میری دنیا کے ’’امیروں‘‘ کو جگا دو!

October 17, 2021

اقبال نے کہا تھا:

اُٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو

مگر غریب چونکہ کروڑوں میں ہیں اور اُنہیں اٹھنے کے قابل ہی نہیں چھوڑا گیا، جبکہ ارب پتی لاکھوں اور کھرب پتی ہزاروں میں ہیں، چنانچہ میں امیروں سے مخاطب ہوں کہ ان میں سے کچھ خوفِ خدا کرتے ہوئے غریبوں کی حالت سنوارنے کیلئے اٹھ کھڑے ہوں تو ٹھیک ہے ورنہ کمیونزم نے مغرب کے سرمایہ داروں کی سوچ بدل کر رکھ دی کہ اگر تم نے غریبوں کو زندگی گزارنے کی چند سہولتیں بھی مہیا نہ کیں تو پھر تم سے سب کچھ چھن جائے گا اور یوں تمہیں بھی اُنہی کے کھوکھے کے ساتھ چائے کا کھوکھا لگانا پڑے گا۔ اگرچہ سکینڈے نیوین اور چند دوسرے مغربی ممالک کو یہ بات سمجھ میں آ گئی مگر امریکہ کا سرمایہ دار آج بھی پرانی ڈگر پر چل رہا ہے!

بات یہ ہے کہ غربت اب انسانوں کی ہڈیوں تک میں داخل ہو گئی ہے۔ فقیروں کو چھوڑیں، وہ تو اِن دنوں لاکھوں کی تعداد میں ہو گئے ہیں اور اُن میں سے بہت سے گریڈ 20کے افسروں کی تنخواہ کے برابر ہر ماہ وصولی کر ہی لیتے ہیں، معاملہ سفید پوشوں کا ہے، وہ اپنا حال کسی کو بھی کیا بتائیں گے، وہ تو گھر سے نکلتے وقت مونچھوں پر ہلکی سی چھاچھ لگا لیتے ہیں، کوئی پوچھے یہ کیا لگا ہے تو کہیں گے یار ناشتہ میں دودھ، دہی، مکھن شامل تھا، بس کچھ مکھن ہی لگا ہو گا جبکہ یہ طبقہ تین وقت روٹی کھانے کی پوزیشن میں ہی نہیں ہے۔ ان کے سروں پر چھت ہی نہیں ہے، ان کے بچے اسکول نہیں جا سکتے۔ ہر ماہ اتنے بل آتے ہیں کہ بلبلا اٹھتے ہیں۔ پہلے غریب دال روٹی یا سبزی کھا کر گزارہ کر لیتے تھے مگر اب اُن کی قیمتیں بھی آسمان کو چھو رہی ہیں۔ مکان کا کرایہ کم سے کم سات سے آٹھ ہزار روپے ہے۔ دال روٹی بھی کھائیں تو وہ بھی ہزاروں میں پڑتی ہے۔ بلوں کی ادائیگی بھی ہزاروں سے کم نہیں۔ گھر میں اللہ کی رحمت یعنی مہمان آ جائیں تو رو دھو کر انہیں یہ زحمت بھی اٹھانا پڑتی ہے۔ اگر بیمار ہو جائیں تو مرنے کی دعا مانگتے ہیں کہ ادویات کی قیمتیں اب لوئر مڈل کلاس کی پہنچ سے ہی دور ہو گئی ہیں۔ لوگ مرنے کی آرزو کرتے ہیں لیکن اب تو مرنا بھی بہت مہنگا ہے۔ بچیوں کی شادی کرنا ہو تو انہیں صرف آنسوئوں کے جہیز کے ساتھ رخصت کرنا پڑتا ہے، ان میں سے جو ’’کم حوصلہ‘‘ ہیں، ان سے جب یہ سب کچھ دیکھا نہیں جاتا تو وہ چوری چکاری سے شروع ہوتے ہیں اور ڈاکوں پر جا کر ختم ہوتے ہیں یعنی کبھی نہ کبھی پولیس مقابلے میں بھی مارے جاتے ہیں!

میں نے غربت کی جو تصویر کشی کی ہے وہ اصل سے بہت کم ہے۔ میں نے ان بچوں کا تو ذکر ہی نہیں کیا جو گھر سے بھوکے نکلتے ہیں تو کوڑے کرکٹ میں سے اپنی خوراک تلاش کرتے ہیں، جن کے جسموں پر کپڑے نہیں چیتھڑے ہوتے ہیں، جو گونا گوں بیماریوں کا گھر بنے ہوتے ہیں، میں نے اس طبقے کا ذکر ہی نہیں کیا جن کی بچیاں عفت مآب بنیں مگر حالات نے انہیں عفت مآب نہیں رہنے دیا۔ غربت کی یہ لکیر بہت لمبی اور کسی بھی حساس انسان کی چیخیں نکلوا دینے والی ہے مگر اس کے بعد کا نقشہ اس سے کہیں زیادہ ہولناک ہے، جب افلاک سے بھی ان کی فریاد کا جواب نہیں آتا تو تاریخ کی کتابوں میں وہ دن بھی درج ہے جب تاج اچھالے جاتے ہیں، جب تخت گرائے جاتے ہیں، جب بھوکھے ننگے عوام محلات کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے ہیں، جب فارم ہاؤسز کے باغ باغیچے جلا کر راکھ کر دیے جاتے ہیں، جب عالی شان کوٹھیوں میں یہ لوگ گھس جاتے ہیں اور وہ سب کچھ لوٹ کر چلے جاتے ہیں جو یہ طبقہ اپنی دولت کے بل بوتے پر ان کی بیٹیوں اور بہنوں سے چھین لیا کرتا تھا، جب چوباروں پر بادشاہوں کو پھانسیاں دی جاتی ہیں، یہ جرائم پیشہ لوگ ہی میدان میں آتے ہیں اور پورے چمن کو اجاڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ بہت ہولناک مناظر ہیں، جو آنے والے دور کی عریاں تصویریں دکھا رہے ہیں، اور آخر میں صرف یہ کہ حکمرانو، حاکمو، دانشورو، ادیبو، شاعرو ’’بسم اللہ‘‘ کے گنبد سے نکلو اور اس تصویر میں رنگ بھرنے کا انتظار نہ کرو، جو بہت ہولناک ہے۔ میرے دیس کے امیرو اگر اپنی جان اور مال بچانا ہے تو اس ٹریجڈی سے پہلے تم سنبھل جائو، انسان کے بچے بن جائو!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)