بیسویں صدی میں جن مفکّرین و دانش وَروں نےاپنی فکر ِاسلامی اور عصری و تہذیبی مسائل و معاملات سے عالمِ اسلام کو بے حد متاثر کیا، دینی فکر و تعلیمات سے قرب پیدا کیا اور اپنے بعد آنے والی نسلوں کے لیےایک مثال قائم کی، اُن میں شاعرِ مشرق علّامہ اقبال سب سے نمایاں اور بر تر نظر آتےہیں، جن کےدیر پا اثرات محدود علاقے یا ہندوستان سے نکل کر دُوردراز ممالک تک بھی مرتّب ہوئے ۔
جب کہ اکیسویں صدی عالم اسلام کے لیے سخت آزمائشوں اور ابتلا کا دَور ثابت ہورہی ہےکہ سارا عالمِ اسلام یا تو مغربی استعمار و استبداد کاشکار رہا ہے یا اپنی ہی غربت و جہالت اور پس ماندگی و قدامت پرستی کے عذاب میں گرفتار۔ گرچہ اٹھارویں اورانیسویں صدی کےبعض مفکّرین و مصلحین کے افکار اور تحریکوں نے عالمِ اسلام میں شعور بیدار کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ ساری کوششیں یا تو محدود،وقتی اثرات کی حامل تھیں یا محض اپنے علاقوں تک محدود اور بے اثر رہیں۔
ہاں، مستثنیات میں محمّد بن عبدالوہاب اور سیّد جمال الدّین افغانی جیسی شخصیات ہیں ، جن کے اثرات کسی مخصوص خطّے تک محدود نہ رہے ،بلکہ ساری ہی مسلم دنیاان کی فکر و تحریک سے متاثر ہوئی۔اسی طرح ہندوستان میں شاہ ولی اللہ اور سید احمد خاں، ایران میں شیخ ہادی نجم آبادی، ترکی میں مدحت پاشا اور فواد پاشا، تیونس میں خیرالدّین پاشا، الجیریا میں امیر عبدالقادر، اور مصر میں مصطفیٰ کامل جیسے مفکّرین اور مصلحین نے فکری و سیاسی بیداری میں بہت مؤثر کردارادا کیا۔
لیکن ان مفکّرین اوردانش وَروں میں ایسے افراد کم ہیں ،جنھوں نے شاہ ولی اللہ کی طرح عقل و دانش کا بھر پور استعمال کیا، تو عشق و تصوّف سے اپنی وابستگی بھی متاثر نہ ہونے دی۔نیز، عقل و عشق کے توازن سے تحریک کو جلا بخشی ، فروغ دیا ، تو ایک دونسلوں بعد تک یا مغرب کے زیرِ اثرمعاشرتی تبدیلیوں کے آنے تک کام یاب بھی رہے۔ سیّد احمد خان بھی گرچہ عقل و دانش ہی سے اپنی تحریک پروان چڑھاتے رہے ،لیکن ان کی خاندانی تربیت اور خود ان کی دل چسپیوں اور تصنیفی سرگرمیوں میں تصوّف کی تعلیمات بھی شامل رہیں۔ یہی صُورت اقبال کی فکر و شاعری میں بھی نمایاںنظر آتی ہے ۔
علّامہ اقبال ،بظاہرایک بیدار ذہن، مدبّر، ممتازشاعر تھے، لیکن فلسفہ ان کا نظامِ فکر ونظر رہاہے اور وہ افکار و نظریات کے لحاظ سے اپنے عہد کے ایک نمایندہ فلسفی تھے۔حکمت و فلسفہ ان کی زندگی اور فکر و دانش پر محیط رہا، حالاں کہ عالم اسلام میں کم ہی اکابر ایسے گزرے ہیں ،جنھیں حُسن و عشق سے بھی لگاؤ تھااور وہ فلسفی اور دانش وَر بھی تھے۔ مولانارُوم ، جو اقبال کے پسندیدہ مفکر و دانش وَر تھے ۔اُن کی شہرت کا ایک سبب ان کی لازوال تخلیق، ’ ’مثنویِ معنوی‘‘ ہے، جو اپنے مطالب اور حکمت و افکار میں’’ ہست قرآن در زبان ِ پہلوی‘‘ کے طور پر معروف و تسلیم شدہ ہے۔
