نئی معاشی حکمت ِعملی ضروری

October 18, 2021

سخت شرائط ماننے کے باوجود آئی ایم ایف سے گزشتہ روز تک سمجھوتہ نہ ہوپانا موجودہ حکومت اور اس کے معاشی حکمت کاروں کے لئے یقینا ایک سنجیدہ لمحہ فکریہ ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ کی حیثیت سے جناب شوکت ترین نے اگرچہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے بات چیت کیلئے واشنگٹن روانہ ہونے سے پہلے بھی اور مذاکرات کے دوران میں بھی سمجھوتے کے حوالے سے بڑی خوش امیدی کا اظہار کیا تھا لیکن اب تک کی پیش رفت سے اس کی توثیق نہیں ہوسکی ہے۔ دوسری طرف کیفیت یہ ہے کہ شوکت ترین پارلیمان کی رکنیت کے بغیر چھ ماہ تک وزیر خزانہ رہنے کے بعد آئین کی رو سے اب اس منصب سے سبکدوش ہوچکے ہیں اور وزیر اعظم کی معاشی ٹیم اب کسی باقاعدہ سربراہ سے بھی محروم ہے جبکہ آئی ایم ایف کی جو شرائط مان کر روبعمل لائی جاچکی ہیں ان کے نتیجے میں ملک میں مہنگائی کا ایک نیا سونامی برپا ہوگیا ہے۔بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں حالیہ بھاری اضافوں سے تمام اشیاء کی قیمتیں کم از کم اسی نسبت سے لازماً بڑھیں گی بلکہ یہ عمل شروع ہوبھی چکا ہے۔ ملک کے معروف ماہر اقتصادیات اور سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ اے پاشا کا کہنا ہے کہ بجلی، پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی کے دبائو میں 3فیصد پوائنٹس اضافہ ہوگا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مہنگائی کا نیا سیلاب کروڑوں پاکستانیوں کے معیار زندگی میں شدید تنزل کا سبب بنے گا اور محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً ان کے لیے علاج معالجہ اور تعلیم تو درکنار اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی مہیا کرنا بھی ممکن نہیں رہے گا۔ ان سخت شرائط کے نفاذ کے بعد بھی معاہدہ ہونے میں ناکامی کا مطلب یہ ہے کہ سمجھوتے کو ممکن بنانے کیلئے مزید کڑی شرائط تسلیم کرنا ہوں گی جیسا کہ بتایا گیا ہے کہ پاکستان کی جانب سے بجلی ٹیرف میں 1.39 روپے فی یونٹ، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 10.49 سے 12.44روپے تک اضافہ کرنے کے باوجود آئی ایم ایف اسٹاف اب بھی میکرو اکنامک فریم ورک سے مطمئن نہیں ۔ منظر عام پر آنے والی اطلاعات کے مطابق آئی ایم ایف اور پاکستان میں اقتصادی اور مالیاتی پالیسیوں کی یادداشت پر مفاہمت میں ناکامی کی وجہ سے چھ ارب ڈالر کی توسیعی فنڈ سہولت کے تحت اسٹاف کی سطح پر اگرچہ معاہدہ نہیں ہوسکا ہے لیکن حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ سیکرٹری خزانہ آئندہ چند روز تک واشنگٹن میں قیام کریں گے تاکہ مفاہمت اور مالیاتی یادداشت پر اتفاق رائے کے لیے آخری کوشش کرسکیںاور توسیعی فنڈ سہولت پروگرام کے تحت ایک ارب ڈالر منظوری کی راہ ہموار ہوسکے۔ معاہدہ مزید سخت شرائط تسلیم کرکے ہوا تو قومی معیشت اور عام آدمی کی بدحالی کہاں تک پہنچنے گی، اس کا اندازہ شرائط سامنے آنے سے پہلے نہیں لگایا جاسکتا لیکن اگر مزید شرائط کے بغیر معاہدہ ہوگیا تب بھی جن شرائط کو نافذ کیا جاچکا ہے ان ہی کے نتائج عام آدمی کو زندہ درگور کرنے کے لیے کافی ہوں گے۔ ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق بجلی، پٹرول اور ڈیزل کے نرخوں میں تازہ اضافوںسے روز مرہ ضرورت کی اشیاء کی قیمتیں 9 فیصد سے 12فیصدتک بڑھ جائیںگی، جس سے تنخواہ دار اور کم آمدنی والے طبقات کی زندگی مزید مشکل ہوجائے گی۔ ذرائع کا یہ انتباہ نہایت قابل توجہ ہے کہ مفاہمت کے لیے غیرمعمولی طور پر محتاط مہارت کی ضرورت ہے کیونکہ غلط یا ناقابل عمل اعدادوشمار کے نتیجے میں آئی ایم ایف پروگرام معطل ہوسکتا ہے۔آئی ایم ایف کی محتاجی فی الواقع ایسی مشکل ہے جس سے جلد از جلد نجات حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش قومی مفاد کا ناگزیر تقاضا ہے۔ اس کے لیے غیرروایتی معاشی حکمت عملی کا اختیار کیا جانا ضروری ہے۔ قوم کی اجتماعی دانش سے استفادہ کیا جائے تو صورت حال کا قابل عمل حل تلاش کرلیا جانا عین ممکن ہے لہٰذا حکومت کو اس سمت میں کسی مزید تاخیر کے بغیرپیش رفت کرنی چاہئے۔