• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یادِ ماضی بھی عجیب بلا ہے، خصوصاً بچپن کی یادوں کو تو شاید ہی کوئی ”سنہرے دور“ سے تعبیر نہ کرتا ہو۔ چاہے ہمارا بچپن جھگی یا کٹیا میں بسر ہوا ہو لیکن بندہ اس جگہ پہنچ کر یا اس کو یاد کر کے جذباتی ہو جاتا ہے۔ زندگی کے ابتدائی دور کی یہ خوبصورت یادیں انسان کا قبر تک پیچھا نہیں چھوڑتیں کہ
عمر رواں پھر کبھی نہیں مسکرائی بچپن کی طرح
میں نے گڑیا بھی خریدی ، کھلونے بھی لے کر دیکھے
جو وقت ہم نے اپنے بچپن میں دیکھا اور جو عیدیں اس دور میں منائیں، وہ ایک خواب سا لگتا ہے ۔ پتہ نہیں وہ بچپن کی معصومیت تھی یا مہر و وفا اور اخلاص و محبت کی فراوانی، لیکن ایک بات بہرحال طے ہے کہ عیدکی خوشیاں اس طرح مصنوعی اور کمرشل ہر گز نہ تھیں جیسی اب ہیں۔ تب عید نیک و خالص جذبوں سے مزین ایسا تہوار تھا جس میں بچے، بڑے سب حقیقی خوشیاں سمیٹتے تھے۔ خدا معلوم کہ وہ مسرت و شادمانی کی پینگیں اور جھولے کہاں گئے جن کا اہتمام خصوصی طور پر کیا جاتا اور جو عید کی پہچان تھے۔ خالص دیسی گھی اور گڑ میں پکے حلوے اور خالص محبتوں کے امین ،محبتوں کے جھولے جھولتے قصہٴ پارینہ ہو چکے اور اب باقی# صدیقی کے الفاظ میں #”نہ او پینگاں ، نہ او جھُوٹے/ نہ او گھمرے گھمرے بُوٹے / نہ او گُوڑی چھاں/ اے نئیں مینڈا گِراں“۔ہمارے چند گھر گاؤں سے باہر کھلی جگہ پر سڑک کے قریب واقع تھے۔ خاموش اور پُرسکون ماحول میں چاروں طرف لہلہاتے کھیت اور دور کہیں آسمان جھک کر زمین سے گلے ملتا نظر آتا۔ بلکسر کے سرکاری ریسٹ ہاؤس کی قربت کی وجہ سے ہمارے گھروں کو ”ڈھوک بنگلہ“ کہا جاتا تھا مگر اب یہ ڈھوک نہیں رہی، کمرشل علاقہ بن گیا ہے ۔ یہاں اب کوئل نہیں کوکتی، گاڑیوں کے پریشر ہارن کان پھاڑتے ہیں۔ اب ادھر فاختائیں میٹھے گیت نہیں گاتیں، مارکیٹوں میں ہجوم اور میوزک شور کرتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اب بھی یہاں طلوع سحر کے سحر انگیز ماحول میں چڑیاں چہچہاتی ہوں لیکن اتنی صبح جاگنے کی روایت کہاں رہی ہے؟ یہ بھی ممکن ہے کہ فاختائیں اب بھی امن کے وہی سریلے گیت گاتی ہوں مگر وہ چنگھاڑتے لاؤڈ اسپیکروں اور ٹریفک کے بے ہنگم شور میں دب جاتے ہوں۔ اگر کبھی وہ دلفریب سناٹا میسر آئے تو معلوم ہو کہ کوئلیں اب بھی یہاں کوکتی ہیں یا ماحول کی آلودگی اور مصنوعی پن سے گھبرا کر کوچ کر گئی ہیں؟ یہاں تو اب آبادی کا یہ عالم ہے کہ گرمیوں کی دوپہروں میں تاحدِ نظر پھیلی زمینوں پر سراب کا نظارہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ سڑکوں کے دونوں اطراف گھنے اشجار کٹ کر ان پیٹوں کا ایندھن بن چکے ہیں جو کبھی بھرتے ہی نہیں۔کھیتوں میں لسی اور مکھن کے ساتھ ”لنچ“ کرنے کا رواج بھی مفقود ہو گیا ہے ۔ اب تو مشینیں آتی ہیں اور آناً فاناً مٹی کا حسن گہنا کر اور فصلوں کا کام تمام کر کے چلی جاتی ہیں۔ ہل، پنجالی، درانتی، چکی ، چھِکا ،گھڑونجی، کانس، گہی، چرخہ ،گرمالہ، ویلنا، ڈھیرنا، پینجا اور نہ جانے کتنے ہی آلات جو ہم ایسے چھوٹے زمینداروں کی سادہ سی زندگی کا جزولاینفک تھے، خواب و خیال ہوئے اور ان کی جگہ احساس مروت کو کچلنے والے آلات نے لے لی۔ ہم نے ہر صبح چرخے کی آواز پر آنکھ کھولی مگر اپنے بچوں کو چرخہ دکھانے لوک ورثہ میوزیم لے جانا پڑا…اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اب تو چیت میں چاند کے حسن کا نظارہ کرنے آبادی سے جتنا مرضی دور چلے جائیں مگر ماحولیاتی اور اخلاقی آلودگی کے سبب اس چاندنی میں وہ ٹھنڈک ہے اور نہ چاند ہم سے ہمکلام ہوتا ہے ۔
