شہید ملت لیاقت علی خان

October 16, 2021

آج شہید ملت نواب زادہ لیاقت علی خاں کی 70ویں برسی ہے۔ تحریک پاکستان سے قیام پاکستان اور بعد میں انہوں نے ملک و قوم کے لیے جو خدمات سرانجام دیں وہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی جائیں گی۔ شہید ملت نے شمع آزادی روشن کرنے کے لیے بانیٔ پاکستان کے شانہ بشانہ کام کیا۔ قیام پاکستان سے قبل عبوری حکومت کے وزیر خزانہ کی حیثیت سے انہوں نے غریب آدمی کا بجٹ پیش کر کے ہندوؤں اور انگریزوں کی سازشوں کو جس طرح ناکام بنایا، وہ ان ہی کا حصّہ تھا۔ قیام پاکستان کے بعد وزیر اعظم کے عہدے کے ساتھ مرکزی وزیر دفاع کا محکمہ بھی ان ہی کے سپرد رہا اور بطور وزیر دفاع ان کی وہ تقریر بہت مقبول ہوئی جس میں انہوں نے دشمن کو اپنا آہنی مکّا دکھاتے ہوئے عوام سے کہا تھا:

’ ’بھائیو! یہ پانچ انگلیاں جب علیحدہ ہوں تو ان کی قوت کم ہوجاتی ہے لیکن جب یہ مل کر مکّا بن جائیں تو یہ مکّا دشمن کا منہ توڑ سکتا ہے‘‘ قائد ملت کا یہی تاریخی مکّا اتحاد وقوت کی علامت بن گیا۔ شہید ملت کی برسی کے موقعے پر اُن کی کچھ یادیں کچھ باتیں نذرِ قارئین۔

لیاقت علی خاں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز1923میں کیا1926میں یوپی کی مجلس قانون ساز کے ممبر منتخب ہوئے۔ 1940تک یو پی کو نسل اور بعد میں اسمبلی کے ممبر رہے۔ چھ سال تک یوپی کونسل کے نائب صدر بھی رہے۔

1936میں قائد اعظم محمد علی جناح نے مسلم لیگ کی تنظیم نوکی تو لیاقت علی خان کو آل انڈیا مسلم لیگ کا جنرل سیکریٹری مقرر کیا ۔1939 سے 1947 تک آپ اس عہدے پر فائزرہے اور مسلم لیگ کو منظم فعال اور مؤثر بنانے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔

قائد اعظم کی مسلسل مخلصانہ سیاسی تربیت نے لیاقت علی خاں کو بلندیوں کی اس منزل پر پہنچا دیا تھا جو بہت کم سیاست دانوں کا نوشتہ تقدیر ہے۔1937میں جب حکومت ہندوستان نے ایک تجارتی وفد انگلستان بھیجا تو لیاقت علی خاںبھی اس وفد میں شامل تھے۔1940میں آپ ہندوستان کی مرکزی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ۔

اسمبلی میں مسلم لیگ کے لیڈر قائد اعظم تھے۔ جون 1945کو جب شملہ کانفرنس کا انعقاد ہوا تو مسلم لیگ کےچھ نمائندوں میں لیاقت علی خاں بھی شامل تھے۔1946 میں حکومت برطانیہ نے ہندوستان سے جن لیڈروں کو ہندوستان کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لئے مدعو کیا تھا اس میں آپ کا نام بھی شامل تھا۔1946میں جب مسلم لیگ نے عارضی حکومت میں شرکت کا فیصلہ کیا تو لیاقت علی خاں مسلم لیگ کے لیڈر تھے۔ اس حیثیت سے آپ نے عبوری حکومت میں محکمہ خزانے کا چارج لیا اس طرح پہلے ہندوستانی وزیر خزانہ بننے کا اعزاز بھی لیاقت علی خان کو حاصل ہوا۔

28فروری 1947کو لیاقت علی خاں نے مرکزی اسمبلی میں بجٹ پیش کیا، غیر منقسم ہندوستان کا یہ پہلا بجٹ تھا جو ایک غیر انگریز وزیر نے بنایا تھا۔لیاقت علی خاں نے اپنے تاریخی بجٹ میں جو تجاویز پیش کی تھیں ان میں کہا گیا تھا کہ ٹیکس چوری سے جمع کی ہوئی دولت کے بارے میں تحقیقات کے لئے ایک کمیشن قائم کیا جائے۔ نمک پر محصول منسوخ کیا جائے، انکم ٹیکس سے چھوٹ کے لئے آمدنی کی حد دوہزار سے بڑھاکر ڈھائی ہزار کردی جائے۔ایک اور اہم تجویز یہ رکھی تھی کہ ایک لاکھ سے تجاوز کاروباری منافعوں پر 25 فیصد اسپیشل انکم ٹیکس نافذ کیا جائے۔

