بدلتے حالات میں پاکستان کی خارجہ پالیسی

October 17, 2021

پاکستان اور امریکا کے تعلقات گزشتہ کئی عشروں سے اونچ نیچ کا شکار چلے آرہے ہیں۔ اِن دنوں ایک مرتبہ پھر باہمی تعلقات پر مختلف النّوع خدشات کے سائے منڈلانے لگے ہیں۔ تعلقات کی خرابی پر تنائو بڑھتا ہے، تو گرما گرم بیانات بھی آنے لگتے ہیں۔ گزشتہ ماہ امریکی سینیٹ میں 22ری پبلکن ارکان نے ایک بِل پیش کیا، جس میں اسلام آباد کے افغان وار میں کردار سے متعلق تحقیق کر کے رپورٹ دینے کو کہا گیا ہے۔

تشویش ناک بات یہ ہے کہ اس بِل میں پاکستان پر اقتصادی پابندیاں لگانے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔ امریکا کا یہ سب سے طاقت وَر ایوان ایک سو ارکان پر مشتمل ہے، جس میں ری پبلکن اور ڈیموکریٹک ارکان کی تعداد برابر ہے۔ری پبلکن ارکان اِس وقت اپوزیشن میں ہیں، کیوں کہ صدر جو بائیڈن کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے۔تجزیہ کاروں کے مطابق بِل کی منظوری کے امکانات بہت کم ہیں، تاہم اِس قسم کے بِل کی ٹائمنگ اور مطالبات دونوں ممالک کے تعلقات کے لیے کوئی اچھا پیغام نہیں۔

تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ڈیموکریٹس اسلام آباد کے حوالے سے کسی بند گلی میں جانا پسند نہیں کریں گے، کیوں کہ اُنہیں معاملات بھی تو چلانے ہیں، لیکن یہ بل اُس عمومی رائے کی عکّاسی ضرور کرتا ہے، جو افغان طالبان کے حوالے سے وہاں پائی جاتی ہے۔ ڈیمو کریٹک پارٹی کے دَور میں پاک، امریکا تعلقات میں گرم جوشی کا کم ہونا نئی بات نہیں کہ ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔

اِسی تناظر میں صدر جوبائیڈن کا اب تک عمران خان کو فون نہ کرنا سمجھ میں آسکتا ہے، لیکن حیرت یہ ہے کہ ری پبلکنز، جو روایتی طور پر پاکستان کی حمایت کرتے ہیں، اب وہ بھی مخالفانہ بِل لا رہے ہیں، تو اِس بل کا مقصد صُورتِ حال کی مسلسل مانیٹرنگ اور دبائو برقرار رکھنا نظر آتا ہے۔ وزیرِ اعظم عمران خان کی تین ماہ میں دو مرتبہ وائٹ ہاؤس میں میزبانی کی گئی۔

عمران خان نے پہلے دورے کے بعد واپسی پر اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا،’’ یوں لگتا ہے کہ ورلڈ کپ جیت کر آگیا۔‘‘ طالبان کی مدد سمیت دیگر الزامات اور صدر جوبائیڈن کی جانب سے سرد مہری اپنی جگہ، لیکن اِس بل کے اصل محرّک وہ بیانات ہیں، جو پاکستانی حکومت، طالبان کی مدد کے لیے اپیل کی شکل میں دنیا، خاص طور پر امریکا سے کرتی رہی ہے۔ وزیرِ اعظم ہوں یا وزیرِ خارجہ، سب ہی بلاتکّلف بیان دیتے ہیں کہ’’ افغانستان کی مدد کی جائے، کیوں کہ وہاں انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔‘‘

