وہ لاہور کہیں کھو گیا

October 17, 2021

(گزشتہ سے پیوستہ)

والٹن روڈ پر قائد اعظمؒ کی سرکاری ہٹ نما رہائش گاہ تھی جو 2011ءتک قائم رہی۔ پھر اس کو گرا دیا گیا۔ کیوں گرا دیا گیا اور کون لوگ تھے؟نام آئے گا تمہارا۔ یہ کہانی پھرسہی ۔ہوائی جہاز باقاعدہ ٹیکسنگ کرتے ہوئے قائد اعظم محمد جناحؒ کی اس سرکاری ہٹ نما رہائش گاہ تک آتا تھا۔ جن لوگوں نے قائد اعظمؒ کی اس سرکاری رہائش گاہ کو دیکھا ہے، ایک دن آئے گا کہ وہ اس دنیا میںنہیں ہوں گے ، پھر کوئی بتانے والا بھی نہیں رہے گا کہ کبھی یہاں قائد اعظمؒ آئے تھے؟ یہ وہ تاریخی ایئر پورٹ ہے جہاں بانی پاکستان قیام پاکستان کے بعد پہلی مرتبہ تشریف لائےتھے۔ انہوں نے مہاجرین سے خطاب کیا تھا ۔اس تاریخی ایئر پورٹ کو محفوظ کرنے کے علاوہ میوزیم بھی بنا نا چاہئے تھا۔ اس تاریخی ایئرپورٹ سے ہی برصغیر کی پہلی خاتون پائلٹ سرلا ٹھکرال نےپہلی اڑان بھری تھی اور ایک ہزار گھنٹہ جہاز چلا کر 1936میں برصغیر کی پہلی خاتون پائلٹ ہونے کا لائسنس حاصل کیا تھا ۔اس نے صرف 21 برس کی عمر میں کمرشل پائلٹ کالائسنس حاصل کرلیا تھا ۔ اس کی 16 برس کی عمر میں شادی ہوئی تھی ۔اس کے خاندان میں 9لوگ پائلٹ تھے۔ وہ پائلٹ کا لائسنس حاصل کرنے والی برصغیر کی پہلی خاتون تھی۔ سرلا ٹھکرال کو ہوا بازی کی تربیت ان کے خاوند بی ڈی شرما نے دی تھی۔ یہیں برصغیر کا پہلا فلائنگ کلب، لاہور فلائنگ کلب قائم ہواتھا۔اس ایئرپورٹ سے پہلی مرتبہ ہوائی ڈاک شروع ہوئی تھی ۔ یہ ہوائی ڈاک پی ڈی شرما لے جایا کرتے تھے جو ایک ہوائی حادثے میں 1939میں وفات پا گئےجو سرلا ٹھکرال کے خاوند تھے ۔ خاوند کی وفات کے بعد سرلا نے ہوائی ڈاک کی ذمہ داریاں سنبھالی تھیں۔ اس طرح اس تاریخی ایئرپورٹ سے برصغیر میں ہوائی جہاز کے ذریعے ڈاک تقسیم کرنے والی وہ پہلی خاتون پائلٹ تھیں۔ اس ایئر پورٹ پر ایک چینی پائلٹ بھی تھا وہ چند برس قبل اپنے بچوں کو لے کر یہاں آیا تھا۔ اس تاریخی ایئرپورٹ کے ساتھ تو یادوں کا ایک سمندر ہے۔ پچھلے دنوں 1967کے بعد جب ہم یہاں آئے تو یقین کریں اس قدر افسوس ہوا کہ بیان سےباہر ہے۔ ہر تاریخی عمارت اور جگہ کی نیلامی کردو۔ ارے بابا! شاہی قلعہ بھی گرا دو، شالامار باغ بھی ختم کردو، مقبرہ جہانگیر، مقبرہ نور جہاں اور مقبرہ آصف جاہ کی کیا ضرورت ہے؟ اس شہر میں میاں میرؒ چھائونی (لاہور کینٹ) میں ناگی روڈ(کیپٹن جرجیس ناگی ہمارے چچا اور 1965کی جنگ ستمبر کے آخری شہید) اس سڑک کا پرانا نام اولڈ ڈائگونل روڈہے، یہاں بھی قائد اعظمؒ کی بھی ایک اور رہائش گاہ ہے جو اب کور کمانڈر ہائوس (جناح ہائوس) ہے۔ بہت ہی وسیع کوٹھی ہے جس میں لاہور کے کور کمانڈر کی رہائش ہے جبکہ دیوار پر قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی مختلف تصاویر فریم کرکے بکس میں رکھی ہوئی ہیں جن میں رات کو بلب سے روشنی کی جاتی ہے۔ والٹن ائیر پورٹ جو کہ 1918میں قائم ہوا تھا، صرف ایک برس بعد اس تاریخی ایئرپورٹ کا نام و نشان بھی مٹ جائے گا۔ پھر کسی نسل کو بھی یہ یاد نہیں رہے گا کہ یہاں کبھی برصغیر اور پاکستان کا پہلا ایئرپورٹ تھا۔ یہاں وہ قافلے آئے تھے جنہوں نے پاکستان کی خاطر قربانیاں دیں اور اپنے رشتہ داروں کو شہید کروایا تھا۔ یہ وہ تاریخی ایئرپورٹ ہےجس کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں قائد اعظمؒ گیارہ مرتبہ آئے تھے۔ آنے والے چند برسوں میں یہاں پر کئی کئی منزلہ پلازے بن چکے ہوں گے۔ یہ وہ لاہور نہیں جس کو ہم نے بچپن میں دیکھا اور ہمارے بڑوں نے اس لاہور کے پوری طرح مزے لوٹے۔ اس ایئر پورٹ سے 1934 میں لاہور سے پہلی مرتبہ ہوائی جہاز کراچی گیا تھا۔ لاہور، کراچی سروس شروع ہوئی تھی۔ پھر یہیں سے 1938 میں پہلی مرتبہ ہوائی جہاز دہلی گیا تھا۔ والٹن ایئر پورٹ کو جنوبی ایشیا کے پہلے فلائنگ کلب کی حیثیت حاصل ہے۔ یہیں سے1949 میں پہلی حج پرواز گئی تھی ۔برصغیر کے قدیم ترین اور پاکستان کے اس تاریخی اور پہلے ایئر پورٹ کی ایک ایک چیز محفوظ کرنے کی ضرورت ہے۔