اس کے علاوہ55ہزار روپے سے زائد سرمائے پر ایک تدریجی ٹیکس لگایا جائے۔ان تجاویز کا اسمبلی میں پُر جوش خیرمقدم کیا گیا۔لیاقت علی خان نے جس کمال ہوشیاری اور دانش مندی سے یہ بجٹ تیار کیا تھا، اس سے یہ ثابت کردیا تھا کہ وہ ایک ماہر معاشیات ومالیات کےعلاوہ ایک ماہر اقتصادیات بھی ہیں۔

قائد اعظم نے مسلمانان ہند کی ترقی وتعمیر اور سیاسی بیداری کا جو بھی خاکہ بنایا، اس کی رنگ آمیزی میں لیاقت علی خاں کی ذہانت اور فطانت کوبھی بڑ ادخل تھا۔ وہ سیاست کے ہر گام پر قائداعظم کے ہم نوا اور ہم خیال رہے ۔

لیاقت علی خاں مقاصد، نظریات، اصولوں اور کامرانیوں کے مرقع تھے۔ کوئی خوف یا ترغیب آپ کی راہ میں حائل نہیں ہوسکتی تھی۔ پختہ یقین، غیر متزلزل اعتماد اور معاملہ فہمی آپ کےنمایاں اوصاف تھے۔ آپ اعلی کردارکے مالک تھے۔ خدا پرایمان عزم وخلوص اسلام سے محبت اور حق کی حمایت پر مکمل یقین رکھتے تھے۔ آزادی کی جدوجہد اور تحریک پاکستان میں لیاقت علی خاں نے جس طرح قائد اعظم کا ساتھ دیا وہ مثالی نوعیت کا تھا۔

لیاقت علی خاں کوقدرت نے غیر معمولی فراست وتدبر کمال استقامت اور بے مثل قیادت کی خوبیوں سے نوازا تھا ۔پاکستان کے پہلے وزیراعظم کی حیثیت سے انتھک محنت کی۔ان کی وزارت عظمی کے چار سال بڑے یادگار ہیں پاکستان کو دفاعی ،معاشی، اقتصادی اور صنعتی طور پر مستحکم کرنے کے لئے گراں قدر خدمات انجام دیں۔

لیاقت علی خاں ہمہ گیر شخصیت کےمالک تھے۔ وہ ایک اعلیٰ درجے کے سیاست داں، بلند پایہ خطیب اور شعلہ بیاں مقرر تھے لیکن ایک خوبی جوسب سے زیادہ نمایاں تھی وہ یہ کہ وہ ایک مخلص اور دیانت دار انسان تھے۔قیام پاکستان کے بعد اس کی بنیادوں کو مستحکم کرنے کے لئے دن رات کوشاں رہے۔ قوم کے حوصلے بلند اور ان میں جوش وخروش اور ولولہ پیدا کرتے رہے۔

کراچی میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے کہا ’’ پاکستان کے عوام کو مجھ سے جو محبت ہے اس کا بدل دینے کے لئے میرے پاس کچھ نہیں ہے ایک جان ہے، وہ بھی پاکستان کے لئے وقف ہے البتہ یہ وعدہ کرتا ہوں کہ پاکستان کی بقا حفاظت اور عزت کے لئےاگر قوم کو خون بہانا پڑا تو لیاقت کا خون بھی اس میں شامل ہوگا۔…‘‘

11ستمبر1948کوجب قائداعظم نے داعی اجل کو لبیک کہاتو لیاقت علی خاں نے اس نازک وقت میں بڑی ہمت اور حوصلہ سے کام لیا۔ عوام کی ہمت بندھائی جواس سانحہ سے اپنے ہوش وحواس کھو بیٹھے تھے۔

قائداعظم محمد علی جناح اور شہید ملت نواب زادہ لیاقت علی خاںکی ایک یادگار تصویر

قائد اعظم کی رحلت کے بعد لیاقت علی خاں پر ذمہ داریوں کا بوجھ مزید بڑھ گیا۔چاروں طرف پریشانیاں تھیں، دشمن فتنہ انگیز یوں میں مصروف تھا، اس نازک موقع پر لیاقت علی خاں نے قوم کا اعتماد بحال کیا اپنی مستقل مزاجی اور ہمت سے ملک کو ایک بہت بڑے بحران سے نکال لیا۔ وہ حب الوطنی اور بے لوث قیادت کی شمع فروزاں تھے ۔عزم راسخ اور حق وصداقت کاپیکر ۔ وہ پاکستان کو صحیح معنوں میں ایک اسلامی وفلاحی ریاست بنانا چاہتے تھے۔

وزرات عظمی کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد ان کی صلاحیتوں، تدبراور جرات کا اعتراف ہر سطح پر کیاگیا تھا۔ لیاقت علی خاں نے بہت کم عرصے میں پاکستان کو ترقی سے ہمکنار کیا۔آپ نے لادینی عناصر اور باطل قوتوں کے ساتھ کبھی سمجھوتہ نہیں کیا، ہمیشہ نظریہ پاکستان اور اسلامی نظام کے قیام پر زور دیا۔ ہر موقع اور ہر مرحلے پر یہی کہا کہ پاکستان اسلام اور صرف اسلام کی خاطر وجود میں آیا ہے اور یہی اس کا مقصد وجود رہے گا۔وہ ہر دم ہر آن پاکستان کے وقار اور اہل پاکستان کی عزت دنیا میں منوانے کے فکر میں رہتے تھے۔

