’سی آر آئی سسٹم‘ پانچ سال گزرنے کے بعد بھی سندھ کے کسی تھانے میں فعال نہیں کیا گیا

October 03, 2021

امن و امان کی بحالی اور عوام کی جان و مال کا تحفظ پولیس کی ذمہ داری ہے ۔ لیکن جب پولیس جیسا اہم شعبہ مشکلات سے دوچار ہوگا تو اس کی کارکردگی متاثر ہونا یقینی ہے۔ سہولتوں کے لحاظ سے پنجاب پولیس آگے تھی، لیکن اب کے پی کے پولیس کو مثالی پولیس کہا جاسکتا ہے جس کی بڑی وجہ صوبائی حکومتوں نے اس اہم شعبے کی بہتری پر کام کیا ہے۔

یہ بات درست ہےکہ سندھ میں پولیسنگ بہتر ہوئی ہے ،لیکن اس میں شائد حکومت کا کردار اتنا نہ ہو جتنا پولیس کے چندافسران کا ہے۔ہم نےہمیشہ پولیس کو جدید خطوط پر استوار کرنے اور مثالی پولیس بنانے کےلیے حکومت کو تجاویز دی ہیں ۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب صوبائی حکومت بڑے پولیس افسران کے ساتھ چھوٹے اہلکاروں سے بھی تجاویز لے ،ان کے مسائل سنےاور حل کرے اور ان کی دی ہوئی بہتر تجاویز پر عمل کیا جائے تو سندھ پولیس بھی ماڈل پولیس بن سکتی ہے۔

اپوزیشن کی جانب سے کئی سال سےالزام لگایا جارہا ہےکہ سندھ پولیس سیاسی دبائو کا شکار ہے، اس کے پاس سہولتوں کا فقدان ہے۔ حکومت کی جانب سے جواب دیا جاتا ہے کہ اپوزیشن کا کام تو تنقیدکرنا ہی ہے۔ لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یہی اپوزیشن گزشتہ کئی سالوں سے اسی پارٹی کی حکومت کے ساتھ اسمبلی میں ہے۔ ماضی میں اس نے پولیس افسران کی اچھی کارکردگی کی تعریفیں بھی کی ہیں، خاص کر اے ڈی خواجہ کے دور میں جنہوں نے اس محکمہ کو سیاسی دباؤسے بالاتر رکھ کر اس کی کارکردگی بہتر بنائی تھی۔

سندھ پولیس کا اربوں روپے سالانہ کا بجٹ ہوتاہے۔ سنجیدہ حلقے سوال کرنے میں حق بجانب ہیںکہ پنجاب اور کےپی کے، کی طرح سندھ پولیس کوجدید خطوط پر استوار کرنے میں کون سی مشکلات حائل ہیں؟ کیا سندھ پولیس ان بوسیدہ پرانے ہتھیاروں، ناقص گاڑیوں کے ساتھ جدید ہتھیاروں سے لیس ڈاکوؤں کا اسی طرح مقابلہ کرتی رہے گی اور کیا اسے جدید ہتھیاروں اورنئی ٹیکنالوجی سے لیس کرنا ممکن نہیں؟ کیا تھانوں اور بنیادی ڈھانچے میں کبھی بہتری آ سکے گی؟

کیا سندھ پولیس میں 19 گریڈ کی ایس ایس پی کی اسامیوں پر 18 گریڈ کے افسران کی تعیناتی کا سلسلہ کبھی رک پائے گا؟ کیا سندھ پولیس کے اہلکاروں کی تنخواہیں پنجاب پولیس کے برابر ہو پائیں گی، کیا سندھ کے تمام اضلاع خاص طور ڈویژن کی سطح رکھنے والے شہروں میں ویمن پولیس اسٹیشن قائم ہوسکیں گے؟

کیا وزرات داخلہ یہ جانتی ہے کہ سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر میں خواتین کی جیل تو ہے لیکن وومن پولیس اسٹیشن نہیں ہے؟ سندھ میں 2016 کے بعد پولیس اہلکاروں کی بھرتی نہیں ہوئی، ہزاروں اسامیاں خالی ہونے سے پولیس پر مزید دباؤ بڑھا ہے۔ پولیس کو درپیش بہت سےمسائل ایسے ہیں جو تھوڑی سی توجہ سے حل ہوسکتے ہیں۔

