تاریخ میں ڈھلتی ہوئی داستان

October 15, 2021

پاکستان میں جبر کی طاقتیں، جو حضرت قائدِاعظم کی رحلت اور قائدِ ملت نوابزادہ لیاقت علی خاں کی شہادت کے بعد اقتدار پر قابض ہو گئی تھیں، اُنہوں نے اطمینان کا سانس لیا کہ سید ابوالاعلیٰ مودودی راستے سے ہٹ گئے ہیں۔ عمر قید کی سزا کاٹنے کے لئے اُنہیں دس پندرہ سال جیل میں گزارنا ہوں گے اور اُن کی غیرموجودگی میں جماعتِ اسلامی کا شیرازہ بکھیرنا قدرے سہل ہو جائے گا۔ حکمران طبقہ جو بڑے بڑے زمینداروں، جاگیرداروں اور وڈیروں پر مشتمل تھا اور جس کے سول اور ملٹری بیوروکریسی سے بھی مراسم قائم تھے، وہ پاکستان میں اسلامی نظام اور جمہوری طرزِ زندگی سے بہت خائف تھا۔ اُس کے برعکس بانیانِ پاکستان مسلمانوں کے لئے ایک ایسا معاشرہ تعمیر کرنا چاہتے تھے جس میں اسلام کے مطابق کاروبارِ زندگی سرانجام پائے۔ مولانا ظفر احمد انصاری جو آل انڈیا مسلم لیگ کے جوائنٹ سیکرٹری تھے، اُنہوں نے راقم الحروف کو ایک اہم اِنٹرویو دِیا جو ماہنامہ اُردو ڈائجسٹ میں نومبر 1966میں شائع ہوا۔

اُس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ مسلم لیگ نے قراردادِ لاہور کی منظوری کے فوراً بعد اِسلامی حکومت کے واضح تعین کے لئے 1940ہی میں علما کی کمیٹی مقرر کی تھی جس میں سید سلیمان ندوی، سید مودودی، مولانا عبدالماجد دریاآبادی، مولانا آزاد سبحانی اور مولوی اسحاق سندیلوی شامل تھے۔ اُس تعلق کی بنا پر سیدابوالاعلیٰ مودودی پاکستان میں اسلامی حکومت اور اِسلامی دستور کے خدوخال واضح کرنے میں شب و روز مصروف ہو گئے۔ قرآن کے مفسر اور اِسلام کے ممتاز مفکر کی حیثیت سے حکومتِ پاکستان نے اُنہیں ریڈیو پاکستان پر قوم سے خطاب کرنے کی دعوت دی۔ اُنہوں نے 1948کے اوائل میں پانچ تقریریں کیں جن میں اسلام کے اخلاقی، سیاسی، معاشرتی، اقتصادی اور رُوحانی نظام کے تصورات عصری محاورے میں پیش کیے گئے تھے۔ فروری میں پنجاب یونیورسٹی میں وائس چانسلر ڈاکٹر عمر حیات ملک کی سربراہی میں ’’اسلامی قانون اور پاکستان میں نفاذ کی تدابیر‘‘ پر سیمینار منعقد ہوا۔ وہ عناصر جو اِسلام کے نام ہی سے الرجک تھے اور پاکستان کو ایک لادینی ریاست دیکھنا چاہتے تھے، وہ اِس پروپیگنڈے کو ہوا دیتے رہے کہ مودودی تو جہادِکشمیر کو حرام قرار دیتا ہے۔ اِس شر کے نتیجے میں حکومتِ پنجاب اور جماعتِ اسلامی کے تعلقات کشیدہ ہو گئے اور مولانا پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت بیس ماہ نظربند رہے۔ یہی بےدین طبقے اُن پر تخلیقِ پاکستان کی مخالفت کا الزام بھی لگاتے رہے۔

