• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

طے شدہ شیڈول کے مطابق وزیرِ اعظم عمران خان9 نومبر کو بابا گُرو نانک کے 550 ویں یومِ پیدایش کے موقعے پر کرتار پور راہ داری کا افتتاح کریں گے، جس کے تمام انتظامات مکمل کیے جا چکے ہیں۔ بلا شبہ یہ ایک تاریخی اور یاد گار واقعہ ہوگاکہ دونوں ممالک کے درمیان اس نوعیت کا کوئی قابلِ عمل معاہدہ اور رابطہ اس سے قبل شاید عملی شکل میں طے نہیں پایا ۔ کرتار پورراہ داری معاہدے اور منصوبے کے انتہائی دُو ر رس اور ہمہ جہت نتائج توسامنے آئیں گے ہی ،پراس حوالے سے کچھ خدشات بھی اپنی جگہ موجود ہیںاور رہیں گے۔ 

دونوں ملکوں کے مابین تعلقات کی نوعیت سے کون واقف نہیں، بالخصوص بھارت کے جارحانہ عزائم اور خطّے میں بالادستی قائم کرنےکی ہمیشہ سے جوایک خواہش رہی ہےاور جسےپورا کرنے کے لیے وہ اپنے پڑوسی ملکوں کو اپنا دستِ نگررکھنے اور علاقے کی تھانے داری حاصل کرنے کے مواقع کی تلا ش ہی میں نہیں رہتا بلکہ خطر ناک نوعیت کی حد تک مواقع بھی پیدا کرلیتا ہے، تویہاں یہ بات انتہائی اہم اور قابلِ ذکر ہے کہ کرتار پور را ہ داری کا معاہدہ اور افتتاح ایک ایسے موقعے پر ہو رہا ہے کہ جب پاکستان اور بھارت کے تعلقات کشیدگی کی انتہا پر ہیں۔ 

گو کہ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہیں، لیکن اسلام آباد اور نئی دہلی میں ایک دوسرے ممالک کےہائی کمشنرز موجود نہیں۔ اِنہیں حالات و واقعات میں تناؤ کے باعث واپس بلایا جا چکا ہے اور دونوں ممالک سے ہائی کمشنرزکا ذیلی عملہ سفارتی اُمور انجام دے رہا ہے۔قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ایسی صُورتِ حال بھی پہلی مرتبہ پیدا ہوئی ہے کہ دنوں ممالک کے درمیان ’’پوسٹل سروسز ‘‘بند ہیں۔ اس بات کو تین ماہ ہونے کو آئے ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان کسی قسم کے خطوط، دستاویزات اور پوسٹل سروسز کے ذریعے رابطہ بالکل قائم نہیں۔ 

یعنی عوامی سطح پر دونوں مُلکوں میں بسنے والے ، دوستوں، عزیزوں اور رشتے داروں کے درمیان یہ سستا، آسان اور موثر رابطہ (تادمِ تحریر)منقطع ہے۔تشویش ناک امر یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تین جنگیں ہو چکی ہیں، لیکن پوسٹل سروسز کا نظام کبھی بند نہیں ہوا۔

مقبوضہ کشمیر میں پیدا ہونے والی صُورتِ حال انتہائی خطرناک مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ ردّ ِ عمل کے طور پر لائن آف کنٹرول پر بھی حالات انتہائی خراب ہیں ،جہاں بھارتی فوج کی جانب سے فائرنگ کے باعث عام شہریوں کی شہادتوں کے واقعات تسلسل سے پیش آرہے ہیں۔

رواں سال غیر اعلانیہ جنگ میں آزاد کشمیر کی سر زمین پر بھارتی فضائیہ کا حملہ بھی اپنی نوعیت کاپہلا واقعہ تھا،لیکن حالات کی اس ابتری میں کر تار پور را ہ داری کا معاہدہ اور پھر افتتاح یقیناً ایک اَن ہونی سی بات لگتی ہے۔ تفصیلات میں جائیں ،تو اس کا ایک پہلو ، جسے نوعیت کے اعتبار سے یقیناً مثبت ہی کہا جائے گا، وہ یہ بھی ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان کی تقریبِ حلف برداری میں بھارتی ٹیم کے معروف سابق کرکٹر، نوجوت سنگھ سِدھو (عرف پاجی)نے بھی خصوصی طور پر شرکت کی تھی۔ 

