بڑھتی ہوئی سیاسی تلخیاں!

September 28, 2021

پاکستان میں ویسے تو حکومتوں کی تبدیلی کے ساتھ ہی اقتدار حاصل کرنے اور اس سے محروم رہ جانے والوں میں لفظی جنگ شروع ہو جاتی ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ تیز تر ہوتی چلی جاتی ہے لیکن پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اور اپوزیشن پارٹیوں کے درمیان ہونے والی موجودہ جنگ نہ صرف تیز تر بلکہ تمام حدود و قیود سے آزاد ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ ماضی میں مخالفت و مخاصمت کے بھی کچھ اصول ہوتے تھے۔ تلخ بیانیوں کے باوجود حکومتیں اپوزیشن کو شاخ زیتوں پیش کرتی نظر آتی تھیں۔ مقصد ان کا یہ ہوتا تھا کہ ان کی مقررہ مدت آسانی سے مکمل ہو جائے۔ تاہم موجودہ حکومت مخالفین سے نمٹنے کیلئے مصالحت و مفاہمت کی بجائے جارحانہ حکمت عملی پر یقین رکھتی ہے۔ اس کے نتیجے میں اپوزیشن، خصوصاً اس کی دو بڑی پارٹیوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کا ردعمل بھی ویسا ہی ہے۔ فریقین میں شروع سے ایک دوسرے کے خلاف الزام ترشی، بہتان بازی اور گالم گلوچ کا مقابلہ جاری ہے جس میں بالعموم حکومتی ترجمانوں کا پلہ بھاری رہتا ہے مگر اپوزیشن بھی گوناگوں حکومتی ناکامیوں اور کوتاہیوں کو اجاگر کرنے میں ان سے کم نہیں۔ پیر کے اخبارات اور ٹی وی چینلز کی رپورٹیں اس کی گواہی دے رہی ہیں۔ وفاقی وزراء فواد چوہدری اور مراد سعید نے ایک پریس کانفرنس میں شریف برادران اور آصف زرداری کو نشانہ بنایا اور کہا کہ ملک میں آج مہنگائی اور کمزور معیشت کی وجہ کرپشن ہے۔ شریف برادران نے موٹروے کی تعمیر میں کرپشن سے لندن میں فلیٹ خریدے، یہ معاملہ پارلیمنٹ اور پبلک اکائونٹس کمیٹی میں اٹھایا جائے گا۔ عمران خان جو اپوزیشن میں رہتے ہوئے نواز شریف کے موٹرویز پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہتے تھے کہ اس کی بجائے پیسہ عوام کی بہبود پر لگایا جائے، کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وہ موٹرویز کے مخالف نہیں، کرپشن کے خلاف تھے۔ آج پٹرول، سبزیاں اور دالیں مہنگی ہونے کی وجہ ماضی میں ہونے والی کرپشن ہے۔ مسلم لیگ ن کے صدر اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف، پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن کے رہنما حمزہ شہباز اور خواجہ آصف نے راولپنڈی میں ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے پی ٹی آئی حکومت اور اس کے لیڈر پر الزام لگایا کہ انہوں نے ملک تباہ کر دیا۔ آنے والے انتخابات کو شفاف بنایا گیا تو پی ٹی آئی 2023میں دفن ہو جائے گی۔ عوام کو مہنگائی کے خلاف اٹھنا ہو گا۔ وہ کراچی سے پشاور تک نواز شریف کے پیچھے کھڑے ہو جائیں۔ دونوں فریق جوش خطابت میں مخالفین کے خلاف ایسی ایسی تشبیہات اور جملوں کا استعمال کرتے ہیں کہ قلم ان کے بیان سے قاصر ہے۔ پاکستان میں نافذ العمل جمہوری نظام، مغربی جمہوریت کی نقل ہے جس میں اختلاف رائے کو برداشت کیا جاتا ہے اور زبان و بیان میں شائستگی کو ملحوظ رکھا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں جمہوریت کی ان خوبیوں کا شاید دور دور تک سراغ نہ ملے۔ سیاست میں بڑھتی ہوئی یہ تلخیاں قوم کو تقسیم کر رہی ہیں جو ملکی مفاد کے سراسر منافی ہے۔ ملک کو اس وقت دیدہ و نادیدہ اندرونی و بیرونی کئی طرح کے چیلنجز درپیش ہیں جن سے نمٹنے کیلئے قومی یکجہتی اشد ضروری ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے ہمیں اختلافِ رائے کو دشمنی میں تبدیل کرنے سے بچنا ہو گا۔ کسی نے اگر قوم کا پیسہ لوٹا ہے تو اسے سزا دلوانے اور دینے کیلئے ادارے اور عدالتیں موجود ہیں۔ پھر کیا ضروری ہے کہ مجرم ثابت کرنے سے پہلے اس کے ساتھ مجرموں جیسا سلوک کیا جائے۔ اس کے خلاف مہم چلائی جائے اور جواب میں اس کی طرف سے جوابی مہم کا جواز پیدا کیا جائے؟ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو اپنے لہجے بدلنے چاہئیں اور ایک دوسرے کی کردار کشی کی بجائے ملک کے عملی مسائل پر سیاسی بحث مباحثے کا ماحول پیدا کرنا چاہئے جو مہذب قوموں کا شیوہ ہے۔