سابق آئی جی، اے ڈی خواجہ نے موجودہ وزیر اعلی کے دور میں ہی سندھ پولیس کو جدید خطوط پر استوار کرنا شروع کیا تھا۔ انہوں نے تمام تھانوں کو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے آپس میں مربوط کردیا تھا۔ آج بھی سندھ کے تھانوں میں کریمنل ریکارڈ منیجمنٹ سسٹم (سی آر ایم ایس)فعال ہے ، جس میں ملزمان اور مشتبہ افراد کے فوٹوگراف اور مکمل کوائف کمپیوٹر میں محفوظ کیے جاتے ہیں ۔

اس کے ذریعے سندھ کی پولیس ، پنجاب سمیت دیگر صوبوں کے ساتھ آن لائن رابطے میں ہے ۔ سب سے بڑا اور اہم مسئلہ اشتہاری اور روپوش ملزمان کے گرد گھیرا تنگ کرنا تھا کیونکہ سندھ میں اشتہاری اور روپوش ملزمان جن میں متعدد خطرناک جرائم پیشہ عناصر بھی موجود ہیں۔ ان اشتہاریوں اور روپوش ملزمان کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہے۔

اس سنگین صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے تقریبا 5 سال قبل اشتہاری اور روپوش ملزمان کی 100 فیصد گرفتاری کو یقینی بنانے اور سندھ ، پنجاب، بلوچستان ، کے پی کے سمیت ملک بھر کے تمام تھانوں کو آپس میں جدید ٹیکنالوجی کےذریعے مربوط کرنے کے حوالے سے سندھ کے تمام اضلاع میں تھانوں کی سطح پر (سی آر آئی ) کریمنل ریکارڈ آئیڈنٹی فیکیشن سسٹم بنایا گیا تھا اور تمام اضلاع کے ایس ایس پی کے دفاتر میں (سی آر او ) کریمنل ریکارڈ آفس بنائے گئے تھے۔ لیکن 5سال گزرنے کے باوجود یہ صرف کراچی میں ہی فعال ہے۔

سکھر ڈویژن کے 3 ،حیدرآباد ڈویژن کے 9 ، شہید بے نظیر آباد ڈویژن 3، لاڑکانہ ڈویژن کے 5 میرپورخاص ڈویژن کے 3 اور مجموعی طور پر سندھ کے 23 اضلاع کے سیکڑوں تھانوں میں یہ سسٹم، ڈیوائس اور دیگر ضروری آلات ہونے کے باوجود شروع نہیں کیا جاسکا ۔ ان اضلاع کے تھانوں میں جو ڈیوائس دی گئی تھیں، ان کی قیمت 20 سے 25 ہزار روپے تک بتائی جاتی ہے، اب 5 سال کا عرصہ گزرنے کے بعد وہ ناکارہ ہوگئی ہیں۔

جن علاقوں میں سی آر آئی سسٹم فعال نہیں ہوسکا ان میں سابق صدر آصف علی زرداری ، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زردری، وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور دیگر اعلیٰ شخصیات کے علاقے شامل ہیں ۔اے ڈی خواجہ نے سندھ کے تمام تھانوں کو سی آر آئی سسٹم سے منسلک کرنے کے لیے کوششیں کیں، اس کے لیے سی آرآئی سینٹرز اور آئی ٹی لیب بھی بنائی گئیں۔ تمام تھانوں کو ڈیوائسز فراہم کی گئیں لیکن اربوں روپے کے اصراف کے باوجود یہ منصوبہ ہنوز تعطل کا شکار ہے۔

قومی خزانے کےاربوں روپے کے ضیاع کا ذمہ دار کون ہے، کس کے خلاف کارروائی عمل میں آئےگی، کسے سزا ملے گی۔ ہم نے سی آر آئی سسٹم کی افادیت کو مدنظر رکھتے ہوئے چند ماہ قبل بھی حکومت اور پولیس حکام کی توجہ اس سمت مبذول کرائی تھی لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ سکھر سمیت سندھ کے دیگر اضلاع میں یہ سسٹم ایس ایس پی آفس اور جیلوں میں لگا ہوا ہے لیکن تھانوں میں ڈیوائسزکی موجودگی کے باوجود ان سے استفادہ نہیں کیا گیا۔