اِس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ افغانستان میں واقعتاً ایسے حالات پیدا ہوسکتے ہیں، جن سے عوام کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑے۔ بلکہ ایسا ہونے بھی لگا ہے، جس کا کُھلی آنکھوں سے مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔پاکستان ایک ہم سایہ مُلک ہونے کی وجہ سے وہاں کی حکومت اور عوام کی مدد کی اپیل کر رہا ہے، جس پر اُسے الزامات کا نشانہ بنانا درست نہیں، تاہم اکثر تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ کام، یعنی دنیا سے مدد کی اپیل ،خود طالبان حکومت کو کرنی چاہیے۔اُن کی عبوری حکومت قائم ہے، جس میں وزیرِ اعظم، تین نائب وزرائے اعظم،وزیرِ خارجہ اور وزیرِ خزانہ موجود ہیں۔

نیز، وہ بیانات دینے اور دنیا سے رابطے میں آزاد ہیں۔ امریکا، افغانستان کی معیشت کے لیے ڈالرز کی شکل میں80 فی صد سے زاید رقوم فراہم کرتا رہا ہے، لیکن اب نہ صرف امریکا، بلکہ یورپ اور عالمی مالیاتی اداروں نے بھی افغانستان کے اثاثے منجمد کرنے کے ساتھ امداد بھی بند کردی ہے۔ اُنہوں نے اثاثوں اور امداد کی بحالی کے لیے افغانستان میں ایک نمائندہ حکومت کے قیام کی شرط عاید کی ہے۔ اس مطالبے کی چین، روس اور مسلم ممالک نے بھی حمایت کی ہے۔

اِس وقت افغانستان میں صرف انسانی بنیادوں پر امداد بھیجی جارہی ہے، جس میں خوراک اور ادویہ کو فوقیت دی جاتی ہے۔وہاں صحت کا نظام تقریباً تباہ ہو چُکا ہے۔تعلیم اور یوٹیلیٹی سروسز کا بھی یہی حال ہے۔ملازمین کو تن خواہیں نہیں مل رہیں۔

دوسرے الفاظ میں یہ کہنا درست ہوگا کہ وہاں انسانی المیہ جنم لے چُکا ہے۔ اِس لیے امداد کی بڑے پیمانے پر بحالی وقت کی ضرورت ہے اور انسانی ہم دردی کا تقاضا بھی۔ طالبان دو سال تک دوحا میں مذاکرات اور معاہدے کرتے رہے۔ روس، چین، ایران اور دوسرے دارالحکومتوں میں اعلیٰ ترین سطح پر رابطے میں رہے، تو کیا اِس دَوران اُنھیں یہ خیال نہیں آیا کہ حکومت میں آنے پر معیشت کیسے سنبھالیں گے؟

افغانستان میں تین کروڑ سے زاید لوگ رہتے ہیں اور اُنھیں بنیادی سہولتوں کی فراہمی طالبان حکومت کی ذمّے داری ہے۔یقیناً یہ بات بھی طالبان کے ذہن میں ہوگی کہ فتحِ کابل کے بعد وہ ہارنے یا وہاں سے انخلاء کرنے والوں سے معاشی مدد کی کیسے اپیل کرسکیں گے؟

ہمارے لیے اہم بات یہ ہے کہ افغانستان کی صُورتِ حال پاکستان کی خارجہ پالیسی کے لیے آزمائش میں تبدیل نہیں ہونی چاہیے، کیوں کہ بہرحال دونوں ہی خود مختار مُلک ہیں اور اپنے عوام کے سامنے جواب دہ بھی۔افغانستان میں طالبان حکم ران ہیں، لہٰذا یہ اُنہی کا حق اور فرض ہے کہ وہی دنیا کے سامنے اپنا کیس پیش کریں۔وہ دنیا سے دوحا مذاکرات وغیرہ کی شکل میں سفارت کاری کرتے آئے ہیں اور داد بھی پاتے رہے۔

