘‘۔

دینی طبقے اورپاکستانی عوام کو اس وقت بھی حیرت ہوئی تھی، جب سندھ اسمبلی میں اس نوع کا قانون پیش ہوا اور باب الاسلام سندھ میں اسلام کا باب بند کرنے کی کوشش ہورہی تھی اور جن کے آباء واجداد ایک نوعمر محمد بن قاسمؒ کے ہاتھوں اسلام کی دولت سے مشرف ہوئے تھے ، ان کی نسل نوعمروں کے قبول اسلام پر پابندی لگانے جارہی تھی۔

بل کے عنوان سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ یہ اسلام کے خلاف نہیں ،بلکہ جبر کے خلاف ہے ،مگر حقیقت یہ ہے کہ جبر سے روکنے والا بل خود بدترین جبر پر مشتمل ہے۔ اگر طاقت کے زور سے کسی کو مسلمان بنانا جبر ہے تو ریاستی قوت کے ذریعے کسی کو اسلام سے روکنا اس سے بڑا جبر ہے۔وڈیروں ،جاگیر داروں ،ساہوکاروں کے ظلم واستبداد سے اورباطل ادیان کے تنگی اورمشقت سے اگر کوئی بےزاری کا اظہار کرکے اسلام کی آغوش میں پناہ لیتا ہے اور مسلمان انصار مدینہ کی سنت کو تازہ کرتے ہوئے انہیں ٹھکانہ دیتے ہیں اور مدد وتعاون کرتے ہیں تو قانون کے زور سے انصار مدینہ کی اس سنت پر کیوں پابندی لگائی جارہی ہے؟اگر اسلام برحق ہے اور شریعت،قانون اور اقوام متحدہ کےمنشور کی رو سے ہر انسان کو اپنےمذہب کی تبلیغ کا حق حاصل ہے تو پھر مبلغین کے لیے اس بل میں سزائیں کیوں تجویز کی گئی ہیں؟اگر نومسلم اسلام لانےکے بعد اپنے عقیدے اورنظریے کے حامل شخص سے نکاح کرتا ہے تو نکاح قانون شکنی کیوں ہے اورنکاح خواں شریک جرم کیوں ہے؟

پاکستان میں مسلمان اکثریت میں اورغیر مسلم اقلیت میں ہیں، مگر اس کے باوجود دونوں رواداری اور پُرامن بقائے باہمی کے تحت زندگی گزارتے ہیں،مگر اس بل کے ذریعے ان میں تصادم اور کشمکش کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اقلیتوں کو وہ تمام حقوق ملنے چاہییں جو ان کا حق ہے اوران کے ساتھ کوئی ناانصافی ہورہی ہے تو اس کا مداوا کیا جائے، مگر جانبدارانہ قوانین کے ذریعے اقلیت کو اکثریت پر مسلّط کرنے کی کوشش کی جائے گی تو ملک وملّت کے لیے اس کے نتائج مفید ثابت نہیں ہوں گے۔الحاصل جبر کا عنوان دینے سے مقصد صرف اورصرف قانون سازی کے لیے راہ ہموار کرنا اور اسے قابل قبول بنا نا ہے، ورنہ حقیقت کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے اورجبر سے روکنے والا بل اپنے مندرجات کی وجہ سے خود جابرانہ ہے۔ (…جاری ہے…)