• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افراطِ زر پاکستان کا ایک اہم مسئلہ بن چکا ہے جس کے باعث بےشمار معاشرتی مسائل پیدا ہوئے ہیںاور متعدد خاندانوں کے لئے زندگی مشکل تر ہو گئی ہے۔ بےروزگاری نہ صرف ترقی پذیر ممالک کا مسئلہ بن چکا ہے بلکہ ترقی یافتہ ممالک بھی اب اس مسئلہ میں گھرے ہوئے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں غیر ملکیوں کی ایک بڑی تعداد مقیم ہے جو زر مبادلہ اپنے ممالک میں بھیج رہے ہیں۔ پاکستان میں ہر سال کالجوں، یونیورسٹوں سے بےشمار طلبا فارغ ہو کر نکلتے ہیںجن میں سے اکثر برسوں سے بے روز گار لوگوں کے ساتھ مل جاتے ہیں، یہ سرکل عرصہ سے جاری ہے۔ پاکستان کے پاس وسائل بےشمار ہیں لیکن ان کے استعمال کے لئے کوئی منصوبہ بندی نہیں۔ افراطِ زر پر حکومت کا اس لئے کنٹرول نہیں ہے کیونکہ بڑی سبزی منڈیوں اور فروٹ منڈیوں کے علاوہ اجناس منڈیوں میں قیمتوں کا روزانہ تعین انتظامیہ کی بجائے آڑھتی خود کرتے ہیں۔ منڈیوں میں ٹرک کے ٹرک اسٹاک کرکے مہنگائی یہ آڑھتی خود پیدا کرتے ہیں، حکومت منڈیوں میں قیمتوں کا تعین کرنے میں بےبس نظر آتی ہے۔

افراطِ زر کی وجہ سے عوام موجودہ حکومت کو فلاپ قرار دے رہے ہیں، ایوب خان کا فوجی دور عوام صرف اس لئے اچھا کہتے ہیں کیونکہ ان کے دور میں بنیادی اشیائے ضروریات سستی اور عوام کی پہنچ میں تھیں، موجودہ صورت حال انتہائی گھمبیر نظر آتی ہے۔ حکومت کو بنیادی اشیائے ضروریہ کو سستا کرنا ہوگا، ان میں آٹا، گندم، چاول، دالیں، سبزیاں، چینی اور پھل شامل ہیں۔ صارفین کی قوتِ خرید مہنگائی کی وجہ سے کم ہو گئی ہے اور عوام کے مسائل میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ مجسٹریٹی نظام فلاپ ہو گیا ہے اور کہیں کوئی اتھارٹی نظر نہیں آتی۔ موجودہ چیف سیکرٹری نے مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لئے نئی حکمتِ عملی بنائی ہے، دیکھیں وہ کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں لیکن اب وزیراعظم کو اس بات کا شدت سے خوف ہے کہ اگر باقی دو سال میں مہنگائی کو ختم نہ کیا گیا تو پی ٹی آئی کے لئے آئندہ مشکلات پیش آئیں گی۔ مہنگائی کیوں نہیں ختم ہو رہی ، اس کی بہت سی وجوہات سامنے آئی ہیں، سب سے اہم وجہ پرائس کو کنٹرول نہ کرنا اور اتھارٹیوں کی عدم دلچسپی ہے۔ بےروزگاری کے خاتمے اور نئی اسامیاں پیدا نہ کرنا بھی اس کی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔وزیراعظم بار بار اس بات کا اعادہ کر رہے ہیں کہ عوام صبر کریں، عوام کتنا صبر کریں؟ وزیراعظم یہ بھی بتا دیں، اب عام آدمی تو کیا اچھی بھلی آمدنی والے خاندانوں کے لئے مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ افراطِ زر پر قابو پانا اتنا مشکل کام نہیں اور نہ ہی بنیادی ضروریات تک عوام کی فراہمی مشکل کام ہے۔ اتوار بازاروں میں بھی ناقص اشیاء فروخت ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ عمران خان کے لئے وقت کم اور کام زیادہ ہیں۔ انہیں سوچنا ہے کہ مہنگائی کے جن کو کیسے قابو میں لانا ہے اور مافیا گروپوں کی ان سبزی منڈیوں، اجناس منڈیوں اور فروٹ منڈیوں سے اجارہ داری کیسے ختم کرنی ہے؟ عوام اب بغیر کسی رکاوٹ کے وزیراعظم پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔ افراطِ زر سے بےشمار مسائل جنم لے رہے ہیں، اُن کو ختم کرنے کے لئے بھی اقدامات ضر وری ہیں۔

تازہ ترین