یہ بات درست ہے کہ طالبان کے ٹیک اوور سے خطّے کو کوئی بڑا دھچکا نہیں لگا، لاکھوں افراد کی ہجرت کے خدشات ٹل گئے اور خون ریزی بھی نہیں ہوئی۔اب طالبان حکومت ہی کو معاشی اور خارجہ معاملات عالمی سطح پر پیش کرنے چاہئیں۔پاکستان کی جانب سے بار بار اِن امور پر بات کرنا کہاں تک مناسب ہے؟ اِس پر غور کرنا ضروری ہے۔ افغانستان سے دوستی، پالیسی کا حصّہ تو ہونی چاہیے، لیکن کسی حکومت کی ترجمانی اُس کا اپنا کام ہے۔

پاک، امریکا تعلقات میں جنم لینے والی کشیدگی آنے والے دنوں میں مشکلات کی نشان دہی کرتی ہے۔ پھر امریکا ہی نہیں، برطانیہ بھی اپنی ترجیحات بدل رہا ہے۔وہ مِڈل اور مغربی ایشیا چھوڑ کر جنوب مشرقی ایشیا اور انڈو پیسیفک میں جا رہا ہے۔جاپان، جنوبی کوریا، آسٹریلیا اور دیگر ممالک بھی اب ہمارے خطّے میں اپنی دل چسپی کم کرتے چلے جائیں گے۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان اور خطّے کے دیگر ممالک کی اہمیت اُن کی نظر میں وہ نہیں رہے گی، جو کبھی ہوا کرتی تھی۔اِسی طرح اُن ممالک کی جانب سے ہمارے خطّے میں سرمایہ کاری میں نمایاں کمی آنے کا امکان ہے۔

اب تک پاکستان اور دیگر ممالک امریکا، مغربی دنیا یا اُس کے اتحادیوں سے مضبوط اقتصادی روابط رکھتے ہیں۔ پاکستان کی زیادہ تر تجارت یورپ، امریکا اور برطانیہ سے ہے۔80 فی صد پاکستانی تارکینِ وطن میں سے، جن کے متعلق وزیرِ اعظم کا کہنا ہے کہ وہ ہمارا اصل سہارا ہیں، زیادہ تر انہی ممالک میں ہیں، جو ’’ویسٹرن گلوب‘‘ میں سمجھے جاتے ہیں۔ یعنی مشرقِ وسطیٰ ، برطانیہ اور امریکا۔جن ممالک کو ہم برادر اور دوستی کے رشتے ناتے کے حوالے سے پیش کرتے ہیں، اُن سے ہمارا ٹریڈ بیلنس بہت ہی کم ہے۔اِن میں عرب، ایران اور وسط ایشیائی ممالک شامل ہیں۔

گزشتہ دس برسوں سے کہا جا رہا ہے کہ امریکا اور یورپ کی ہمارے خطّے سے دِل چسپی ختم ہو رہی ہے، لیکن اِس کے باوجود ایسے اقدامات نہیں کیے گئے، جن سے تجارت یا سرمایہ کاری کے بڑے منصوبے علاقائی ممالک سے طے پاتے۔شاید ہمارے خارجہ پالیسی مینجرز اِس مفروضے پر چلتے رہے ہیں کہ افغانستان کی وجہ سے ہماری عالمی اہمیت کبھی بھی ختم نہیں ہوگی۔مِڈل ایسٹ میں بھی ہمارے قدم مضبوط ہیں، جب کہ امریکا، ایران کش مکش میں بھی اسلام آباد کا ممکنہ کردار ہوسکتا تھا، لیکن افغانستان سے امریکی انخلا نے، وہ بھی فوری اور مکمل، یہ مفروضہ غلط ثابت کردیا۔

پاکستان کو اِس امر پر مسلسل توجّہ مرکوز رکھنی چاہیے کہ طالبان ٹیک اوور کے اُس پر کیا اثرات مرتّب ہو رہے ہیں۔خاص طور پر امریکا اور برطانیہ کی جانب سے’’ آکوس معاہدے‘‘ کے اعلان کے بعد جو نئی صُورتِ حال پاکستان کے لیے نئے چیلنجز لائی ہے، وہ بہت اہم ہے۔ ماہرین اِس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ امریکا نے وہ تمام انتظامات مکمل کر لیے ہیں، جو ایشیا کے اِس حصّے کو چھوڑنے کے لیے ضروری تھے۔

