• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
  • انسان کی بربادی انسان کے ہاتھ لکھی ہوتی، تو کوئی آباد نہ رہتا
  • دنیا میں بادشاہوں کا سب سے زیادہ پالا فقیروں ہی سے پڑتا ہے
  • اِک دَربدر، خاک بسر… اور عشقِ مجازی سے عشقِ حقیقی تک کا سفرِ مسلسل

سِڈکی کزن، ڈاکٹر سونیا دروازے پر کھڑی تھی، لیکن اِس بار اُس کا لہجہ بدلا ہوا تھا۔ ’’سِڈ! تم اب کچھ آرام کرلو۔ جانتے ہو ناں تمہارے لیےآرام کتنا ضروری ہے۔‘‘ سِڈ طنز سے مُسکرایا، ’’اب آگے آرام ہی ہے۔ کچھ دیر مجھے اپنے دوست سے باتیں کر لینے دو، جانے پھر ملاقات ہو، نہ ہو۔‘‘ سونیا کی آنکھوں میں آنسو آگئے، جنہیں وہ ایک تجربہ کار ڈاکٹر کی طرح بڑی خُوب صُورتی سے چُھپا گئی۔ ’’اچھا ٹھیک، مگر صرف 5منٹ اور… مَیں یہیں باہر کھڑی ہوں۔‘‘ سونیا باہر چلی گئی، مگر مجھے لگا اُس کی بھیگی پلکیں یہیں اندر کمرے میں رہ گئی ہیں۔ سِڈ نے گہرا سانس لیا ’’سونیا میری منگیتر ہے، یہ بیماری تشخیص نہ ہوتی، تو اگلے دو ماہ میں ہماری شادی ہونا طے تھی۔ اور اِس وقت ہم یورپ یا امریکا میں کہیں ہنی مون پر ہوتے۔ بہت محبّت کرتی ہےمجھ سے۔ سچ پوچھو تو مجھے اپنی نہیں، اس کی زیادہ فکر ہے۔‘‘ مَیں سِڈ کی باتیں سُن کر افسردہ ہوگیا۔ یہاں بھی ایک اَدھوری کہانی بکھری پڑی تھی۔ پھرسِڈ فکرمندی سے بولا ’’لیکن تم یہاں سے کہاں جائو گے۔ تم چاہو تو مَیں ڈیڈ سے کہہ کربارڈر کراس کروا سکتا ہوں۔ دبئی میں تو ہمارا اپنا بزنس ہے، لیکن فارن بھی دُور نہیں۔ تم ایسے کب تک بھاگتے رہو گے؟‘‘ ’’نہیں، مَیں کہیں بھاگ نہیں رہا، کسی کی تلاش میں ہوں۔ وہ مل جائے تو خود سرنڈر کر دوں گا۔ تم اب آرام کرو۔ تمہاری آواز سے نقاہت جھلک رہی ہے۔‘‘ سِڈ واقعی بولتے بولتے ہانپنے لگا تھا۔ ’’کیا…؟ تم سرنڈر کر دو گے، مگر کیوں، تمہیں اُس جرم کی سزا کیوں ملے، جو تم نے کیا ہی نہیں، جسے سزا ملنی چاہیے تھی، قدرت نے خود اُس کے لیے سزا تجویز کر دی ہے۔‘‘ مَیں نے اُسے کمبل اوڑھا دیا۔ ’’تم آرام کرو… صبح تمہارے گھر والوں کے آنے سے پہلے میں یہاں سے چلاجائوں گا۔‘‘ ’’مَیں نے ٹیبل لیمپ آف کردیا اور کمرے سے ملحقہ بالکونی میں کُھلتے دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ سِڈ نے مجھے آواز دی ’’سنو ساحر! مَیں تمہارا مجرم ہوں لیکن میں چاہ کر بھی تمہارے لیےکچھ نہیں کرسکتا۔ مَیں ساری عُمر ایک نافرمان بیٹا ثابت ہوا ہوں۔ مَیں نے ہمیشہ اپنی مام اور ڈیڈ کو بہت دُکھ دیئے ہیں۔ مَیں نہیں چاہتا کہ جاتے جاتے بھی ڈیڈ کو کسی نئی مصیبت میں ڈال جائوں… اگر مَیں نے سچ بول دیا تو سَنی کا باپ ڈیڈ کو برباد کردے گا۔ تم میری مجبوری سمجھ رہے ہو ناں۔ ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا دوست۔‘‘ سِڈ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ’’مَیں نے تمہیں معاف کیا، لیکن میرا یہ پختہ یقین ہے کہ کوئی کسی کو برباد نہیں کر سکتا۔ جب تک اوپر والا نہ چاہے۔ انسان کی بربادی اگر انسان کے ہاتھ لکھی ہوتی، تو آج اس دنیا میں کوئی آباد نہ ہوتا‘‘۔

مَیں کمرے سے بالکونی میں آ گیا، جہاں بید کی بنی ایک آرام کرسی پڑی تھی۔ کمرے کی پچھلی طرف اسپتال کاوسیع و عریض لان تھا۔ یہ امیروں کے اسپتال بھی کسی محل سے کم نہیں ہوتے۔ غریب بےچارہ تمام عُمر قطاروں میں کھڑا سرکاری اسٹور سے دوا ملنے کا انتظار کرتا رہتا ہے۔ سِڈ نے اپنے پاپا کا ذکر کیا تو مجھےبھی پاپا یاد آگئے۔ مَیں نے بھی تو ہمیشہ انہیں دُکھ ہی دیئے تھے۔ مَیں بھی تو ایک بُرا بیٹا ہی ثابت ہوا تھا۔ اُنہیں میرے فرار کے بعد بھی پولیس نے پوچھ گچھ کے بہانے بہت تنگ کیا ہوگا۔ گھر کا فون اور پاپا کا موبائل بھی ضرور ٹیپ کیا جارہا ہو گا تاکہ اگر میں ان سے رابطے کی کوشش کروں تو پولیس کو میرے ٹھکانے کا سراغ مل سکے۔ اسی لیے مَیں نے پاپا سے رابطے کی کوشش بھی نہیں کی تھی، مگر آج نہ جانے کیوں میرا دل ان سے بات کرنے کے لیے بہت بےچین ہو رہا تھا۔ بیٹے ہی تو باپ کا واحد سہارا ہوتے ہیں، لیکن میں کیسا بدنصیب، بدبخت بیٹا تھا، جو اپنے باپ کا سہارا بننے کے بجائے ہمیشہ انہیں بے سہارا ہی کرتا آیا تھا۔ مَیں جانے کتنی دیر وہاں کھڑا ان سوچوں میں ڈوبارہا۔ تبھی پیچھے گیلری کا دروازہ کُھلنے کی آواز آئی۔ وہ سونیا تھی ’’معافی چاہتی ہوں، مَیں نے آپ کو ڈسٹرب کیا۔‘‘ وہ کچھ شرمندہ سی نظر آ رہی تھی۔ ’’نہیں ایسی کوئی بات نہیں، ڈسٹرب تو مَیں نے آپ سب کو کردیا۔ مَیں صبح ہوتے ہی چلا جائوں گا۔‘‘ سونیا پشیمانی سے بولی ’’آئی ایم سوری۔ مَیں نے آپ کی اور سِڈ کی ساری باتیں سن لی تھیں۔ دراصل میں ڈرگئی تھی کہ شاید آپ سڈ کو کوئی نقصان نہ پہنچا دیں۔ اس لیے دروازے کے قریب ہی کھڑی رہی۔ مَیں بہت شرمندہ ہوں،مَیں نے آپ کوغلط سمجھا۔