تقریب کے اختتام پر انہوں نے وہاں موجود پاکستان کے آرمی چیف ،جنرل قمر جاوید باجوہ سے مصافحہ کرتے ہوئے یہ ’’بِنتی‘‘ کی تھی کہ ’’پاکستان کے علاقے میں واقع گورودوارہ بابا گرو نانک میں سِکھوں کو ماتھا ٹیکنے کا موقع فراہم کرنے کے لیے اُن کی وہاں تک رسائی ممکن بنائی جائے‘‘، جس پر آرمی چیف نے ان کی در خواست سُنی ،دَر حقیقت یہ عملی طور پر کرتار پور راہ داری کھولنے کا پہلا عِندیہ تھا۔ ہو سکتا ہے کہ اس بارےمیں غیر اعلانیہ طور پر پہلے سے کچھ منصوبہ بندی ہو رہی ہو، لیکن اعلانیہ طور پرتقریبِ حلف برداری کے بعد ہی معاملات کا آغاز ہوا،جس کی تکمیل 9 نومبر کو ہو نے جارہی ہے۔

کرتار پور وہ مقام ہے، جہاں سِکھوں کے پہلے گرو ،نانک دیوجی نے اپنی زندگی کے آخری ایّام گزارے ۔ یہیں بیک وقت اُن کی سمادھی بھی ہے اور قبر بھی، جو سکھوں اور مسلمانوں دونوں کے لیے ایک مقدّس مقام کی حیثیت رکھتی ہے۔بابا گرو نانک کو مقامی مسلمان آبادیاں ایک بر گزیدہ ہستی کا درجہ دیتی ہیں، جب کہ سکھ انہیں اپنے مذہب کا بانی کہتے ہیں۔ پاکستانی سرحد کی دوسری جانب سکھ یاتری چوں کہ پاکستانی سر زمین تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے تھے، اس لیے وہ گورودوارہ صاحب کو دیکھنے کے لیے دور بینوں کا استعمال کرتے۔ 

اس مقصد کے لیے انڈین بارڈر سیکیورٹی فورسز نےایک خاص مقام پر خصوصی اہتمام کیا اور دور بینیں نصب کیں ،ا س جگہ کو ’’درشن استھل‘‘ کہا جاتا ہے۔ جسے ’’بصری عبادت یا زیارت ‘‘ قرار دیا جا سکتا ہے۔ درشن استھل سےسکھ کمیونٹی کے لوگ گورودوارہ بابا گرو نانک کا درشن کرتے۔ 

تاہم، اب کر تار پور راہ داری قائم ہونے کے بعد سکھ زائرین کو بابا گرو نانک کی سما دھی کے مقام تک رسائی حاصل ہو سکے گی۔ انڈین بارڈر سے یہ مقام محض تین کلو میٹر کی مسافت پر ہے ،لیکن اس 3 کلو میٹرمسافت کو طے کرنے کے لیے انہیں سات دَہائیوں تک انتظار کرنا پڑا۔ 

کرتار پور راہ داری چلانے کے لیے دونوں ممالک کے درمیان باقاعدہ فریم وَرک طے ہوا ہے۔گزشتہ دنوں کرتار پور راہ داری کے معاہدے پر جو دستخط ہوئےاورجن باتوں پر فریقین میں اتفاقِ رائے ہوا ، ان میں یہ اہم باتیں شامل ہیں کہ ’’ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے بھارتی یاتری، جو بابا گرو نانک سے عقیدت رکھتے ہوں،وہ اس راہ داری سے سفر کر سکتے ہیں۔ غیر مُلکیوں، بشمول سکھ یاتریوں کو ، اس سفر کے لیے کسی ویزے کی ضرورت نہیں ،البتہ پاسپورٹ اور الیکٹرانک سفری اجازت نامے (ای - ٹی -اے) کاہونا لازم ہے۔ 

بھارت کے علاوہ دیگر ممالک کےجو لوگ راہ داری سے سفر کرنا چاہتے ہیں، انہیں اس مقصد کے لیے اپنے مُلک کا پاسپورٹ اور اوور سیز سٹیزن شپ آف انڈیا(او - سی-آئی ) کا رڈ درکار ہوگا۔ بھارتی حکاّم اپنے یاتریوں کی فہرست کم از کم دس دن قبل فراہم کریں گے تاکہ اس بات کی تصدیق کی جا سکے کہ ان کی دستاویزات مکمل ہیں، جن میں ای- ٹی- اےشامل ہے۔ 