ان میں آکوس اور کواڈ فورم اہم ہیں۔بھارت’’ کواڈ فورم‘‘ میں شامل ہی نہیں، بلکہ بہت فعال کردار ادا کرنے کا فیصلہ کر چُکا ہے اور اس معاملے پر وہاں کی تمام سیاسی جماعتوں میں اتفاق نظر آتا ہے۔اِس کا ایک مطلب یہ ہے کہ وہ امریکی کیمپ میں شامل ہوا ہے اور ساتھ ہی اُن کوششوں کا حصّہ بننے کو بھی تیار ہے، جو انڈوپیسیفک میں چین کو محدود کرنے کے لیے ہو رہی ہیں۔آسیان پہلے ہی موجود ہے، جسے امریکا اور جاپان گزشتہ بیس سال سے مضبوط کرتے آ رہے ہیں۔ علاقے کے زیادہ تر ممالک اِس تنظیم کا حصّہ ہیں، جن میں جاپان، جنوبی کوریا، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، جنوبی کوریا، انڈونیشیا، ملائیشیا، سنگاپور اور ویت نام شامل ہیں۔

بھارت اپنے مشرقی ساحلوں کی وجہ سے اس علاقے میں اپنے اثرات گہرے کر رہا ہے، لیکن خطّے میں امریکا کی آمد کی وجہ سے وہ اپنے کردار میں اضافہ چاہتا ہے۔گو کہ ہمالائی سرحد اُس کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہیں اور وہ نہیں چاہے گا کہ اُس کا چین کے ساتھ کوئی براہِ راست ٹکرائو ہو، کیوں کہ ماضی کے تمام فوجی تصادم میں اُسے ہزیمت ہی اُٹھانی پڑی۔نیز، وہ چین جیسے ترقّی یافتہ پڑوسی سے تجارتی تعلقات بھی دائو پر نہیں لگانا چاہتا کہ دونوں کے درمیان تجارتی حجم ایک سو بلین ڈالرز سے زاید ہو چُکا ہے۔ سرحد کے اِس قدر قریب رونما ہونے والی یہ تبدیلیاں پاکستان کی خارجہ پالیسی کے لیے بہت سے امکانات اور مسائل لے کر آئی ہیں۔

ہم چین کے سب سے قریبی دوست مانے جاتے ہیں۔اس کے سب سے پریمیئر منصوبے، بیلٹ اینڈ روڈ کا حصّہ ہیں۔پاکستان اور چین کے درمیان عالمی معاملات پر بہت ہم آہنگی ہے۔پاکستان کسی طور بھی چین کے گھیرائو کی حمایت نہیں کرتا۔ تاہم، یہ سوال بھی اہم ہے کہ امریکا اور مغربی دنیا سے خارجہ اور اقتصادی شکل میں ہمارے جو مفادات وابستہ ہیں، نئے حالات میں اُنھیں کیسے متوازن کیا جائے؟

گزشتہ کئی ماہ سے وزیرِ اعظم اور وزیرِ خارجہ کے امریکا سے متعلق سخت اور تلخ بیانات آ رہے ہیں، جن میں غصّہ، گلہ شکوہ سب ہی دیکھا جاسکتا ہے۔ہمیں بھارت سے امریکی تعلقات پر بھی گلے شکوے ہیں۔ وزیرِاعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ پاکستان نے امریکا کا ساتھ دینے کی خاطر بے مثال قربانیاں دیں، لیکن جواب میں تعریف کی بجائے الزامات ہی لگتے رہے۔ اُن کے مطابق، باقی دنیا کا بھی تقریباً یہی وتیرہ رہا ہے۔ گلے شکووں کے باوجود معاملات سلجھنے کی بجائے اُلجھتے ہی جارہے ہیں۔