‘‘ ’’کوئی بات نہیں، ہمارے ہاں عموماً انسان کو اس کے لباس اور حلیے ہی سےجاناپہچاناجاتا ہے۔ آپ نےمجھے وہی سمجھا، جو مَیں نظر آرہا تھا، اِس میں آپ کا کوئی قصور نہیں۔ ‘‘’’سونیا بے چین ہوگئی۔ ’’پلیز مجھے بتائیں، کیا مَیں آپ کے لیےکچھ کرسکتی ہوں۔ سِڈ نے مجھے یہ سچ بہت پہلے بتادیا تھا کہ سَنی غلطی سے اُس کے ہاتھوں مارا گیا تھا، مگر مَیں نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ آپ سے اس طرح سامنا ہوجائے گا،مَیں تو ہمیشہ یہی سوچ کر ڈرتی رہی کہ وہ شخص جو سِڈ اور کاشی کے جرم کی سزا کاٹ رہا ہے، وہ جب کبھی سامنے آئے گا تو ہمارا سب کچھ تباہ و برباد کردے گا۔ مگر آپ… آپ نے تو میرا ہر خیال غلط ثابت کر دیا۔ مَیں نے زندگی کا یہ رُخ پہلی مرتبہ دیکھا ہے۔‘‘ ’’آپ خود کو اتنا نہ الجھائیں۔ جو ہوا، وہ میرا نصیب تھا۔ یاشاید میری آزمائش… اور میری زندگی میں ایسی اور بہت آزمائشیں ابھی آنا باقی ہیں۔ آپ سِڈ کا خیال رکھیں۔ وہ آپ کی وجہ سے بہت پریشان ہے۔ مَیری دُعاہے کہ اللہ اُسے صحت دے۔‘‘ سونیا پلٹ کرجانے لگی، مگر پھر رُک گئی۔ ’’ہمارا ایک فارم ہائوس ہےشہر سے باہر۔ پہلے کبھی کبھار فیملی پکنک وغیرہ کے لیے ہم وہاں جاتے تھے،مگرجب سے سِڈبیمار ہے، اب خالی پڑا رہتا ہے۔ آپ وہاں آرام سے رہ سکتے ہیں جب تک چاہیں… وہاں کوئی خطرہ نہیں۔‘‘ ’’نہیں، مجھے کسی کی تلاش میں نواب پور جانا ہے۔ میرے پاس زیادہ وقت نہیں۔ مَیں صبح ہوتے ہی نکل جائوں گا۔‘‘ ’’سونیا نواب پور کا نام سن کر ایک دَم چونکی ’’نواب پور… وہاں تو ڈیڈی کی بہت سی زرعی زمین ہے۔ میرے انکل بھی وہیں ہوتے ہیں زمینوں پر۔ وہاں کس سے کام ہے آپ کو؟‘‘ مجھے لگا، قدرت نے میرے نواب پور پہنچنے کا انتظام کردیا ہے۔ ’’نواب تیمور سے۔ لیکن مَیں اُن کے لیے اجنبی ہوں۔ کیا آپ مجھے نواب کی حویلی تک پہنچا سکتی ہیں۔‘‘ سونیا جوش سے بولی ’’سمجھیں، آپ پہنچ گئے۔ ڈیڈ کا وہاں بہت اثرو رسوخ ہے۔ مَیں انکل سے صبح ہی بات کر لوں گی۔ میرا اپنا ڈرائیور آپ کو لے جائے گا، صرف چھے گھنٹے ہی کا تو راستہ ہے۔ میری دُعا ہے کہ اللہ آپ کو آپ کے مقصد میں کام یاب کرے۔‘‘ سونیا افسردہ سی واپس کمرے میں سِڈ کے پاس چلی گئی۔

