• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مارکیٹنگ کے شعبے سے تعلق رکھنے والے میرے طلباء قارئین نے مجھے ڈائریکٹ سیلنگ جو دنیا میں سیلز کا سب سے پرانا طریقہ ہے اور اب دوبارہ تیزی سے فروغ پارہا ہے، پر کالم لکھنے کی درخواست کی۔ آج کے دور میں معیشت اور تجارت کے جدید طریقے اور ضابطے دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک میں اختیار کئے جارہے ہیں جن میں سے ایک ’’ڈائریکٹ سیلنگ‘‘ہے۔ ڈائریکٹ سیلنگ میں مصنوعات شورومز کے بجائے براہ راست صارفین کو ان کے گھروں یا دفاتر میں سپلائی کی جاتی ہیں۔ ڈائریکٹ سیلز میں مڈل مین کا کردار نہیں ہوتا اور کم مارکیٹنگ لاگت کی وجہ سے مصنوعات رعایتی قیمتوں پر فروخت کی جاتی ہیں جس کا براہ راست فائدہ صارف کو ہوتا ہے۔ ڈائریکٹ سیلز کا بزنس آپ اپنے گھر یا کسی بھی جگہ سے کرسکتے ہیں کیونکہ اس میں ذاتی طور پر صارفین کو مصنوعات کے بارے میں بتاکر آرڈر بک کئے جاتے ہیں۔
دنیا میں ڈائریکٹ سیلنگ ایسوسی ایشن کا قیام 1910ء میں عمل میں لایا گیا جس کا ہیڈ کوارٹر واشنگٹن میں ہے اور اس کے 200 سے زائد ممالک ممبرز ہیں۔ ایسوسی ایشن کے اغراض و مقاصد میں ڈائریکٹ سیلنگ کمپنیوں اور ان کے صارفین کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ ورلڈ فیڈریشن آف ڈائریکٹ سیلنگ ایسوسی ایشن (WFDSA) کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا میں ڈائریکٹ سیلز کا بزنس 114 ارب ڈالر ہے، اس کے 59 ریجنل ممبران اور تقریباً 62 ملین سیلز نمائندے اس بزنس سے وابستہ ہیں۔ ڈائریکٹ سیلز مصنوعات میں زیادہ تر ہیلتھ کیئر، فوڈ سپلیمنٹ اور کاسمیٹکس مصنوعات مقبول ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ ڈائریکٹ سیلز بزنس امریکہ میں 34 ارب ڈالر ہے اور تقریباً ڈیڑھ کروڑ افراد ڈائریکٹ سیلنگ کی صنعت سے وابستہ ہیں۔ ایک سروے کے مطابق امریکی آبادی کے 55% سے زائد افراد ڈائریکٹ سیلنگ سے استفادہ کررہے ہیں جبکہ بھارت میں یہ بزنس 140 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے جس میں کاسمیٹکس اور ہیلتھ کیئر مصنوعات سپلائی کرنے والی کمپنی ایم وے انڈیا کا شیئر 30%ہے۔ بھارت میں یہ بزنس 20% سالانہ کی شرح سے فروغ پارہا ہے۔ 2012ء میں بھارتی حکومت نے ڈائریکٹ سیلنگ سے 821 کروڑ روپے ٹیکس وصول کیا تھا۔ پاکستان کا اگر بھارت سے موازنہ کیا جائے تو ڈائریکٹ سیلنگ میں پاکستان بہت پیچھے ہے۔
دنیا میں ڈائریکٹ سیلز کے بزنس کا جائزہ لینے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ حال ہی میں دنیا میں ڈائریکٹ سیلز بزنس میں کچھ ممالک میں اضافہ اور کچھ میں کمی ہوئی ہے۔ 2015ء میں فرانس، بھارت، ملائیشیا، فلپائن، ترکی، متحدہ عرب امارات، ویت نام، برطانیہ اور امریکہ میں ڈائریکٹ سیلز بزنس میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جبکہ اسی دورانیے میں جاپان، چین، انڈونیشیا اور سعودی عرب میں ڈائریکٹ سیلز بزنس میں کمی آئی ہے۔ ڈائریکٹ سیلنگ نیوز 2015ء کی رپورٹ کے مطابق دنیا کی 10 سرفہرست ڈائریکٹ سیلز کرنے والی کمپنیوں میں پہلے نمبر ایم وے (Amway) ہے جس کی ڈائریکٹ سیلز 11 بلین ڈالر، دوسرے نمبر ایوون (Avon) 9 بلین ڈالر، تیسرے نمبر ہربالائف (Herbalife) 5 بلین ڈالر، چوتھے نمبر میری کے (Mary Kay) 4 بلین ڈالر، پانچویں نمبر وورورک (Vorwerk) 3.9 بلین ڈالر، چھٹے نمبر ناٹورا (Natura) 3.2 بلین ڈالر، ساتویں نمبر انفی نیٹس (Infinitus) 2.64 بلین ڈالر، آٹھویں نمبر ٹوپرویئر (Tupperware) 2.6 بلین ڈالر، نویں نمبر نیو اسکن انٹرپرائزز (NuSkin Entp) 2.57 بلین ڈالر اور دسویں نمبر جومین (Joymain) کی سیلز 2 بلین ڈالر ہے۔