راقم الحروف 1950میں مرالہ ہیڈورکس پر سگنیلر کے طور پر تعینات تھا۔ خبر پہنچی کہ ابوالاعلیٰ مودودی جولائی 1950کے وسط میں سیالکوٹ میں جلسۂ عام سے خطاب کریں گے۔ خاکسار مرالے سے سیالکوٹ پہنچا۔ میرا اُن کی تقریر سننے کا یہ پہلا موقع تھا۔ وہ دِھیمے اور سنجیدہ لہجے میں تقریر اِس انداز میں کر رہے تھے جیسے لکھی ہوئی تحریر پڑھ رہے ہوں۔ یہ ایک سراسر جداگانہ طرزِ تقریر تھا جو جذبات کے بجائے دماغ کے اندر اُترتا جا رہا تھا۔ اُنہوں نے اُس تقریر میں چند ایسی باتوں کا اعلان کیا جو انقلاب آفریں تھیں۔ وہ بیس ماہ جیل کاٹ کر آئے تھے لیکن اُن کے لہجے میں تلخی کے بجائے مل جل کر پاکستان کو دو تین سالہ خانہ جنگی کے اثرات سے نکالنے اور مستقبل کی منصوبہ بندی کا جذبہ کارفرما تھا۔ اُنہوں نے اعلان کیا کہ ہم پاکستان کی سرزمین کو مسجد کی طرح محترم سمجھتے ہیں۔ دوسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ ہمارے نزدیک منصب کا طلبگار ہر عہدے کے لئے نااہل ہو گا اور اِنتخابات میں جماعت اپنے امیدوار کھڑے نہیں کرے گی بلکہ حلقے کے ووٹرز اپنے نمائندے نامزد کریں گے۔ اِس نکتے کی وضاحت بھی کی کہ 23مارچ 1940کی آل انڈیا مسلم لیگ کی قرارداد کے بعد اُنہوں نے اُسی کو اپنا نصب العین قرار دے دیا تھا۔ دراصل مولانا ایک یکسر مختلف اور باوقار اندازِ سیاست کے موجد تھے۔

ایک دینی جماعت ہونے کی حیثیت سے عوام جماعتِ اسلامی کا رشتہ مذہبی جماعتوں سے جوڑ رہے تھے جن میں وہی شخص سب سے زیادہ متقی ہوتا ہے جس کے بال الجھے ہوئے ہوں اور داڑھی بےترتیبی سے بڑھی ہوئی ہو اور اُس کا لباس میلا کچیلا ہو۔ سید مودودی نے اِس غلط تصور کے برخلاف متقی کے لئے ایک دین دار شخص کا اچھا نمونہ پیش کیا۔ عملی طور پر اِنقلابی تبدیلی پیدا کی۔ خود بھی وضع قطع سے ایک معزز شخص نظر آتے تھے اور اُن کے ہاں غیرمعمولی نفاست، صفائی ستھرائی اور نظم و ضبط کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ اِسی طرح جماعتِ اسلامی کے تمام ارکان سلیقے اور شائستگی کے پیکر دکھائی دیتے تھے۔

اُن کا دوسرا عظیم کارنامہ ایک ایک پیسے کا حساب رکھنا اور وسائل جمع کرنے کا ایک قابلِ اعتماد اور باوقار نظم قائم کرنا تھا۔ اُن سے پہلے عام طور پر سیاسی اور مذہبی جماعتیں بڑے بڑے جلسے کرتیں جن میں دھواں دھار تقریریں ہوتیں اور اُس کے بعد چندے کی اپیل کی جاتی۔ جمع ہونے والی رقوم کا عوام کو پتہ چلتا نہ اُن کا کوئی حساب کتاب رکھا جاتا۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی نے قائدِاعظم کی مثال سامنے رکھتے ہوئے اِس امر کا بطورِ خاص اہتمام کیا کہ وہ جماعت پر مالی بوجھ نہیں بنیں گے نہ اپنے کارکنوں کو مسکینوں کی سی زندگی بسر کرنے کے لئے چھوڑ دیں گے۔ اُنہوں نے مالی اعانت کا باقاعدہ اہتمام کیا کہ جماعت کے کارکن اور منتظمین اپنی حیثیت کے مطابق اعانت دیں گے اور اُنہیں اُس کی باقاعدہ رسید دی جائے گی۔ قائدِاعظم دو آنے کی رقم وصول کر کے رسید پر اپنے دستخط ثبت فرماتے تھے۔ جماعتِ اسلامی نے غریبوں کی صحت کا خیال رکھتے ہوئے شہروں اور قصبوں میں شفاخانے کھول دیے تھے اور محلوں میں لائبریریاں قائم کر دی تھیں۔ ذہن سازی کے لئے تعلیمی اداروں کا ایک سلسلہ چل نکلا تھا جن میں اسلامی جمعیت طلبہ کی داغ بیل ڈال دی گئی جس کا اوّلین مقصد طلبہ کی ذہنی اور اخلاقی صلاحیتوں کو جِلا دینا تھا۔ اُس کے ساتھ وہ طلبہ بھی وابستہ ہوئے تھے جنہوں نے آگے چل کر پاکستان کی مضبوطی اور تعمیر میں کلیدی کردار ادا کیا۔ جمعیت سے گہرا تعلق رکھنے والے ایک اساطیری کردار کا ذکر ہم اگلی نشست میں کریں گے جو زندہ جاوید ہیں اور جن کی یادوں کا سلسلہ ماہ و سال پر محیط ہوتا جائے گا، کیونکہ وہ محض ایٹمی سائنس دان ہی نہیں تھے، ہماری نظریاتی سرحدوں کے محاذ پر بھی بڑے سرگرم تھے۔