• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پیرزادہ شریف الحسن عثمانی، سکھر

 ’’عالمی یومِ والد‘‘ … یہ وہ دِن ہے، جب مغرب میں واقع اولڈایج ہومز میں عید کا ساسماں ہوتا ہے۔وہیل چیئرزپر بیٹھے، لاٹھی کی مدد سے یابنا لاٹھی کے چلنے والے ، ضعیف العُمری کے باوجود اپنا ہر کام خود انجام دینے والے اولڈ ایج ہومز کےہزاروں بوڑھے باپ، ہر سال بے صبری سے جون کی تیسری اتوار کا انتظار کرتے ہیںکہ اُس دِن اُن کی مصروف اولاد اُن سے ملنے اور پیار کااظہار کرنےجو آتی ہے۔ یہ عقیدت تحفے تحائف، تو کبھی گُل دستوں کی صُورت ظاہر کی جاتی ہے۔ ویسے ایک بات تو ماننی پڑے گی کہ اہلیانِ مغرب اپنے والدین کا خیال بہت رکھتے ہیں۔ چاہےبوڑھے، کم زور، لا چار والدین کے لیے گھر میں جگہ نہ ہو، انہیں اپنے معاملات میں بولنے یا صلاح و مشورہ دینے کا حق نہ دیں، اُن کے ساتھ چند گھڑی بیٹھنا گوارا نہ کریں، لیکن اُن کے لیے اولڈ ایج ہوم ایسا تلاش کرتے ہیں، جو تمام سہولتوں سے آراستہ ہو۔ چاہے وہ پورا سال اپنی اولاد سے ملنے، ان کی ایک جھلک دیکھنے یا ان کی آواز تک سننے کو ترستےر ہیں ،لیکن ماں، باپ کے لیے مخصوص عالمی ایّام پر اُن سے ملاقات کرنا، ان کے لیے تحائف لے جانا نہیں بھولتے۔ وہ تو بھلا ہوگوروں کے آباؤاجداد کا، جنہوں نے دُور اندیشی سے کام لیتے ہوئے والدین کے لیے دو الگ الگ دِن مقرر کر دئیے، ورنہ تو اُن کی نسلیں اپنے مام ، ڈیڈکو اولڈ ایج ہومز میں پھینکنےکے بعد پلٹ کر دیکھتی بھی نہیں۔یقین جانیے کچھ ایسے بچّے بھی ہیں، جوصرف رسم ِ دُنیا نبھانے کے لیے ماں، باپ کے ’’آخری گھر‘‘ کا رُخ کرتے ہیں، سوشل میڈیا پہ سیلفیز اور اسٹیٹس اَپ ڈیٹ کرنے میں پیچھے رہ جانے کا خوف نہ ہو، تو شاید والدین سے ملنے کی زحمت تک گوارا نہ کریں۔بہ ظاہر دِل کش نظر آنے والی مغربی تہذیب کی یہ وہ بدصُورتی ہے، جو اس کے شیداؤںاور ہمارے چند نام نہاد لبرلزکو دکھائی نہیں دیتی اور وہ اس کی مصنوعی چکا چوند کے زیرِ اثر اس معاشرے میں لوگوں کو حاصل حقوق اور آزادی کے گُن گاتے رہتے ہیں۔شاید یہ اسی کا اثر ہے کہ ہمارا مشرقی معاشرہ کہ جس کے گھر آنگن دادا دادی، نانا نانی کے دَم سےروشن ومنوّر،بہت پُر رونق ہوتے تھے، پہلے یہاں سے خاندانی نظام کاخاتمہ ہوا، پھر چند عشروں بعد اولڈ ایج ہومز بننا اور آبا د ہونا شروع ہوگئے۔بہرحال، صد شکرکہ ابھی ہمارے یہاں حالات اتنے سنگین اور ہم اتنےبے حِس نہیں ہوئے کہ ہمارےگھر ویران اور دارالامان یا اولڈ ایج ہومز آباد ہوجائیں۔ الحمدُ للہ! ہم مسلمان ہیں ، والدین کی ناقدری ، اُن کی نافرمانی،ہمارا شعار ہے، نہ ہمارا شیوا۔ بڑھاپے میں انہیں بے یارومددگارچھوڑ دینا ہمارا دستور نہیں کہ روزِ آخرت پر ایمان رکھنے والے کیسے اپنے ہی ہاتھوں اپنی اُخروی زندگی برباد کر سکتے ہیں۔ہمارا دین تو اتنا پیارا ہے کہ اُس میں بوڑھے والدین کے لیے محض ایک دِن مقرّر نہیں کیا گیا، بلکہ اُن کے ساتھ ہر روز بالخصوص بڑھاپے میں بھلائی کا حکم دیا گیا۔انہیں خود سے دُور نہیں ، اپنے پاس، اپنے ساتھ رکھنے کی تلقین کی گئی۔