اقبال نے گرچہ اپنے عہد اور ماضی کے متعدّد مفکّروں اور و دانش وَروں کے افکار و خیالات میں دل چسپی لی اور بعض کے افکار و خیالات کو سراہا ، توکسی پر تنقید بھی کی ، لیکن مولانا رُوم ان کے لیے ایک ’’مرشدِ معنوی‘‘ تھے۔ اقبال خود کوان کا نہایت عقیدت مند اور معترف مانتے تھےاور خود سے کسی بھی طور رجوع کرنے والوں کو یہ مشورہ بھی دیتے رہے کہ غزالی اور رُومی اس قابل ہیں کہ انھیں سمجھنے کے لیے انھیں دوبارہ دیکھا جائے۔
اقبال کے لیےمولانا رُوم اس لیے بھی عزیز تر تھے کہ وہ تصوّف میں اس حد تک غلطاں تھے کہ عشق کو عقل سے الگ نہیں بلکہ عقل کی برترقسم قرار دیتے تھے ۔ اس لحاظ سے عقل و عشق مولانا رُوم کے لیے دو الگ تصورات اوردو نظام نہیں بلکہ ایک دوسرے کے دو متوازی پہلو رہے اور اسی طرح ہم اقبال کو بھی فلسفہ و تصوّف دونوں کو بطور وسیلۂ فہم و دانش سمجھ سکتے ہیں۔ بلکہ ان کے مطابق تو؎عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی۔ اس اعتبار سے علّامہ اقبال کا مولانا رُوم کا ہم خیال و ہم فکر ہونا قابلِ فہم ہے۔
اقبال عقل و عشق کا مقابلہ توکرتے، لیکن اگرانھیں رازی اور رُومی کا مقابلہ مقصود ہوتا ، تو وہ رازی کو عقل پرستی کی اور رُومی کو جذب و شوق کی علامت کے طور پر پیش کرتےاور خود کو ان دونوں کی صفات کے ساتھ متصف قراردیتے ، جیسے؎ اسی کشمکش میں گزریں میری زندگی کی راتیں… کبھی سوزوسازِرُومیؔ، کبھی پیچ و تابِ رازیؔ ۔اسی طرح عقل و عشق کی کشمکش کابیان مقصودہوتا ،توبمثلِ ’’جاوید نامہ‘‘ سوال و جواب کا وسیلہ بھی اختیار کرلیتے ۔ مثلاً پہلےخودمولانا رُوم کے سامنے سوال رکھتے ہیں؎ گفتمش موجود و ناموجود چیست…معنی محمود و نامحمود چیست۔جس پر رُومی انھیں جواب دیتے ہیں؎گفت موجود آں کہ می خواہد نمود… آشکارائی تقضائے وجود۔
ساتھ ہی اُن کے پیشِ نظر عشق کی کام یابی بھی ہے، جو رُومی سے منسوب ہے؎نے مہرہ باقی نے مہرہ بازی… جیتا ہے رُومیؔ ہارا ہے رازیؔ۔اقبالؔ،مولانا رُوم سے جو عقیدت و محبّت رکھتے تھے اور اُن کے بارے میں اُن کے جو احساسات و تاثرات تھے ، ان کے لیے اقبال کی ایک معروف نظم ’’رُومی‘ ‘ ہی کافی ہے، جو’’ ضربِ کلیم‘ ‘میں شامل ہے۔ علّامہ اقبال مولانا رُوم کا حوالہ دے کر اُمّتِ مسلمہ سے شکوہ کرتے ہیں کہ یہ اُمت خودی اورنغمۂ رُومی یا عشق سے اب تک بے نیاز ہے؎گسستہ تار ہے تیری خودی کا ساز اب تک…کہ تُو ہے نغمۂ رُومی سے بے نیاز اب تک۔
علّامہ اقبال، مولانا رُوم سے اس وجہ سے بھی زیادہ متاثر تھےکہ وہ عشق و عقل دونوں کے قائل تھے۔انہوں نے حکمت اورعلمِ کلام کے بڑے بڑے مسائل ، بمثلِ توحید، صفاتِ باری، روح، نبوّت، جبر و قدر، اور ارتقا، جیسے موضوعات کو اپنی’’ مثنویِ معنوی‘‘ میں باقاعدہ مباحث کی حیثیت دیتے ہوئے ان پر اپنا خیال یا نظریہ بیان کیا۔
یہ طرزِ کلام و گفتگو محض ایک صوفی کا نہیں ،بلکہ ایک صاحب ِ حکمت ودانش ہی کا ہوسکتا ہے۔ یہی طرزِ کلام خود اقبالؔ کا بھی تھا ۔چناں چہ اس بنیاد پر علّامہ اقبال کا مولانا رُوم کو’ ’مرشد ِرومی ‘‘،’ ’پیرِ حق سرشت،‘‘ ’’پیرِ یزدانی‘‘،’’پیرِ عجم‘‘جیسے القاب سے موسوم کرناپوری طرح قابلِ فہم ہے۔اور پھر خود بھی ان ہی سے متصف ہو کر تسلیم کرتے ہیں کہ ؎ تُو بھی ہے اُسی قافلۂ شوق میں اقبالؔ…جس قافلۂ شوق کا سالار ہے رُومیؔ۔