کچھ ہی دیر میں صبح کی اذانیں شروع ہوگئیں۔ سونیا نے شاید رات ہی کو اپنی گاڑی بلو لی تھی اور دھوپ نکلنے سے کچھ دیر پہلے مَیں سونیا کی نئی ماڈل کی بڑی گاڑی میں اسپتال سے نکل کر نواب پور کے رستے پر رواں دواں تھا۔ کل تک جن پولیس چوکیوں اور ناکوں سے مَیں چُھپ اور بچ کر نکل رہا تھا۔ آج وہی پہرے دار مستعدی سے گاڑی کی نمبر پلیٹ پر نظرپڑتے ہی ہر راستہ کھولتے نظر آرہے تھے۔ گاڑی کےشیشوں کو پَردوں سے ڈھانک دیا گیا تھا اور مَیں بیک سیٹ پر سُکون سے بیٹھاتھا، لیکن میرا دھیان ابھی تک بخت خان کی طرف تھا۔ گزشتہ رات اُس نے میری طرف سے دھیان ہٹانے کے لیے جان بوجھ کر پولیس کی توجّہ اُس گلی کی طرف مبذول کروائے رکھی، جہاں وہ مجھ سے علیحدہ ہو کر بھاگتے ہوئے داخل ہوا تھا۔ جانے وہ اب کہاں ہو گا۔ مَیں نےاخبار والے پر نظر پڑتے ہی ڈرائیور سے اخبار پکڑنے کو کہا… لیکن اخبار میں گزشتہ رات سے متعلق کوئی ایسی خبر نہیں تھی۔ مَیں نے دل سے دُعا کی کہ بخت خان بھی میری طرح اُن گلیوں سے بحفاظت نکل گیا ہو۔ ایسی صورت میں اُسے بھی اس وقت نواب پور کی طرف عازمِ سفر ہونا چاہیےتھا۔ اگر وہ کسی لوکل ٹرانسپورٹ سے چُھپ چُھپا کر سفر کرے، تب بھی اُسے ایک سے دو دن کے اندر نواب پور پہنچ جانا چاہیے۔ ہم دونوں کے پاس ظہیر کی دی رقم بھی کچھ زیادہ نہیں بچی تھی۔ صبح جب مَیں اسپتال سے نکل رہا تھا تو سونیا نے سِڈ کو جگانے کا کہا، لیکن مَیں نے منع کر دیا۔ سِڈ کی حالت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی تھی اور مَیں اسے مزید بے آرام نہیں کرنا چاہتا تھا۔ انسان اِسی دنیا میں اپنی بے آرامی کاٹ لے، تو بہتر ہے۔ ڈرائیور سارے رستے خاموش رہا۔ شاید اُسے کوئی سوال نہ کرنے کی تاکیدکر دی گئی تھی۔ سڑک خراب ہونے کی وجہ سے ہمیں نواب پور پہنچتے پہنچتے شام ہوگئی۔ جب ہم نواب پور کے بڑے گیٹ سے اندر داخل ہوئے تو دُور انگریزدَورکی بنی گول گنبدوالی محل نما عمارتوں اور حویلیوں کے پیچھے دھوپ ڈھلنے کی تیاری کر رہی تھی۔ نواب پورایک چھوٹاضلع تھا، جو انگریز نے اپنی چھائونی کے طور پر بسایا تھا۔ یہاں ملکہ وکٹوریہ کےدَور کی یادگاریں اور سنگِ مرمر سے بنے مجسمے،فوارے ابھی تک چوکوں،سڑکوں پر اِستادہ تھے۔ تقریباً سارا ہی شہر سفید پتھر، چونے یا پھر سنگ ِمرمر سے تعمیرشدہ تھا اور آج بھی شہر کے مین چوراہے پرٹیکسی،رکشوں سمیت ٹم ٹم، تانگے اور بگھیاں بھی کھڑی دکھائی دے رہی تھیں۔ جگہ جگہ پان کے کھوکھے،تمباکو کی دکانیں کھلی تھیں،غالباً شہر کے باسی پان، تمباکو کے خاصے شوقین ہیں۔ گاڑی چوڑی اور کشادہ سڑکوں سے گزرتی ایک وسیع و عریض بنگلے میں داخل ہو گئی، جس کے باہر کمال احمد کے نام کی تختی لگی تھی۔ کمال صاحب ہی سونیا کے چچا تھے۔ ہارن کی آواز سن کر وہ نوکروں کے ساتھ خود بھی پورچ میں آگئے۔دھان پان سےوضع دار شخص دکھائی دے رہے تھے۔ سفید کرتے پاجامے پرسیاہ واسکٹ پہنے ہوئے تھے۔ مجھے گاڑی سے اُترتے دیکھ ان کےچہرے پر بھی اُسی حیرت کےآثار نمایاں ہوئے، جن کا اب میں عادی ہو چُکا تھا۔ شاید اُنہیں بھی اپنی ماڈرن، پڑھی لکھی ڈاکٹر بھتیجی کی طرف سےکسی ایسے مہمان کی آمد کی توقع نہیں تھی، مگر ایک تہذیب یافتہ فرد ہونے کے ناتے انہوں نے فوراً چہرے پر چھائی حیرت کو مُسکراہٹ میں بدل دیا۔ ’’آئو میاں آئو… ڈاکٹرنی صاحبہ نے مجھے صبح فون پر سخت تاکید کی ہے کہ اُس کے اور سِڈ کے بہت خاص مہمان ہو تم، تمہارا بہت خیال رکھنا ہے۔ بھئی مَیں تو سچ پوچھو گھبرا ہی گیا تھا کہ جانے کون آ رہا ہے۔ اور مَیں ٹھیک سے اس کی خاطر مدارت کر بھی پائوں گایا نہیں۔‘‘

وہ باتیں کرتے کرتے مجھے لان کی طرف سے اندر کُھلتےایک شیشے کے کمرے میں لے آئے جس کی ساری دیواریں شفّاف شیشے سے بنی تھیں تاکہ لان اور دُور گرتے فوارے اور جھرنے کا منظر صاف دکھائی دے۔ سامنے والے حوض میں چند بطخیں بھی تیر رہی تھیں اور سارا لان اور باغیچہ بہت نفاست سے تراشا گیا تھا۔ یہ سَن رُوم اُس جانب اسی لیے بنایا گیا ہوگا تاکہ گھر کے مکین ڈھلتی شام میں، لائونج کےآرام دہ صوفوں پر بیٹھ کر دھوپ ڈھلنے کا نظارہ کرسکیں۔ اور جب بارش ہوتی ہوگی تو بوندوں کا جلترنگ شیشے کی چھت پر کتنا بھلا محسوس ہوتا ہوگا سچ ہے کہ اگر اوپر والا انسان کو اس کی یہ ’’حسِ لطیف‘‘ عطا نہ کرتا تو انسان انسان ہی نہ ہوتا۔ کمال صاحب چلتے چلتے رُکے ’’بھئی معاف کرنا، مَیں نے تمھارا نام تو پوچھا ہی نہیں، تمہاری تعریف…؟‘‘ ’’تعریف کے لیےتو کچھ خاص نہیں ہے میرے پاس، ہاں البتہ تعارف کے لیے نام عبداللہ ہے۔‘‘ میری بات سُن کر وہ چونکے، پھرجلدی سےسنبھل کربولے ’’اچھا اچھا… عبداللہ، بھئی بہت خُوب … بڑا اچھا نام ہے۔ اچھا تو عبداللہ میاں … پہلے چائے ہو جائے۔ مَیں شام کی چائے کبھی قضا نہیں کرتا… چاہے کوئی دوست قضا ہوجائے۔‘‘ وہ اپنی بات پر خود ہی ہنسے اور پھر ذراسی دیر میں کمرے کی درمیانی میز، جو صوفوں کےدرمیان پڑی تھی۔ چائےکےانواع و اقسام کے لوازمات سے سج گئی۔ اِن میں بہت سی ایسی چیزیں تھیں، جن کی خوشبو بھی مَیں جیل میں رہتےفراموش کر بیٹھا تھا۔ میز پر جگہ ختم ہوگئی، مگر نوکر اب بھی خوان اٹھائے چلےآرہے تھے۔ کمال صاحب نے واقعی بہت تکلّف کر رکھا تھا۔ مجبوراً مجھے ہی ٹوکنا پڑا ’’آپ نے خوامخواہ اتنی زحمت کی۔ میری حسِ ذائقہ اب اتنی فعال نہیں رہی۔ اور جس انسان کےپاس ذائقہ محسوس کرنے کی حِس نہ ہو، اُس کے سامنے اتنے لوازمات رکھنا،خوانوں کی توہین ہے۔‘‘ کمال صاحب نے غور سے میری طرف دیکھا ’’خوب کہا میاں، مگر ذائقے کی شرط تو برتنے سے مشروط ہے۔ جب تک چکھو گے نہیں، ذائقے کی حِس فعال نہیں ہوگی۔‘‘ اور پھر ان کے اصرار پر مجبوراً مجھے ہرچیز چکھنی پڑی۔ کمال صاحب کو مَیں نےان کےذوق اور باورچی کے انتخاب کی داد دی تو وہ کھِکھلا کر ہنس پڑے۔ ’’بس کیاکروں،اکیلاہوتاہوں یہاں۔شادی بیاہ کے جھنجھٹ میں پڑا نہیں۔ باہر سے فاریسٹری پڑھ کر آیا تھا، مگر سونیا کے ڈیڈی، مطلب میرے بھائی جان نے مجھے یہاں کی جائیداد کی دیکھ بھال کی ذمّے داری سونپ دی۔ اب اور کوئی مشغلہ ہے نہیں، اس لیےجنگلات کی تعلیم اس لان پر اور باقی وقت اچھے باورچی ڈھونڈنے میں لگا دیتا ہوں۔ وقت گزاری کا کوئی تو بہانہ چاہیے۔ تم بتائو، کیا کرتے ہو۔ اور نواب پور کیسے آنا ہوا؟ سونیا بتا رہی تھی کہ تمہیں یہاں کوئی ضروری کام ہے۔ کہو، مَیں کیا مدد کرسکتا ہوں؟‘‘ ’’آپ نواب تیمور علی خان کو جانتے ہوں گے۔ اُن سے کچھ کام ہے۔ ایک قیمتی چیز کھو گئی ہے۔ سُنا ہے وہ اُن کے پاس ہے، وہی واپس لینے آیا ہوں‘‘۔

میری زبان سے نواب تیمور کا نام سُن کر کمال صاحب چونک گئے۔ چہرے پر فکر اور پریشانی کی بہت سی لکیریں ایک پَل ہی میں اُبھرآئیں ’’مشکل کام بتا دیا ہے تم نے… وہ شخص تو سمجھو اس پوری ریاست کامالک ہے۔ پاکستان میں شمولیت سے پہلےنواب تیمور کےآبائواجداد ہی اس ساری سلطنت کےوارث اور کفیل تھے۔ ریاست کے انضمام کے بعد بھی بڑا اثرورسوخ ہے اس خاندان کا، جس کے سربراہ اب نواب تیمور علی خان ہیں، اور نہایت اکّھڑ، غصیلے، ضدّی واقع ہوئے ہیں نواب صاحب۔ کسی سے سیدھے منہ بات کرنا سیکھا نہیں اس شخص نے۔ ظالم،جابر بھی مشہور ہے۔ کہتے ہیں ان کے محل نما حویلی کے پیچھے جو قبرستان ہے، وہ زیادہ تر انہی کے دشمنوں اور مخالفین سے بھرا پڑا ہے۔ دوسری طرف سُنا ہے کہ حسِ لطیف بھی کُوٹ کُوٹ کر بھری ہے۔ گانا سننے کے بھی شوقین ہیں۔ ویسے حیرت ہے، ایسے شخص سے تمہیں بھلا کیا کام ہوسکتا ہے؟‘‘ شاید کمال صاحب یہ کہنا چاہ رہےتھےکہ وہ بادشاہ، تم فقیر، تو بھلا تم دونوں کا آپس میں کیاجوڑ۔ ’’دنیا میں بادشاہوں کا سب سے زیادہ پالا فقیروں ہی سے پڑتا ہے کمال صاحب۔ اگر آپ غور کریں، تو صرف میرا ہی جوڑ بنتا ہے نواب تیمور کے ساتھ۔ کبھی کبھی متضاد یا اُلٹ ہی سب سے زیادہ منسلک ثابت ہوتا ہے۔‘‘ کمال صاحب نےاس بارنہایت غورسےمیری طرف دیکھا۔ ’’تم وہی ہو ناں میاں، جو نظر آتے ہو۔ تمہاری باتیں باربارچونکادیتی ہیں مجھے۔ لگتا ہے کسی نے خاص تربیّت کی ہےتمہاری ۔‘‘ ’’جی، مگر مَیں ان کی تربیّت کی تھوڑی سی بھی لاج نہیں رکھ پایا۔ بس اُن سے سُنی باتیں ہی دُھرا رہا ہوں۔ کیا آپ کسی طرح میری ملاقات کروا سکتے ہیں نواب تیمور سے۔ اُن کی کوئی حسرت، پریشانی یا خواہش، جو آپ جانتے ہوں۔ بادشاہ بھی اندر سے کبھی مکمل نہیں ہوتے۔ کچھ نہ کچھ باقی رہ جاتا ہے پانے کو۔ سارے خانے کبھی بھی نہیں بھرتے۔‘‘ کمال صاحب سوچ میں پڑگئے۔ ’’میرا ایک آدھ بار ایک دوست کے ذریعے جانا ہوا ہے، اُن کے محل میں۔ کچھ باغ بانی اور نئے درختوں کے بارے میں معلومات چاہیے تھیں اُن کے مینیجر کو۔ نواب صاحب کی کمزوری ہیں اچھے باغیچے اور نئی پیوندکاری کے پھول۔ کافی دیر مجھ سے بات کرتے رہے تھے وہ اس دن اپنے اس پسندیدہ موضوع پر۔‘‘ کچھ دیر کمال صاحب سوچ میں گم رہے اور پھر جیسے انہیں کچھ خیال آیا۔ ’’ارے ہاں، یاد آیا۔ میرے دوست نے ایک بات کا ذکر تو کیا تھا۔ نواب صاحب کا ایک بیٹا ہے۔ اُنیس، بیس سال کا، سُنا ہے اس کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں۔ دنیا کے منہگے ترین ڈاکٹروں کو دِکھا چُکے اپنے بیٹے کو، مگر کچھ بہتری کے آثار دکھائی نہیں دیئے۔ پِیروں فقیروں کے چِلّے بھی کٹوا چُکیں ان کی بیگم، طِب، حکمت، ہومیو پیتھی سب آزما چکے، مگر کچھ بات بنی نہیں۔ویسے اُس محل کی باتیں باہر ذرا کم ہی آتی ہیں، پھر پتا نہیں چلا کہ انہوں نے اس مسئلے کا کیا حل نکالا۔ ویسے یہ بھی نصیب کی بات ہے کہ وہ بیٹا ہی نواب کا اکلوتا جان نشین ہے،مگر تم بھی کیا کرسکتے ہو، یہ خبر تمہارے کس کام کی؟‘‘