جو کبھی امریکی سینیٹ میں بِل کی صُورت سامنے آتے ہیں، تو کبھی یورپی یونین کی جانب سے جی ایس پی پلس پر وارننگ دی جاتی ہے۔ ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف کی کڑی شرائط بھی تعلقات کی خرابی ہی کی ایک شکل ہے۔اگر مُلک مضبوط معاشی بنیادوں پر چل رہا ہوتا، تو شاید یہ معاملہ اِتنا شدید نہ ہوتا، لیکن کم زور معیشت اور قرضوں نے اسے خاصا پیچیدہ بنا دیا ہے۔اگر ہم خارجہ امور پر کوئی سخت مؤقف اپناتے بھی ہیں، تو اگلے ہی لمحے کوئی اقتصادی مجبوری سامنے آجاتی ہے، جسے متوازن کرنے کے لیے چین سے بار بار امداد لیتے ہیں۔

گزشتہ دنوں سی پیک سے متعلق معاملات بھی میڈیا پر آئے، جن میں چینی قرضوں کا خاص طور پر ذکر کیا گیا۔ چین اور پاکستان کی طرف سے اِس امر کا اعادہ کیا جاتا رہا ہے کہ دونوں دوست مُلک اس منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے پُرعزم ہیں اور کسی بھی رکاوٹ یا مخالفت کو اِس کی راہ میں نہیں آنے دیں گے، تاہم یہ بھی ضروری ہے کہ سی پیک سے متعلقہ مسائل پر چین سے کُھل کر بات کر لی جائے تاکہ منصوبہ تیزی سے آگے بڑھ سکے۔اگر امریکی انخلا کے بعد افغانستان کی بحالی میں کوئی مُلک واقعی مدد کرسکتا ہے، تو وہ چین ہے۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ افغانستان میں نظام معمول پر آجائے اور ترقّی کا سفر شروع ہو، تو اس کے لیے چین کو کردار ادا کرنے پر راضی کرنا اہم ہوگا۔پاکستان بار بار کہہ رہا ہے کہ وہ افغانستان کو بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں خوش آمدید کہے گا، یقیناً اِس سلسلے میں چین کو اعتماد میں لیا ہوگا، کیوں کہ بنیادی طور پر یہ منصوبہ اُسی کا ہے۔

روس کے جہاں ہم سے تعلقات ہیں، وہیں بھارت سے بھی بہت اچھے روابط ہیں، بلکہ وہ اور بھارت ظاہر شاہ کے زمانے میں افغانستان میں بنیادی کردار ادا کرتے رہے ہیں۔تو کیا اب روس ہمیں اُس کی جگہ دینا پسند کرے گا یا پھر ہمیں دو طرفہ تعلقات ہی پر زور دینا ہوگا؟ ویسے بھی آکوس یا کواڈ میں روس کو نشانہ نہیں بنایا گیا، اِس لیے وہ اپنی کم زور معیشت اور مغربی اقتصادی پابندیوں کے سبب ان معاملات سے دُور ہی رہنا چاہے گا۔ایران نیوکلیئر ڈیل کی بحالی کے لیے بے چین ہے کہ پابندیوں نے اس کی معیشت تباہ کر دی ہے۔

اُس کے سعودی عرب سے مذاکرات اور تعلقات کی بحالی کو اِسی پس منظر میں دیکھا جارہا ہے۔ پاکستان ان دونوں مسلم ممالک میں دوستی کے لیے ثالثی کا خواہش مند رہا، لیکن یہ کام عراق کے وزیرِ اعظم، مصطفیٰ کاظمی کے حصّے میں آیا۔سعودی عرب اور ایران، مشرقِ وسطیٰ کے دو سب سے طاقت وَر مُلک ہیں اور سب سے زیادہ تیل پیدا کرتے ہیں۔ بلاشبہ، ان کی دوستی مسلم دنیا کے لیے ایک بہت بڑی خبر ہے۔تاہم،اِس بدلتی صُورتِ حال میں بھی پاکستان کو بہت سے امکانات پر غور کرنا ہوگا۔