آرتھرائٹس: جوڑوں کے درد اور سوزش کا عارضہ

October 24, 2021

آرتھرائٹس، جوڑوں کے درد، سوزش اور سختی(Stiffness) کا عارضہ ہے جو عُمر کے ساتھ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ یوں تو اس مرض کی کئی اقسام ہیں،لیکن ذیل میں چند اقسام سے متعلق معلومات درج کی جارہی ہیں۔

٭رہیوماٹائڈ آرتھرائٹس:(Rheumatoid Arthritis)

اس مرض کو Autoimmune Inflammatory Diseases بھی کہا جاتا ہے، کیوں کہ اس میں جسم کا مدافعتی نظام اپنے ہی نارمل خلیوں کے خلاف کام شروع کردیتا ہے، جو جوڑوں کی جھلّی کی سوزش کا سبب بنتا ہے۔یہ بیماری جوڑوں کے علاوہ پھیپھڑوں اور آنکھوں کوبھی متاثر کرسکتی ہے۔ مرض لاحق ہونے میں جنس کی قید ہے، نہ عُمر کی۔ البتہ مَردوں کی نسبت خواتین میںاس کی شرح 2سے3گنا زائدہے۔

رہیوماٹائڈ آرتھرائٹس کے اسباب میں موٹاپا، تمباکو نوشی اور موروثیت وغیرہ شامل ہیں۔ مرض کی ابتدا عموماً ہاتھ یا پاؤں کے جوڑ کی جھلّی متورّم ہونے سے ہوتی ہے۔ بعد ازاں، جسم کے دیگر جوڑ بھی متاثر ہوجاتے ہیں۔نیز، جوڑوں کو مستقل طور پر نقصان بھی پہنچ سکتا ہے۔ بسا اوقات ایک وقت میں ایک سے زائد جوڑ متورّم ہوجاتے ہیں اور درد کی شدّت بڑھ جاتی ہے، خصوصاً صُبح اُٹھنے کے بعد جوڑوں میں زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔

جوڑ سخت اور منجمد محسوس ہوتے ہیں،تاہم 2سے3گھنٹے بعد اس علامت میں بہتری آنے لگتی ہے۔ مرض کی دیگر علامات میں نیند، بھوک اوروزن میں کمی اور تھکاوٹ وغیرہ شامل ہیں۔ عام طور پر تشخیص کے لیےجوڑوں کے معائنے کے بعد ایکس رے اور خون کے مختلف ٹیسٹس تجویز کیے جاتے ہیں۔

اس عارضے کے علاج کا بنیادی مقصد مرض پر قابو پانا، سُوجن کم کرنا اور جوڑوں کو مستقل نقصان سے بچانا ہے، لیکن یہ تب ہی ممکن ہے، جب بروقت تشخیص کے ساتھ درست علاج شروع کیا جائے۔ علاج کے ضمن میں ادویہ تجویز کی جاتی ہیں، اس کے علاوہ مخصوص ورزشیں بھی مفید ثابت ہوتی ہیں۔ چوں کہ علاج کا دورانیہ طویل ہے، اس لیے معالج کی ہدایات پر لازماً عمل کیا جائے۔

٭گاؤٹ آرتھرائٹس (Gout Arthritis):

جسم میں یورک ایسڈ کی مقدار بڑھنے کے نتیجے میں یورک ایسڈ کرسٹلزکی صُورت جوڑوں کے اندر جمع ہونے لگتا ہے۔گاؤٹ آرتھرائٹس کا آغاز پیر کے انگوٹھے کے جوڑ سے ہوتا ہے،جو سُرخ اور متوّرم ہوکر شدید درد کا باعث بنتا ہےکہ ہلکا سا چُھونے پر بھی درد کی شدّت بڑھ جاتی ہے۔ اس مرض کی شرح مَردوں میں زیادہ بُلند ہے۔ مریضوں کو چاہیے کہ تازہ پھلوں اور سبزیوں کا استعمال کریں، پانی زیادہ سے زیادہ پیئں۔ چاول، ڈبل روٹی اور آلو استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں، البتہ مچھلی اور مرغی کا استعمال کم مقدار میں کیا جائے۔علاج کے ضمن میں ادویہ تجویز کی جاتی ہیں،تاکہ درد کی شدّت کم ہو اور خون میں یورک ایسڈ زائد مقدار میں جمع نہ ہوسکے۔

٭آسٹیو آرتھرائٹس(Osteo Arthritis) :

ہڈیوں کے سِرے پر ایک چکنی نرم ملائم سی تہہ کارٹیلیج (Cartilage) کی پائی جاتی ہے،جو دو ہڈیوں کے درمیان کُشن کا کام کرتی ہے اور Shock Absorberہوتی ہے۔ عُمر بڑھنے کے ساتھ جب کارٹیلیج میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہوتا ہے، تو یہ کھردری ہو کر سخت ہوجاتی ہے اور Shock Absorber کا کام نہیں کر پاتی۔رفتہ رفتہ ہڈی کے سرے آپس میں رگڑ کھانے لگتے ہیں اور جوڑوں میں شدید درد ہوتا ہے۔ بعدازاں، دیگر علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ یہ بیماریDegenerative کہلاتی ہے، جو جسم کے کسی بھی جوڑ، خصوصاً گھٹنے ،کولھے اور ہاتھ کےجوڑ کو متاثر کرسکتی ہے ، جب کہ کمر اور گردن کے مہرے بھی لپیٹ میں آسکتے ہیں۔

ویسے توآسٹیو آرتھرائٹس لاحق ہونے کے امکانات40سال کی عُمر کے بعد ہوتے ہیں،لیکن فربہ افراداس سے قبل بھی اس مرض میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔ ان مریضوں میں خاص طور پروزن جھیلنے والے جوڑ مثلاً گھٹنے اور کولھے کے جوڑ جلد اور زیادہ متاثر ہوجاتے ہیں۔ بسا اوقات خاندان میں ایک سے زائد افراد بھی اس مرض کا شکار ہوسکتے ہیں، خیال ہے کہ ایسا جینز کی وجہ سے ہوتا ہے۔ بعض اوقات فریکچرکی وجہ سے بھی کارٹیلیج میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل قبل از وقت شروع ہوجاتا ہے۔

اسی طرح اگر جوڑوں کی ٹی بی یا ہڈیوں کا کوئی عارضہ لاحق ہوجائے، تو بھی 40سال کی عُمرسے قبل آسٹیو آرتھرائٹس لاحق ہونے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ مَردوں کی نسبت خواتین میں اس مرض کی شرح بُلند ہے۔ علامات کا ذکر کریں تویہ مرض رفتہ رفتہ بڑھتا ہے۔ ابتدا میں خاص طور پر گھٹنے سخت اور اکڑے ہوئے محسوس ہوتے ہیں، زیادہ دیر آرام کے بعد چند منٹ چلنا دشوار لگتا ہے، مگر آہستہ آہستہ بہتری آجاتی ہے اور درد کی شدّت بھی پہلے جیسی نہیں رہتی۔ جوں جوں مرض بڑھتا ہے، تو درد کی شدّت اور جوڑ کی سختی بھی بڑھ جاتی ہے۔

چلنا پھرنا، سیڑھیاں چڑھنا اُترنا اور زمین پر اکڑوں بیٹھنا تکلیف دہ امر بن جاتا ہے۔ جوڑ متورّم ہوجاتے ہیں، ان کی حرکت (Joint Movement) بھی کم ہو جاتی ہے،منجمد بھی ہوسکتے ہیں اور مرض اگرشدّت اختیار کرلے، تو ٹانگوں میں ٹیڑھا پَن بھی آجاتا ہے۔تشخیص کے لیے سب سے پہلے مریض کی ہسٹری لی جاتی ہے، جس کے بعد ایکس رے تجویز کیا جاتا ہے۔آسٹیو آرتھرائٹس کے علاج کے تین طریقے مستعمل ہیں، جو مرض کی شدّت کے مطابق اختیار کیے جاتے ہیں۔ ایک طریقۂ علاج Non Pharmacological کہلاتا ہے، جو بغیر ادویہ کے کیا جاتا ہے۔

اس علاج میں سب سے اہم وزن کم کرنا ہے، کیوں کہ جب تک وزن کم نہیں ہوگا، جوڑوں کا درد بار بار ہوگا اور بیماری بھی تیزی سے بڑھتی جائے گی، لہٰذا ایسی ورزشیں تجویز کی جاتی ہیں ، جن سے جوڑوں پر زیادہ دباؤ نہ پڑے۔مثلاً پیدل چلنا اور تیراکی وغیرہ۔جب کہ جوڑوں پر دباؤ پڑنے والی ایکسرسائزز جیسے جاگنگ، جمپنگ ، سیڑھیاں چڑھنے اُترنے اور اکڑوں بیٹھنے سے بھی گریزکی ہدایت کی جاتی ہے، جب کہ جوڑوں کے مسلزمضبوط کرنے کی ورزش فائدہ مند ثابت ہوتی ہے۔ بہتر تو یہی ہے کہ کسی مستند فزیکل تھراپسٹ سے مشورہ کرلیا جائے۔

نیز،چھڑی ، بیساکھی اور واکر وغیرہ کے استعمال سے جوڑ پر پڑنے والے وزن میںکمی کے نتیجے میں بھی درد کم ہوجاتا ہے۔دوسرا طریقۂ علاج ادویہ کا استعمال ہے،جسے طبّی اصطلاح میں Pharmacologic Treatmentکہتے ہیں۔دیکھا گیا ہے کہ اکثر مریض از خود ادویہ کا استعمال شروع کردیتے ہیں، جس سے جوڑوں کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ یاد رکھیے، ایک مستند معالج عُمر، مرض کی شدّت اور ایکس رے رپورٹ کے مطابق ادویہ تجویز کرتا ہے،لہٰذا ازخود ادویہ کے استعمال سے قطعاً گریز کیا جائے ۔

اس کے علاوہ کارٹیلیج کی کارکردگی بہتر رکھنے کے لیے بھی مختلف اقسام کی ادویہ دستیاب ہیں، مگر یہ فائدہ مند ہیں یا نہیں؟ یہ سوال بحث طلب ہےکہ بعض اسٹڈیز کے مطابق یہ فائدہ مند ہیں اور بعض ریسرچرز انہیں Placebo قرار دیتی ہیں، لہٰذا ایک مستند معالج ہی اپنے تجربے کی بنیاد پر بہتر فیصلہ کرسکتا ہے کہ ان ادویہ کا استعمال مریض کے لیے فائدہ مند ہے بھی یا نہیں۔ اس کے علاوہ جوڑوں میں انجیکشنز بھی لگائے جاتے ہیں۔اگر جوڑ وں میں نقص آجائے، پیر ٹیڑھے ہوجائیں یا ادویہ اور انجیکشن دونوں ہی مؤثر ثابت نہ ہوں،تو پھر سرجری کی جاتی ہے۔ (مضمون نگار، معروف ماہرِامراض ہڈی جوڑ ہیں۔ڈاؤ یونی ورسٹی آف ہیلتھ سائنسز/سول اسپتال، کراچی اور اشفاق میموریل اسپتال، گلشنِ اقبال ،کراچی میں فرائض انجام دے رہے ہیں)