اب تو اس تاریخی ایئرپورٹ کے ارد گرد سینکڑوں درخت کاٹے جا رہے ہیں۔ اس ایئر پورٹ سے دوسری جنگ عظیم، 1965کی جنگ اور 1971کی جنگ میں ہوائی جہاز اڑان بھرتےرہے۔اس علاقے کو بھاٹر گائوں بھی کہتے ہیں۔ یہ ہوائی اڈہ کبھی 158؍ ایکڑ رقبے پر تھا۔ اس ایئر فیلڈ پر ہوابازی کا آغاز 1920ء میں ہوا اور یہاں کبھی ناردن انڈین فلائنگ کا آفس بھی تھا۔ یہاں سے ہوائی جہاز تفریح اور ڈاک کےلئے بھی اڑان بھرتے رہے۔ برصغیر کا پہلا ایئر شو بھی اسی ایئر پورٹ پر ہوا تھا۔ہمیں ایک مرتبہ سید احمد کرمانی مرحوم نے لاہور میں شیرانوالہ دروازے میں وہ مقام دکھایا جہاں قائداعظم آئے تھے، انہوں نے ہمیں لاہور کی بعض ایسی جگہیں بھی دکھائیںجہاں قائداعظم آئے اور لوگوں سے ملے تھے۔ شیرانوالہ تاریخی دروازہ ہے جہاں کبھی لاہور کے نامور خطیب مولانا احمد علی کی مسجد بھی تھی۔روزنامہ جنگ لاہور کے آفس ڈیوس روڈ کے قریب حبیب اللہ روڈ پر ممدوٹ ولا میں بھی کئی بار قائد اعظم تشریف لائے اوراسی طرح دولتانہ ہاوس میں بھی قائد اعظم کئی دفعہ آئے، آج اس کا کہیں نام و نشان نہیں ہے۔

(جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)