لیاقت علی خاں جب امریکی صدر کی دعوت پر امریکہ گئے تو امریکی کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ:

’’ پاکستان ایک غریب ملک ہے اس کے باشندے غریب ہیں، مگر اپنی غربت کے باوجود وہ بڑے خوددار ہیں وہ اپنی عزت ووقار اپنی خودی وخودداری کا سودا کرنے پر اپنی موت کو ترجیح دیتے ہیں…‘‘

لیاقت علی خان 15 اگست 1947 کو پاکستان کے پہلے وزیراعظم کا حلف اٹھانے کے بعد دستخط کررہے ہیں

لیاقت علی خاں نے اپنی ذمہ داریوں کو بڑی محنت، لگن اور خود اعتمادی کے ساتھ پورا کیا۔ قائد اعظم کی طرح آپ نے بھی پاکستان کو اپنا سرمایہ ، اپنا خاندان اور اپنا سب کچھ سمجھا۔ آپ نے نہ توکوئی بینک بیلنس جمع کیا اور نہ ہی رہنے کے لئے گھریا اپنے خاندان کے کسی فرد کے لئے کوئی منفعت حاصل کرنے کی کوشش کی۔

قائد اعظم کی وفات کے بعد ملک وملت کی قیادت اور خدمت کے لئے آپ کی موجودگی بلاشبہ عوام کا حوصلہ بلند رکھنے کا باعث بنی رہی۔ آپ کی اقتصادی پالیسیوں سے اندورن ملک استحکام رہا اور بیرون ملک پاکستان کی ساکھ میں اضافہ ہوا۔

لیاقت علی خاں کے دور کا ایک اہم کارنامہ قرارداد مقاصد کی منظوری ہے۔ عوامی خواہشات کے مطابق ملک کے آئین کو مرتب کرنے اور اسلامی اصولوں کے مطابق دستوری ڈھانچہ تیار کرنے میں قرارداد مقاصد نے مشعل راہ کاکام کیا۔ اس کے ذریعے طے کیا گیا کہ پاکستان کا دستور اسلامی اصولوں پرمرتب ہوگا۔

لیاقت علی خاں کا ایک اور اہم کارنامہ اتحاد عالم اسلامی کی تحریک تھی۔ انہوں نےاسلامی اتحاد کے لئے عملی اقدامات کئے۔ ان کے عہد میں اسلامی عالمی اقتصادی کانفرنس کراچی میں منعقد ہوئی، جواپنی نوعیت کی پہلی کانفرنس تھی۔ لیاقت علی خاں کو مسلمانوں کی مذہبی سیاسی اور معاشرتی تاریخ کا بخوبی علم تھا وہ جدید سیاسی نظریات اوررحجانات سے واقف تھے اور پارلیمانی آداب سے مکمل طور پر آگاہ تھے ۔بحیثیت ممبر بطور ڈپٹی لیڈر اور بعد میں حزب اختلاف اور آخر میں بحیثیت قائد ایوان، پارلیمانی روایات کے بہترین امین تھے۔

پاکستان کا یہ بطل جلیل 16اکتوبر 1951 کو راولپنڈی میں ایک جلسہ عام سے خطاب کررہے تھے اور ان کی زبان سے ابھی صرف برادران اسلام کے الفاظ نکلے تھے کہ ان پر گولی چلا دی گئی ۔ اس مرد خود آگاہ کی زبان پرکلمہ طیبہ کے بعد جو الفاظ تھے وہ تھے۔

’’ خدا پاکستان کی حفاظت کرے…‘‘

موت ایک حقیقت ہے لیکن لیاقت علی خاں نے ایسی موت پائی جو حیات جاوید میں تبدیل ہو گئی آپ نے اپنا سب کچھ ملک وقوم کی خاطر وقف کرکے ثابت کردیا کہ ایک سچے عظیم رہنما کا حقیقی اثاثہ اس کا کردار اور کارنامے ہیں۔

رئیس ابن رئیس نواب زادہ لیاقت علی خاں نے جب وفات پائی توان کی شیروانی کی جیب سے ایک رومال، ایک سگریٹ کیس اور سبز رنگ کے کپڑے میں لپٹا ہوا چھوٹا ساقرآن مجید نکلا تھا۔ آپ کا کل بینک بیلنس750روپے تھا، یہی رقم لیاقت علی خاں کے ایثار، قربانی خلوص اور دیانت داری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ لیاقت علی خاں نے پاکستان کی بقا اور سالمیت واستحکام کے لئے اپنی جان قربان کردی۔ اور ہمارے لئے ایک ایسی مثال قائم کی ہے جس پر عمل پیرا ہوکر ہم دین ودنیا دونوں میں سرخ رو ہوسکتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ صلہ شہید کیا ہے تب وتاب جاودانہ

(پروفیسر حامد علی کی کتاب ’’ہمارے قومی رہنما سے ایک باب‘‘)