زندگی بہت سی بنیادی ضرورتوں سے یکسر محروم تھی ۔ بجلی بھی نہیں تھی مگر زندگی اخلاقی قدروں سے منور تھی ۔ سردیوں میں کچی بیٹھک کے اندر آگ کے الاؤ میں وارث شاہ کا دلوں کے تار چھیڑتا کلام اور گرمیوں میں بیٹھک کے صحن میں چاند کی روشنی میں سیف الملوک کے اشعار۔ اکثر لوگوں کو یہ عارفانہ کلام ان پڑھ ہونے کے باوجود ازبر تھے، جو وہ میلوں ٹھیلوں میں عالم لوہار اور دوسرے فنکاروں کو سن کر یاد کرتے۔ مگر یہ تب کی بات ہے جب ”غنڈی رن“،”میڈم دیہاڑی باز“اور ”حسینہ زیرو میٹر“ جیسی فلمیں نہیں بنتی تھیں۔ ہمیں کوئی ایسی شام یاد نہیں جب ہمارے ڈیرے پر کوئی مہمان نہ ہو۔ ان میں ذاتی مہمانوں کے علاوہ غریب پھیری والوں سے لے کر مویشیوں کے بیوپاری اور دوسرے مسافر بھی شامل تھے۔ وسائل محدود مگر دل کشادہ۔ ہم نے کبھی مہمانوں کی خاطر مدارت کرتے اپنے بڑوں کے ماتھے پر بل نہ دیکھے۔ روپے پیسے کی ریل پیل نہ تھی اور زندگیوں میں اس کا عمل دخل بھی کم تھا۔ گندم کی فصل اٹھاتے ہی تمام دستکاروں کو حصہ بقدر جثہ دے دیا جاتا اور سب کی زندگی کی گاڑی اسی سے چلتی۔ حتیٰ کہ دکان سے سودا سلف بھی گندم کے عوض خریدا جاتا۔ سارا گاؤں بلا تفریق دوسروں کے غم اور خوشی میں شریک ہوتا تھا۔ عیدیں سادہ ہوتیں مگر پیارو محبت میں گندھی یادیں چھوڑ جاتیں۔ یہ روایات ہمارے گاؤں تک محدود نہ تھیں بلکہ تمام دیہاتوں کا خاصا تھیں۔
یہ قدریں اور وضع داریاں نسل در نسل منتقل ہوتی چلی آرہی تھیں پھر نہ جانے کیا ہوا؟ کب اور کس نے حالات کی سنگینی کا بیج بویا؟ خواہشات اور دولت کیلئے ہونیوالی ”میرا تھن“ نے سانسوں میں چنگاریاں بھر دیں۔ اخلاقی قدریں ہلنی شروع ہوئیں تو زمیں بوس ہوکر ہی رہیں ۔جو باہمی محبتیں کچے گھروں کا خاصا تھیں وہ پختہ مکانوں میں آ کر ناپید ہو گئیں۔ جن چہروں پر اطمینان اور قناعت پسندی کی خنک چاندنی بکھری تھی، ان پر حرص و ہوس کی چمگادڑیں لٹکنے لگیں ۔ نفس فربہ ہوئے تو دل سکڑنے لگے۔ ہم نے عارضی لمحاتی فوائد کی تاک میں اپنی بے مثال مروت و رواداری کچل ڈالی۔ شرافت و وضع داری کی جگہ دھن دولت وجہ عزو شرف اور فرقہ وارانہ جہالت ہماری پہچان ٹھہری ۔محبتوں کے نصابوں کی جگہ دشنہ و خنجر جیسی زبانوں نے لے لی۔ گھنے درختوں کی مہربان چھائیں کیا روٹھیں کہ چور قطب اور رہزن رہبر بن گئے ۔ حرام و حلال کی تمیز یوں ختم ہوئی کہ اب جہالت میں عظمت اور حرام میں برکت ہے ۔ کوّے یوں ہنس کی چال چلے کہ ہم ان ورثوں کے امین بن بیٹھے جو سرے سے ہمارے ورثے ہیں ہی نہیں۔ قناعت کی دولت سے تہی ہوئے کتنے ہی سال بیت گئے مگر دولت ہاتھ آئی نہ سکون میسر آیا۔ موضوع سخن عید کا تہوار تھا لیکن ہم اپنی کم عملی کی بنا پر بھٹک گئے اور عنوان سے انصاف کر سکے نہ اپنا مافی الضمیر موثر طریقے سے بیان کر سکے۔ تاہم ہم نے کالم کے اختتام پر بشیر #بدر کے ان اشعار سے مدد لی ہے
سر سے چادر، بدن سے قبا لے گئی
زندگی ہم فقیروں سے کیا لے گئی
میری مٹھی میں سوکھے ہوئے پھول ہیں
خوشبوؤں کو اڑا کر ہوا لے گئی
تازہ ترین