ایک سینئر پولیس افسر کے مطابق اس سسٹم کی سب سے زیادہ ضرورت اور افادیت سندھ ، پنجاب، اور بلوچستان کے سرحدی اضلاع کشمور، گھوٹکی، جیکب آباد اور قمبر شہدادکوٹ سمیت سندھ کے داخلی اور خارجی راستوں پر قائم پولیس چیک پوسٹوں کو ہے تاکہ مشتبہ افراد کا فوری طور پر ڈیوائس کے ذریعے پتہ لگایا جاسکے ۔جرائم پیشہ عناصر کے سندھ میں دوسرے صوبوں سے آمد اور فرار کو روکا جاسکےگا۔

اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پولیس جب کسی علاقے، چوراہے یا شاہ راہ پر ناکہ بندی کرکے مشتبہ افراد کی تلاش اور جانچ پڑتال کرتی ہے تو جرائم پیشہ لوگ پولیس کو چکما دے کر نکل جاتے ہیں کیونکہ پولیس کو کسی شخص پر شک کی صورت میں ایس ایس پی آفس میں قائم سی آر او سینٹر جانا پڑتا ہے جو مشتبہ شخص اور پولیس دونوں کے لئے مشکلات کا باعث بنتا ہے۔

سی آر آئی ڈیوائس، موبائل فون کی ڈیوائس کی طرح ہوتی ہے۔اگر یہ چھوٹی سی ڈیوائس چیکنگ کرنے والے پولیس افسر اور اہلکاروں کے پاس موجود ہو تو اسی وقت چند منٹوں میں اس مشتبہ شخص یا جرائم پیشہ عناصر کو چیک کرکے بروقت کارروائی انجام دی جاسکتی ہے۔ پھر بھی شہر کے تھانے والوں کو کم اور دور دراز کے تھانے کے عملے کو بہت زیادہ مسائل پیش آتے ہیں اور خاص بات یہ ہے کہ تمام اضلاع میں ایس ایس پی آفس صبح 9 بجے سے شام 5 بجے تک کھلتے ہیں ۔ہفتہ اتوار دو دن چھٹی ہوتی ہے۔

اس نظام کا مقصد ڈاکوؤں اور جرائم پیشہ عناصر روپوش ، اشتہاری ملزمان کے خلاف کارروائی کو یقینی بنانا اور جرائم پیشہ لوگوں کے ریکارڈ کو کمپیوٹرائزڈ کرنا ہے تاکہ کوئی ملزم یا مجرم پکڑا جائے تو بائیو میٹرک سسٹم کے ذریعےاس کا ریکارڈمحفوظ کرلیا جائے۔جب کبھی کسی بھی علاقے میں دوبارہ کوئی واردات انجام دے تو اس کی فوری طور پر سابقہ ریکارڈ سے ویریفکیشن ہوسکے۔

پولیس ذرائع نے بتایا کہ مختلف اضلاع کے پولیس افسران نے آئی جی سندھ اور متعلقہ شعبہ کے انچارج کوخطوط لکھے ہیں کہ سی آر آئی سسٹم کو شروع کیا جائے لیکن اب تک اس پر کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوسکی۔ضرورت اس بات کی ہے کہ سندھ کے تمام تھانوں کو اس جدید ٹیکنالوجی سے مربوط کیا جائے تاکہ جرائم پر قابو پانے میں مدد مل سکے۔

کراچی سمیت سندھ کے تمام علاقے امن امان کی مخدوش صورت حال سے دوچار ہیں۔ ملزمان وارداتیں کرکے باآسانی فرار ہوجاتے ہیں۔ اگر تمام تھانوں کو جدید ٹیکنالوجی اور سی آر آئی سسٹم سے منسلک کردیا جائے تو قیام امن میں مدد مل سکتی ہے۔