ایک مرتبہ دربارِ رسالتؐ میں ایک صحابی نے شکایت کی کہ ’’میرا باپ میری ذاتی کمائی کو میری رضامندی کے بغیر خرچ کر دیتا ہے۔ نبیﷺ نے ایک شخص کو بھیجا کہ اس کے باپ کو بلاکر لاؤ۔جب باپ کو معلوم ہوا کہ بیٹے نے بارگاہِ نبویﷺ میں اس کی شکایت کی ہے ، تو سخت رنجیدہ ہوا اور راستے میں غم کے عالم میں دِل ہی دِل میں کچھ اشعارکہے۔ اس سے قبل کہ وہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتا، اللہ تعالیٰ نے جبریلؑ کے ذریعے نبی ﷺ کو اس بات کی خبر کردی ۔ جب و ہ شخص(باپ) دربارِ رسالت ﷺمیں حاضر ہوا، تو آپﷺ نے اسے وہ اشعار سنانے کا حکم دیا ، جو اُس نے راستے میں اپنے دِل میں کہے تھے۔ بوڑھا شخص حیران رہ گیا اور بولا، ’’ بے شک آپ سچّےرسول ہیں اوراللہ بڑی قدرت والا ہے کہ اس نے میرے وہ الفاظ بھی سُن لیے، جو اب تک میری زبان سے ادا بھی نہیں ہوئے ۔‘‘ اُس کے بعد اُس نے وہ اشعار سُنائے۔ اُن عربی اشعار کا اُردو میں مفہوم کچھ یوں ہے۔’’اے میرے بیٹے ! جس دِن تُوپیدا ہوا، مَیں نے اپنے لیے جینا چھوڑ دیا اور اپنی زندگی تیرے نام کردی ۔ تیرے لیے سرد و گرم موسموں کی شدّتوں سے لڑا ، حالات کے فولادی جبڑوں سے رزق نکالا، خود بھوکا رہا، تجھے کھلایا ، تجھے پروان چڑھانے کے لیے اپنی جوانی اور صحت برباد کر ڈالی۔ اپنے جذبات کو روند ڈالا، خواہشات کو کچل دیا،تُو بیمار ہوتا تومیں تیرے مرجانےکے خوف سے ساری ساری رات تیری خبر گیری کرتا ،حالاں کہ خُوب جانتا تھا کہ موت کا ایک دن معیّن ہے ،پھر بھی روتا رہتا۔ تیرے ایک ایک سُکھ کے لیے میں نے جانے کتنے دُکھ جھیلے اور اس حالت میں ایک ،دو دن نہیں جانے کتنے برس کاٹے۔ وقت گزرا ،موسم بیتے تُو جوان اور مَیں بوڑھا ہوتاچلا گیا۔ تُودرخت کے تَنےکی طرح سیدھا کھڑا ہوگیا اور میری کمر کمان کی طرح جھک گئی ،تُو طاقت وَر ہو گیا اور مَیں کم زور ۔ پھر تیرے تیور بدل گئے ،تُو مجھ سے ایسے بات کرتا کہ میرا کلیجہ پھٹ جاتا ، تُو مجھے ایسے مخاطب کرتا ،جیسے مَیں تیرا باپ نہیں، تیرا غلام ہوں۔ مَیں نے پھر بھی اپنے دل کو سمجھالیا، اپنی ساری حقیقت جھٹلادی ۔ مان لیا کہ مَیں تیرا باپ نہیں، تیرا نوکر ہوں، مگر دوست ! نوکر کو بھی لوگ پوچھ لیا کرتے ہیں کہ کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ،اتنا خیال تو لوگ پڑوسی کا بھی کر لیتے ہیں، تُو نوکر سمجھ کر ہی سہی ، پڑوسی سمجھ کر ہی سہی کبھی تو مجھے پوچھ لیتا۔‘‘نبی کریمﷺ نے یہ پُرالم اشعار سُنے تو اتنا روئے کہ آنسوؤں نے ریشِ مبارک بھگو دی ۔ آپ ﷺنے بوڑھے کے بیٹے کو لباس سے پکڑکر جھنجھوڑا اور فرمایا ’’ تُو اپنے باپ پر مقدّمہ کرتا ہے ! چلا جا یہاں سے، تُو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے۔‘‘ اور یوں گویا قیامت تک کے لیے فیصلہ ہوگیا کہ مسلمان فرزند کے لیے اس کا ہر ڈے، فادرز ڈے ہے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک صحابی نے نبی کریمﷺ سے دریافت کیا ’’ ہم اپنے باپ سے کس انداز ولہجے میں بات کریں ؟‘‘ نبی ﷺ نے فرمایا ’’ ایک غلام، جس کا آقا بہت سخت اور ظالم ہو ، غلام سے کوئی بڑی خطا سرزد ہو جائے اور وہ آقا کو اس کی اطلاع دینا چاہے، تو کیسا انداز اور لب و لہجہ اختیار کرے گا ؟ پس اسی طرح اپنے باپ کو مخاطب کیا کرو۔‘‘ سبحان اللہ! یہ ہمارے دین کی خُوب صُورتی اور تعلیمات ہیں کہ جس میں والدین کا رتبہ و مقام اتنا بلند ہے کہ انہیں اُف تک نہیں کہا جا سکتا۔ جس دین میں والدین کی عظمت کا یہ عالم ہو، اُس کے پیروکار اپنے ماں، باپ سے کسی ایک دن نہیں ، بلکہ ہر روز اظہارِ محبّت کرتے ہیں۔ یاد رکھیں! والدین کی نافرمانی انتہائی بدقسمتی کی بات ہے، ایسی اولا دکی ہردُعا قبولیت سے محروم رہتی ہے۔ یہ شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے،تو ہم میں سے کون ایسا ہو گا، جو یہ حقیقت جاننے کے بعد بھی اُن کی ناقدری کرے؟ ان کی نافرمانی کا مرتکب ہو ؟ اور ان کی دل آزاری کا سبب بنے؟

تازہ ترین