مُعاشرے کی اصلاح اور کردار سازی میں سیرتِ طیبہ سے راہ نُمائی کی ضرورت و اہمیت

October 19, 2021

سراج الحق

( امیر جماعت اسلامی، پاکستان )

ہر معاشرے کی کچھ بنیادیں ہوتی ہیں ،ہمارے معاشرے کی بنیاد حسنِ اخلاق پرہے ۔ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے کسی نے آپ ﷺ کے حسنِ اخلاق کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے پوچھا کہ کیا آپ نے قرآن نہیں پڑھا ۔آپ ﷺ کا اخلاق ہی قرآن ہے ۔خود نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن اعمال تولے جائیں گے تو میزان کے پلڑ ے میں سب سے وزنی چیز اچھے اخلاق ہوں گے، لیکن جب ہم اپنے معاشرے میں پھیلی بیماریوں کی جڑ تک پہنچتے ہیں تو اس میں عام لوگوں کی بجائے بڑوں کا کردار نظر آتا ہے ۔عدم برداشت کے رویے ،دلیل کے بجائے گالم گلوچ ،الزام کے بدلے بہتان اور جھوٹ کے مقابلے میں بڑا جھوٹ کینسر کی طرح سوسائٹی میں سرایت کر گیا ہے ۔تلواروں سے لوگوں کے سروں پر تو حکمرانی کی جاسکتی ،دلوں کو فتح کرنے اور دلوں پر حکمرانی صرف اخلاق سے ہی ممکن ہے ۔

عوام عموماً اپنے حکمرانوں کاطرز عمل اپناتے ہیں ،اپنے حکمرانوں کے نقش قدم پر چلتے ہیں۔ حافظ ابن کثیرؒ لکھتے ہیں کہ اموی خلیفہ ولید کو تعمیرات کا شوق تھا توعام لوگوں میں تعمیرات کا شوق پیدا ہوا ،اس دور میں شاندار محلات اور پُرشکوہ عمارتیں ہر طرف نظر آنے لگیں۔ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو عبادت و ریاضت کا شوق تھا تو لوگوں میں وہی جذبہ بیدار اور پیدا ہوا۔معاشرے کی مثال مچھلی کی طرح ہے جو دم کی طرف سے نہیں ،بلکہ سر کی طرف سے خراب ہوتی ہے ۔ہمارے معاشرے میں اخلاقی زوال کے جو افسانے اور قصے کہانیاں سنائی دیتی ہیں،وہ ہر لحاظ سے شرمناک اور قابل افسوس ہیں۔ہمارامعاشرہ اس وقت اخلاقی زوال کے ساتھ ساتھ معاشی بدحالی کا سامنا کررہا ہے

نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے نو باتوں کا حکم دیا ہے ۔خفیہ اور اعلانیہ اللہ کا خوف ،غصے اور خوشی میں انصاف کی بات کرنا ،تنگی اور خوشحالی میں انصا ف کے ساتھ خرچ کرنا ،جو مجھ سے کٹے ، اس کے ساتھ جڑنا ،جو مجھے محروم کرے میں اسے عطا کروں ،جو مجھ پر ظلم کرے، میں اس کو معاف کروں ،میری خاموشی فکر کی خاموشی ہو ،جب بات کروں تو اس میں اللہ کا ذکر ہو ،نیکی کا حکم کروں اور برائی سے روکوں۔آپ ﷺکے اس ایک فرمان پر عمل کرلیا جائے تو معاشرے کو جنت نظیر بنایا جاسکتا ہے ۔

حضور ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ تم میں سب سے بہترین وہ شخص ہے جس کا اخلاق سب سے بہترین ہو۔آپ ﷺ نے تین بار زور دے کرصحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین سے پوچھا ’’کیا میں تمہیں اس شخص کے متعلق نہ بتائوں جو مجھے سب سے زیادہ عزیزہے اور قیامت میں میرے سب سے زیادہ قریب ہوگا۔‘‘صحابۂ کرامؓ نے عرض کیا کہ ضرور بتائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا ’’جس کا اخلاق سب سے اچھا ہوگا۔‘‘اچھا اخلاق بہت سی نفلی عبادتوں سے بہتر ہے۔

جب ہم آج کی سوسائٹی کو دیکھتے ہیں تو سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔پارلیمنٹ کے اندر سنجیدہ موضوعات پر غور وفکر اور بات چیت کی بجائے گالم گلوچ ہوتی ہے اور ٹی وی چینلز پر ایسے ایسے الفاظ استعمال ہوتے ہیں کہ الامان الحفیظ ۔اب یہی کچھ ایوانوں سے گھروں میں منتقل ہونے سے سوسائٹی میں بھی وہی لب ولہجہ فروغ پارہا ہے ۔ہماری سیاسی اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا ہے ۔الیکشن میں دھاندلی ،خرید و فروخت اورجھوٹے وعدے بھی سیاسی بداخلاقیاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر الیکشن کے بعد چاروں طرف سے نئی حکومت پر عدم اعتماد کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ۔ ہمارا نظام تعلیم بھی بری طرح ناکام ہوچکا ہے ۔

