• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مصنّف: محمّد بلال غوری

صفحات: 288

قیمت: 800 روپے

ناشر: ساگر پبلشرز، لاہور

روزنامہ جنگ پاکستان کا سب سے قدیم اور کثیر الاشاعت اخبار ہے۔اس کے قارئین کی تعداد لاکھوں میں ہے۔اس میں شایع ہونے والی خبریں اور کالمز بہت ذوق و شوق سے پڑھے جاتے ہیں۔کالمز کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ اب ’’کالم نگاری ‘‘صحافت میں ایک مروّجہ اصطلاح بن چُکی ہے۔ یوں تو ہر اخبار ہی میں روزانہ کئی کالم پڑھنے کو ملتے ہیں، مگرحقیقت یہ ہے کہ ایسے کالم نگاروں کی تعداد انگلیوں پر گِنی جا سکتی ہے کہ جن کے کالمزقاری پر بھرپور تاثر چھوڑتے ہیں اور قاری اپنے پسندیدہ کالم نگار کے کالم کا باقاعدہ انتظار کرتا ہے۔محمّد بلال غوری روزنامہ جنگ کے کالم نگار ہیں اور وہ بھی ایسے کہ جن کے موضوعات بہت حد تک ’’غیر روایتی‘‘ قرار دیے جا سکتے ہیں۔ یہ بات شاید ہم سب جانتے ہیں کہ ایک روایتی سماج میں غیر روایتی تحریروں کے قلم کار کوبے پناہ مخالفت کا سامنا رہتا ہے۔چاہے وہ ادبی ہو یا صحافتی۔ ایسے تخلیق کار یا قلم کار کی تحریریں ہر آن تنسیخ کی منتظر رہتی ہیں۔یہ مشکلات اپنی جگہ، تاہم لکھاری کے لیے سب سے بڑی طمانیت یہ ہوتی ہے کہ لوگوں کی ایک کثیر تعداد اُس کی پرستار ہے اور غالباً یہی وہ طاقت ہے، جس کی بنیاد پر کوئی بھی قلم کار اپنے مخصوص جادے سے ہٹ کر چلنا پسند نہیں کرتا۔ سماجی اور سیاسی معاملات پر گہری نظر رکھنے والے محمّد بلال غوری آزادیِ اظہارِ رائے کے بہت بڑے پرچارک ہیں۔ اگر وہ اپنی بات کہنے کا ہُنر جانتے ہیں، تو دوسروں کی بات سُننے کا حوصلہ بھی رکھتے ہیں۔سچ کے راستے پر چلنے والے اور اپنی بات ببانگِ دُہل کہنے والے محمّد بلال غوری کے کئی کالم محض اس وجہ سے اخبار کی زینت نہ بن سکے کہ اُن کی بے باکی اور سچائی کا عُنصر ایک روایتی سماج کی برداشت سے باہر تھا۔سو، انہوںنے ایسے تمام کالم جو قطع و برید کے باوجود تنسیخ کی زَد میں آ گئے،’’لاپتا کالم‘‘ کے عنوان سے زیرِ تبصرہ کتاب میں یک جا کر دیے ہیں ۔آج کل کی سیاست اور صحافت پر تحقیق کی جائے تو پتا چلتا ہے کہ لفظ ’’لاپتا‘‘ کچھ زیادہ ہی مستعمل ہے اور صاحبِ کتاب نے بھی بہت خُوبی سے اس ترکیب کو اپنی کتاب کے عنوان میں پیش کرتے ہوئے’’ غائب ہونے والے‘‘کالمز کو ’’لاپتا کالم‘‘ قرار دیا ہے۔یوں اس کتاب کے عنوان کو ’’ترکیب‘‘ کی بہ جائے ’’امرِ واقعہ‘‘ قرار دینا دُرست ہوگا۔ برِّصغیر میں جاسوسی ناول نگاری کے بے تاج بادشاہ ابنِ صفی نے نہ جانے کس احساس کے تحت کہا تھا،؎’’جو کہہ گئے وہی ٹھہرا ہمارا فنِ اسرارؔ…جو کہہ نہ پائے ،نہ جانے وہ بات کیا ہوتی‘‘۔محمّد بلال غوری خوش قسمت ہیں کہ وہ جو کہنا چاہتے تھے،کہہ گئے اور اُسے عوام کے سامنے بیان بھی کر دیا۔مزید خوش قسمتی یہ کہ لوگ اُن کی تحریروں کے منتظر بھی رہتے ہیں۔

تازہ ترین