راہ داری ، ہر موسم میں پورا سال کھلی رہے گی ،چُھٹیوں کے بارے میں دونوں ممالک کے متعلقہ حکام پیشگی ایک دوسرے کو آگاہ کریں گے۔ زائرین کے لیے لنگر اور پرساد کےتمام ضروری انتظامات پاکستان کرے گا۔ سروس چارجز کی مَد میں زائرین فی کس 20 ڈالرز ادا کرنے کے پابند ہوں گے۔ 

یاد رہے کہ بھارت کی طرف سے سروس چارجز کے محض 20ڈالر کی وصولی پر بڑا اعتراض اور واویلا کیا گیا اور وہ اعتراض اب بھی قائم ہے ۔ البتہ، معاہدے میں شامل اس شق کی موجودگی میں بھارت کی جانب سے دستخط کر دئیے گئےہیں۔ 

معاہدے میں یہ بھی طے پایا کہ روزانہ کی بنیاد پر 5000 سِکھ یاتری راہ داری استعمال کر سکیں گے،فی الوقت ایک عارضی پُل فعال کیا جائے گا،جب کہ وقت کے ساتھ ایک مستقل پُل بھی تعمیر کرلیا جائے گا۔ ٹیکنالوجی سے فائدہ اُٹھانے اور زائرین کی آسانی کے لیے آن لائن رجسٹریشن پورٹل قائم کیا گیا ہے، جس کے ذریعے یاتری اپنی رجسٹریشن آن لائن کروا سکیں گے ، پر یہ کام’’ پہلے آئیں، پہلے پائیں‘‘ کی بنیا د پر ہوگا۔ 

درخواست گزار وں کو موبائل پر ایس ایم ایس اور ای میل کے ذریعے معلومات حاصل ہوں گی۔‘‘ سِکھوں کی عقیدت کو دیکھتے ہوئے ڈیرہ بابا نانک راہ داری کے حوالے سے پاکستان اور بھارت کے مابین پہلی بار 1998 ء میں مشاورت کی گئی تھی۔ تاہم، خاطر خواہ نتائج بر آمد نہیں ہوئے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کرتار پور راہ داری کے افتتاح کو موجودہ حکومت کی بڑی کام یابی تصوّر کیا جا رہاہے ۔

یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکرہے کہ جب حکومت اور فوج مل کر کوئی کام انجام دینے کا بیڑہ اُٹھاتے ہیں، تو وہ نہ صرف پایۂ تکمیل تک پہنچتا ہے، بلکہ اس کے بہترین نتائج اورثمرات مُلک و قوم تک بھی پہنچتے ہیں۔

20 ڈالر سروس چارجز کا تنازع

کرتار پور راہ داری سے پاکستان آنے کے لیے غیر مُلکیوں یا سکھ یاتریوں کو کسی ویزے کی ضرورت نہیں پڑے گی،البتہ پاسپورٹ اور الیکٹرانک سفری اجازت نامے (ای - ٹی -اے) کاہونا لازم ہے۔سروسز چارجز کی مَد میں پاکستان ، زائرین سےفی کس 20 ڈالرلے گا،اس بات پربھارت کی جانب سےخاصا اعتراض کیا گیا۔

اس ضمن میں بھارتی وزارتِ خارجہ کی جانب سےایک بیان آیا کہ پاکستان کا 20 ڈالر سروس فیس فی یاتری کا فیصلہ مایوس کن ہے۔بھارتی پنجاب سے تعلق رکھنے والی ایک وزیر، ہرسِمرت کَور نےایک ٹویٹ میں کہا کہ ’’کرتارپور صاحب کے درشن کے لیے پاکستان کی جانب سے 20ڈالرفیس لینے کا فیصلہ ظلم ہے۔ کوئی غریب یاتری اتنے پیسے کیسے ادا کرے گا؟ پاکستان نے عقاید کو کاروبار بنا لیا ہے اور عمران خان کا بیان کہ اس فیس سے پاکستان کی معیشت بڑھے گی ،جس سے غیرملکی زرِمبادلہ میں اضافہ ہوگا ،انتہائی شرم ناک ہے۔‘‘