طلبہ محنت بھی کرتے ہیں ،مگر نتائج پربری طرح عدم اعتمادکرتے ہیں ،کیونکہ پرچے آئوٹ اور ہال فروخت ہوجاتے ہیں، غریب طلبہ محنت کرتے ہیں مگر پوزیشنز محکمہ تعلیم کے بڑوں اور اشرافیہ کے بچے لے اڑتے ہیں۔ دو نہیں ایک پاکستان کی بات تو بہت سنتے تھے لیکن عدالتوں میں امیر اور غریب کے ساتھ یکساں سلوک نہیں ہوتا۔وی آئی پی جیل جانے کے فوراً بعد ہسپتال منتقل ہوجاتا ہے ،وہاں وہ وہاں بیٹھ کراپنا کاروبار کرتے اور الیکشن مہم چلاتے ہیں۔شریعت میں عدالت کے قاضی کے منصب کا تقاضا ہے کہ کسی کا الٹ نام لینے سے بھی احتیاط برتی جائے ۔حضرت علی ؓ کو قاضی نے احتراماً ابو تراب کہہ کر مخاطب کیا تو حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ یہ بھی انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے ۔

معاشی اخلاقیات یہ ہیں کہ ملاوٹ نہ ہو۔ کیا آج ہمارے بازاروں میں کوئی چیز خالص ملتی ہے ؟۔دودھ ،اشیائے خورونوش حتیٰ کہ ادویات تک میں ملاوٹ ہے۔ ان میں وہ ادویات بھی شامل ہیں جو انتہائی ایمرجنسی کے وقت استعمال کی جاتی ہیں ۔بلڈپریشر اور ہارٹ اٹیک کے وقت دی جانے والی ادویات تک میں ملاوٹ ہے،جو مریض کی جان لینے کے مترادف ہے ۔ملاوٹوں کی وجہ سے بیماریوں میں سو گنا اضافہ ہوچکا ہے بلکہ بہت سے امراض تو خوراک اور ادویات میں ملاوٹ کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ ناپ تول میں کمی ایک بڑا مسئلہ ہے ۔سورۂ رحمن میں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے ’’ انصاف کے ساتھ تولو اور ڈنڈی نہ مارو‘‘،لیکن آج صورتحال یہ ہے کہ مارکیٹ سے ٹماٹر کا ایک کریٹ لیا جائے تو اوپر کے چند دانوں کے سوا سارا کریٹ گلے سڑے ٹماٹروں اور بھوسے سے بھرا ہوتا ہے ۔

ملائشیا اور انڈو نیشیا سمیت دنیا کے بہت سے ممالک اورخطوں میں اسلام کسی جنگ کی وجہ سے نہیں ،بلکہ تاجروں کی امانت و دیانت کی وجہ سے پھیلا ہے ۔ اسلام کی دعوت اور پیغام کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے میں مسلمان تاجروں کا بنیادی کردا ر ہے ۔ہر جگہ مسلمانوں کے اخلاق و کردار اور تہذیب و وقارنے ظلم و جبر اور کفر و شرک کے اندھیروں میں ڈوبی انسانیت کو روشنی دی اور جینے کا ڈھنگ سکھایا ۔دنیا حیرت زدہ تھی کہ یہ کیسے (مسلمان) تاجر ہیں جو اپنے نفع ونقصان سے زیادہ دوسروں کے فائدے اور بھلائی کو ترجیح دیتے ہیں اور ان کے دلوں میں ہر معاملے میں اللہ کے سامنے جواب دہی کااحساس رہتا ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہوں ‘‘ قوم کے سنجیدہ طبقے کو سب سے پہلے خود اپنی مثال پیش کرنی چاہئے اوردوسروں کےلیے نمونہ بننا چاہئے ۔ قوموں کے اجتماعی اخلاق و کردار کی بلندی ،امانت و دیانت اور حق و صداقت پرثابت قدمی انہیں دوسروں سے ممتاز بناتی اور عروج پر لے جاتی ہے جبکہ اخلاقی پستی ،بدیانتی اور ظلم وجور کا رویہ قوموں کوذلت کی موت مار دیتا ہے ۔

ہمارے حکمرانوں، ذرائع ابلاغ اور سیاسی قیادت کو اخلاقیات کادرس لیناچاہئے، تاکہ ہماری آنے والی نسلیں اسلام کے اعلیٰ اخلاقی اصولوں کے مطابق اپنی زندگی گزار سکیں ۔اگر ہم اسلام کی عطا کردہ سیاسی و معاشی اخلاقیات اپناتے ہیں تو دنیا ہماری قیاد ت تسلیم کرنے میں دیر نہیں لگائے گی ۔

للہ تعالیٰ نے فرمایا: ’ ـ’ تمہارے لئے رسول اللہ ﷺ کی ذات بہترین نمونہ ہے ‘‘نبی مہربان حضرت محمد ﷺ کی سیرت طیبہ کا ہمارے اور قیامت تک کےلیے آنے والوں کے لیے ایک ہی پیغام ہے کہ ان کے ایک ایک حکم ،ان کی ایک ایک سنت پر عمل کیا جائے اور انسانیت کی بھلائی اور خلق خدا کی خدمت کےلیے کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کیا جائے ۔اگر آج امت اپنے پیارے پیغمبر ﷺ کی سیرت پر عمل پیرا ہوجائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم دنیا کی قیادت کے منصب کو دوبارہ حاصل نہ کرسکیں۔