مَیں نے کمال صاحب کی آنکھوں میں کئی سوال اُبھرتے دیکھے ’’ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ہوتا ہے، آپ کسی طرح نواب تیمور تک یہ خبر پہنچا دیں کہ وہ تِنکا ایک جوگی فقیر ہو سکتا ہے، جو کسی بہانے آج کل آپ کی طرف ٹھہرا ہوا ہے۔ یہ کام آپ کے دوست کی زبانی بھی ہوسکتاہے، مگر بات کو مبہم رکھا جائے تو بہتر ہے۔ شوق کے انگاروں کو جتنی ہوا دی جائے وہ اُتنی ہی تیزی سے بھڑکتے ہیں۔‘‘ کمال صاحب سوچ میں پڑگئے ’’ٹھیک ہے میاں! تمہاری خاطر یہ جُوا بھی کھیل لیتے ہیں۔ تم جس حوالے سے آئےہو، وہ بہت عزیز ہے مجھے۔ مَیں سونیا اور سِڈ کی کوئی بات ٹال نہیں سکتا۔‘‘ مَیں نے انہیں اطمینان دلایا۔ ’’آپ بے فکر رہیں، آپ کو میری وجہ سے کوئی پشیمانی یا شرمندگی نہیں اٹھانی پڑے گی۔‘‘ کمال صاحب نے میری طرف دیکھا ’’ہاں، مَیں جانتا ہوں۔ تم میں کچھ تو بہت خاص ہے، مگر کیا، یہ ابھی جان نہیں پایا۔‘‘ کچھ دیر میں نوکر نے رات کا کھانا لگ جانے کی اطلاع دی۔ مَیں نے لاکھ معذرت کی کہ شام کی چائے کے بعد اب ذرا بھوک نہیں، مگر میزبان بھلا مہمانوں کی کب سُنتے ہیں۔ مَیں کمال صاحب کا دل رکھنے کے لیے بڑے ہال کی ڈائننگ ٹیبلپو آبیٹھا اور پھر رات گئے مجھے میری خواب گاہ پہنچا دیا گیا۔ ایک رات پہلے تک خانقاہ کے صحن کی سخت کھردری زمین میرا بستر تھی اور آج یہ ریشم و کم خواب کا آرام دہ بستر۔ نیند البتہ مجھے وہاں آئی تھی اور نہ یہاں آئی۔ مَیں ساری رات کروٹیں ہی بدلتا رہا۔ 

نیند کا تعلق بھلا آرام دہ بستر اور خواب گاہ سے کب ہوتا اگلی صبح ناشتے پر مجھے کمال صاحب نے بتایا کہ وہ صبح کی نماز کے بعد اپنے اُسی دوست کے ساتھ چہل قدمی کرتے ہیں اور آج صبح ہی انہوں نے میری کہی ہوئی بات اپنے دوست کے کان میں ڈال دی ہے اور اُسے یہ تاکید بھی کی ہے کہ کسی طرح یہ خبر نواب صاحب کےمینیجر تک پہنچا دے، مگر مجھے کمال صاحب کے لہجے میں خاص اُمید نظر نہیں آئی۔ شاید وہ یہی سوچ رہے ہوں گےکہ پتانہیں مینیجر اس بات کو اہمیت دے گا بھی یا نہیں۔ اور پھر بات نواب تک پہنچےگی بھی یا کہیں راستے ہی میں دفن ہو جائے گی۔ دن ڈھل گیا اور شام سر پر آگئی۔ مجھے کمال صاحب نے لان ہی میں بلا لیا۔ تبھی باہر سے ان کا نوکر اور گیٹ کا کوئی دربان ہڑبڑائےسے اندر بھاگے چلے آئے ’’وہ جناب! باہر نواب صاحب کے محل سے اُن کی گاڑی آکر رُکی ہے۔ شاید کوئی مہمان آئے ہیں؟‘‘ کمال صاحب یہ سُنتے ہی گھبرا کر کھڑے ہوگئے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین