• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کوئٹہ سانحے میں زخمیوں کی جان بچانے والی بہادر خاتون ڈاکٹر

Brave Lady Doctor Who Lives In Quetta Tragedy Victims
جویریہ صدیقی...کوئٹہ کے ہولناک سانحے میں 74 سے زائد افراد شہید اور 100 سے زائد زخمی ہوئے تھے لیکن اگر دھماکے کے وقت سول اسپتال کی لیڈی ڈاکٹر بروقت زخمیوں کے پاس آکر امدادی کارروائی نہ کرتی تو شہید افراد کی تعداد اور بڑھ سکتی تھی۔

جس وقت کوئٹہ اسپتال میں دھماکا ہوا، اس وقت ایسوسی ایٹ پروفیسر و کنسلٹنٹ گائنا کالوجسٹ ڈاکٹر شہلا سمیع آپریشن تھیٹر میں آپریشنز کی تیاری کررہی ہے تھیں، انہیں اس دن چار خواتین کے آپریشن کرنے تھے۔

جس وقت اسپتال میں دھماکا ہوا توآپریشن تھیٹر کے تمام شیشے ٹوٹ گئے اورڈاکٹر شہلا نے فوری طور پر شعبہ حادثات کا رخ کیا جہاں ہر طرف افراتفری پھیلی ہوئی تھی اورلوگ اپنی جان بچاکر بھاگ رہے تھے ،صرف ڈاکٹر شہلاہی تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے جائے وقوع کی طرف بڑھیں ۔

ڈاکٹر شہلاجیسے ہی جائے وقوع پر پہنچیں تو ہر طرف باردو کی بو، دھواں،خون اور زخمیوں کی آہ بکا تھی ، ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں تھا لیکن پھر بھی انہوں نے زخمی وکلاء کی ٹائیاں کھول کر ان کے زخموں پر باندھنا شروع کیں اور انہوں نے اردگرد کے لوگوں کو پکارنا شروع کیا ، انہوں نےکچھ وکلاء کی مدد سے زخمیوں کو اسپتال میں منتقل کیا۔

ڈاکٹر شہلا نے بڑی تعداد میں زخمیوں کو دیکھتے ہوئے ایمبولینس کو فون کیا اورصرف تین ایدھی ایمبولینس پہنچیںجس میں ڈاکٹر شہلا نے 20زخمیوں کو سی ایم ایچ منتقل کیا۔

قوم کی خدمتگار بیٹی ڈاکٹر شہلا بلوچستان سے تعلق رکھتی ہیں لیکن وہ پیدا شاہینوں کےشہر سرگودھا میں ہوئیں، والد گروپ کیپٹن ریٹائرڈ ائیر فورس آفیسر اور والدہ مرحومہ ڈاکٹر تھیں ۔

ڈاکٹر شہلا سمیع کہتی ہیں کہ انہوں نے 6سال کی عمر میں والدہ سے جدائی کا صدمہ برداشت کیا، انہوں نے اسی وقت فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ بھی والدہ مرحومہ کی طرح ڈاکٹر بنیں گی اور مریضوں کا علاج مکمل یکسوئی سے کریں گی۔

ڈاکٹر شہلا نے ابتدائی تعلیم ایئر فورس کے تعلیمی اداروں میں حاصل کی اور ڈاکٹری کی تعلیم علامہ اقبال میڈیکل کالج لاہورسے حاصل کی،1997 ء-1998ء کے بیسٹ گریجویٹس میں شامل تھیں اور تین گولڈ میڈل اور تین سلور میڈل حاصل کئےجس کے بعد جناح اسپتال میں گائنی اور میڈیسن میںہائوس جاب کی، کالج آف سرجن اینڈ فزیشن پاکستان سے پوسٹ گریجویشن کا امتحان گائنی میں پاس کیااورکراچی میں ٹریننگ مکمل کی۔

ڈاکٹر شہلا بولان میڈیکل کالج میںگائنی کی بلوچستان کی کم عمر ترین ایسوسی ایٹ پروفیسر بھی ہیں، وہ گزشتہ 15سال سے طب کے شعبے میں خدمات سرانجام دے رہی ہیں، وہ گزشتہ 8سال سے سول اسپتال کوئٹہ میں کام کر رہی ہیں۔

ڈاکٹر شہلا کہتی ہیںکہ دھماکے والے دن وہ معمول کے مطابق آپریشن کی تیاری میں مصروف تھیں، جس وقت دھماکا ہوا تو آپریشن تھیٹر کے تمام شیشے ٹوٹ گئےاور ان کا دل بھی لرز اٹھا کیونکہ آواز بہت خوفناک تھی، وہ کہتی ہیں میں نے فوری طور پر جائے وقوع کا رخ کیا، جہاں ہر طرف آہ و بکا اور فائرنگ کی آوازیں آرہی تھیں۔

وہ کہتی ہیں کہ اپریل 2010ء میں جب سول اسپتال میں ہزارہ کمیونٹی پر حملہ کیا گیا تھا تو اسی طرح انہوں نے اپنے فرائض انجام دیئےتھے لیکن اگست 2016ء کے سانحے میں جب لوگوں کو مدد کے لیے پکارتی رہی تو لوگوں نے مدد کرنے کے بجائے موبائل فون سے ویڈیوز اور تصاویر بنانے کو زیادہ ترجیح دی، جس پر مجھے بہت افسوس ہوا ۔

ڈاکٹر شہلا کہتی ہیں کہ جائے وقوع پر تصاویر بنانے والوں میں سے ہی کسی نے میری تصاویر بھی سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دی،سول اسپتال کوئٹہ میں 45 ڈپارٹمنٹ ہیں اگر ہر شعبے سے ایک ڈاکٹر یا پیرا میڈیکل اسٹاف بھی آجاتا تو 45 افراد مل کر کتنی زندگیاں بچا سکتے تھے،لیکن دھماکے کے بعد دھماکے کے خوف کی وجہ سے لوگ جائے وقوع سے دور رہے ۔

بلوچستان کی اس بہادر بیٹی نے دہشت گردوں کو بھی واضح پیغام دیا کہ وہ جو بھی سازشیں کرلیں قوم کے حوصلے کو توڑ نہیں سکتے، اگر تمام پاکستانیوں اور خاص طور پر ڈاکٹرز میں یہ اوصاف پیدا ہوجائیں توہم اپنے ملک میں تمام برائیوں کو شکست دے سکتے ہیں۔
تازہ ترین