واضح رہے کہ 20 ڈالرز 1400-1500 بھارتی روپے بنتے ہیں۔ بھارت کے وزیرِاعلیٰ پنجاب، کیپٹن امریندر سنگھ نے بھی ایک ٹویٹ میں کہا’ ’مَیں وزیرِ اعظم عمران خان سے اپیل کرتا ہوں کہ حکومتِ پاکستان کی جانب سے کرتار پور صاحب میں گرو نانک کی آخری آرام گاہ کے ’’کُھلے درشن دیدار‘‘ کی سہولت فراہم کرنے کی مَد میں 20 ڈالر زکی فیس کے فیصلے کو واپس لے لیں۔ 

دنیا بھر کی سکھ کمیونٹی اُن کے اس اقدام پر شکرگزار ہوگی۔‘‘ تاہم پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان ، کرتار پور راہ داری سے متعلق پاکستان کے مذاکراتی وفد کے سربراہ اور فوکل پرسن، ڈاکٹر محمّد فیصل کا کہنا ہے کہ ’’پاکستان نےکوئی ویزا فیس نہیں رکھی، یہ صرف سروس فیس ہے۔اور دنیا بھر میں کہیں ایسا نہیں ہوتا کہ بارڈر پار جانا ہو اور کوئی فیس ہی وصول نہ کی جائے۔یورپی یونین میں بھی ایسا نہیں ہوتا۔

بھارت ہمارے زائرین کو کبھی ویزا فری اینٹری نہیں دے گا، ہم تو پھر بھی سکھ یاتریوں کو دے رہے ہیں۔‘‘یاد رہے ، سکھ کمیونٹی کی جانب سےنہ تو 20 ڈالر سروس چارجز کے بارے میں زیادہ بات ہو رہی ہے اور نہ ہی کوئی اعتراض اٹھایا جا رہا ہے۔البتہ انڈین ذرائع ابلاغ ہمیشہ کی طرح معاملے کوخوب بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے۔

گورودوارے کی اہمیت …

گورودوارہ دربار صاحب ،کرتار پوردریائے راوی کے کنارے لاہور سے تقریباً 120 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے۔یہ سکھ مذہب کے ماننے والوں کا دوسرا مقدّس ترین مقام ہے( سب سے مقدّس مقام گورودوارہ جنم استھان ہے)۔ سکھ مذہب کے پیروکاروں کا ماننا ہے کہ ان کےمذہب کے بانی بابا گرو نانک اٹھارہ سال یہاں مقیم رہے، تعلیماتِ دین عام کیں اور 22 ستمبر 1539 کو یہیں ان کادیہانت ہوا۔ 

بابا گورونانک کی وفات پر دونوں مذاہب(مسلمان، سکھ) کے پیروکاروں نے اپنے اپنے عقاید کے مطابق ان کی آخری رسومات ادا کیں۔آج بھی کرتارپور میں ایک جانب بابا گورونانک کی قبر اور دوسری جانب سمادی بنائی گئی ہے، جہاں سکھ مذہب کے لوگ ماتھا ٹیکتے اور مسلمان قبر پر دعا کرتے ہیں۔ 

گوردوارے کے باغیچے میں واقع کنواں گرو نانک دیو سے منسوب کیا جاتا ہے، اس کے بارے میں سکھوں کا عقیدہ ہے کہ یہ گرو نانک کے زیر ِاستعمال رہا۔ 

اسی مناسبت سے اسے ’’سری کُھو صاحب‘‘ کہا جاتا ہے۔کنویں کے ساتھ ہی ایک بم کاٹکڑا بھی شو کیس میں رکھا ہوا ہے۔ اس پر درج تحریر کے مطابق یہ گولہ انڈین ایئر فورس نے 1971 ء کی انڈیا پاکستان جنگ کے دوران پھینکا تھا ،جسے کنویں نےاپنی گود میں لے لیا اور گورو دوارہ تباہ ہونے سے محفوظ رہا۔

گورودوارہ دربار صاحب کرتار پور ،بابا گرونانک کی آخری آرام گاہ ہونے کی وجہ سے بھارت اور دنیا بھر میں بسنے والی سکھ برادری کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

تازہ ترین