کس سمت میں جارہے ہیں؟

October 08, 2021

طاہرہ پروین جعفری

آج ہر ذی شعور انسان یہ بات سوچنے پر مجبور ہوگیا ہے کہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی آخر ہمیں کس سمت لے کرجارہی ہے، جس طرح فضا میں آلودگی بڑھنے کے اسباب میں ہم نے جانا کہ بے دریغ درختوں کو کاٹنا، دھواں، ہر طرف غلاظت کے ڈھیر ، بے ہنگم شور نے ذہنوں کو پراگندہ کردیا اور صاف تازہ ہوا کا رستہ روک کر شہر کو آلودگی کی نظر کردیا ۔گذشتہ برسوں میں اپنی زندگی کو آرام دہ بنانے اور سہولت کے نام پر ہم نے خود اپنے لیے کس قدر مشکلات پیدا کرکے اپنی ہی صحت وسلامتی کو ناصرف خطرے میں ڈالا بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی مسائل پیدا کردئیے۔

ہماری لاپروائی اور بے حسی نے ایک ایسا معاشرہ پیدا کردیا جہاں لوگ مصیبت میں مدد کرنے کے بجائے باقی دنیا کو باخبر کرنے کے لیے وڈیو وائرل کرنے کے لیے زیادہ پرجوش ہوتے ہیں۔ ہر شخص کرائم رپورٹر بنتا جارہا ہے۔ ہر وقت جرائم ، قتل وغارت ، زیادتی ہراساں کرنے، جیسے واقعات نے انسان کے اندر دوسرے انسان کی جان ومال کی قدر کو یکسر پس پشت ڈال دیا ہے۔ اپنے مفاد کی خاطر کسی دوسرے کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔

یہ خونی کیڑے کسی دوسرے سیارے پر نہیں بلکہ انہیں گلی محلوں میں رہ رہے ہوتے ہیں، مگر اب چونکہ لوگ محلہ داری اور آس پڑوس میں میل جول کم رکھتے ہیں اس لیے اکثر ایسے افراد سے بے خبر رہتے ہیں اور انہیں اندازہ نہیں ہوتا کہ ان کے برابر میں کیا ہورہا ہے۔

چھوٹے بچوں اور بچیوں کے اغوا اور زیادتی میں اکثر بہت قریبی پڑوسی یا رشتہ دار ملوث ہوتا ہے۔ اس طرح کے افسوناک واقعات دیکھ کر یا سن کرکچھ وقت کے لیے افسردگی کا احساس ہوتا ہے ،مگر پھر کسی نئے واقعے کی بازگشت میں کہیں مدھم پڑجاتا ہے۔ اور کچھ وقت کے بعد تو بالکل فراموش ہوجاتا ہے۔ پہلے وقتوں میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ اپنے بچوں کے ساتھ جانے والی عورت بری نظر سے محفوظ رہتی ہے، مگر افسوس پے در پے ایسے دلخراش واقعات بھی رونما ہوئے جن میں بچوں کے سامنے ماؤں کی بےحرمتی کی گئی۔

دوسری جانب ایسی خواتین وحضرات کی بھی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو راتوں رات مشہور ہونے کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیتے ہیں اور ایسے نت نئے ہتھکنڈے اپناتے ہیں کہ اس جنون میں کئی ایک نے تو اپنی جان بھی گنوادی۔ امسال یوم آزادی کے موقعے پر مینار ِپاکستان میں ہونے والے واقعے نے ہر شخص کو بولنے پر مجبو ر کردیا ،اس پر کسی کو ایک کو قصور کہنے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا ، کیوںکہ اتنی بڑی تعداد میں بگڑے ہوئے نوجوان تماش بین اور پھر وہاں پر تعینات سیکیورٹی اور دوسرے ذمہ دار بھی برابر کے شریک ہیں۔

معاشرے کی اس ابتر صورت حال کی ذمہ داری سے کوئی بھی بری الذمہ نہیں ہوسکتا۔ اس بگاڑ کے ذمہ دار والدین ،تعلیمی ادارے ،مدرسے اور سیاسی لیڈر سبھی ہیں تو اس کو سدھارنے کے لیے بھی سب ہی کو کوشش کرنی ہو گی۔ دنیا پر چاہے آپ کواختیار نہیں لیکن آپ اپنے گھر میں تو بہت کچھ کرسکتیں ہیں۔ اپنی اولاد، بھائی ،بہن کی سرگرمیوں سے باخبر ہوکر ان پر نظر رکھنا کوئی بھی غیر معمولی نقل وحرکت بہت دیر تک گھر والوں سے پوشیدہ نہیں رہ سکتی، پھر اپنا علاقہ، محلہ پڑوس میں رہنے والے غیر قانونی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے ساتھ غیر اخلاقی باتوں پر بھی سرزنش کرسکتے ہیں ۔

اس معاشرے کے لیے اُمید کی کرن پیدا ہوتی نظر آئی جب ہر طبقہ فکر کے لوگ یہ سوچنے پرمجبور ہوگئے کہ اب عمل کا وقت آگیا ہے۔ اور اس مرض کا تدارک اب ہوجانا چاہیے اور اگر مرض کی تشخیص درست ہوتو مرض لاعلاج نہیں رہتا،جس طرح پاک سرزمین کی حفاظت کے لیے اس کی سرحدوں پر باڑلگا کر حفاظت کی جاتی ہے۔ بالکل اسی طر ح اپنی نسلوں کو بچانے کے لیے بھی حدود متعین کرنے پڑیں گے۔ آزادی کے نام پر بے راہ روی کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