پاکستان میں اس وقت صرف 24 ڈائریکٹ سیلنگ کمپنیاں کام کررہی ہیں جن میں سے 7 کمپنیاں لاہور اور ایک کمپنی کراچی میں رجسٹرڈ ہے۔یہ کمپنیاںکاسمیٹکس، شوز، فوڈ سپلیمنٹ جیسی مصنوعات ڈیل کرتی ہیںلیکن اُنہیں کسی قسم کا تحفظ یا پلیٹ فارم میسر نہیں۔ حال ہی میں ڈائریکٹ سیلنگ ایسوسی ایشن آف پاکستان (DSAP) کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جو براہ راست فروخت کی جانے والی اشیاء اور خدمات فراہم کرنے والی کمپنیوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ ایسوسی ایشن ڈائریکٹ سیلنگ کے کاروبار سے منسلک اداروں، افراد اور صارفین کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ڈائریکٹ سیلنگ کے کاروبار کو پاکستان میں فروغ کیلئے معاونت بھی فراہم کرے گی۔ اس کے علاوہ ایسوسی ایشن کا مقصد ملک میں صارفین کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانا اور جعلی و غیر معیاری مصنوعات فراہم کرنے والی کمپنیوں کے خلاف مختلف فورم سے ایکشن لے کر اُنہیں پاکستان میں کاروبار کرنے سے روکنا بھی ہے۔ ایسوسی ایشن کے صدر انیس احمد مرچنٹ اور برانڈ فائونڈیشن کے چیئرمین شیخ راشد عالم نے فیڈریشن میں اپنی ایسوسی ایشن کی باضابطہ رجسٹریشن اور فیڈریشن کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے ڈائریکٹ سیلز تشکیل دینے کیلئے مجھ سے ملاقات کی۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ اس وقت پاکستان میں ڈائریکٹ سیلز کا بزنس بغیر کسی قانونی ضابطے کے ہورہا ہے جس میں صارفین کو کوئی تحفظ حاصل نہیں۔ ہم پہلی بار ڈائریکٹ سیلنگ سے وابستہ اداروں اور صارفین کے حقوق کے تحفظ کیلئے ایک پلیٹ فارم پر باضابطہ طور پر جمع ہوئے ہیں اور ان کی ایسوسی ایشن پاکستان میں کسی بھی ڈائریکٹ سیلنگ کمپنی کی جعلی انعامی اسکیموں یا غیر معیاری مصنوعات کی تشہیر سے ان کی اشیاء کی فروخت کی روک تھام کرے گی۔
ڈائریکٹ سیلنگ ایسوسی ایشن آف پاکستان (DSAP) کے مطابق اس وقت پاکستان میں ڈائریکٹ سیلنگ کمپنیوں کے اربوں روپے کے بزنس سے سالانہ تقریباً ایک ارب روپے کسٹم ڈیوٹی اور مختلف ٹیکسز کی مد میں وصول کئے جاتے ہیں۔ ان مصنوعات کی امپورٹ پر تقریباً 30% کسٹم ڈیوٹی اور 21% جنرل سیلز ٹیکس لاگو ہے جبکہ سیلز نمائندوں کو ملنے والے کمیشن پر 15% ودہولڈنگ ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں ڈائریکٹ سیلنگ بزنس سے تقریباً 25 لاکھ ڈسٹری بیوٹرز اور سیلز نمائندے منسلک ہیں جن میں زیادہ تر کمیشن پر کام کرتے ہیں۔ ان اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مستقبل میں ڈائریکٹ سیلنگ بزنس میں بے انتہا پوٹینشل موجود ہے جو نہ صرف طالبعلموں اور گھریلو خواتین کو باعزت روزگار فراہم کرکے ان کی آمدنی کا ذریعہ بن رہا ہے بلکہ اس سے قومی خزانے کو بھی ٹیکسز اور کسٹم ڈیوٹی کی مد میں اربوں روپے کا ریونیو حاصل ہورہا ہے لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت ڈائریکٹ سیلنگ بزنس کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے باضابطہ طور پر اس بزنس کیلئے ریگولیٹری اتھارٹی کا قیام عمل میں لائے۔ اس کے ساتھ ساتھ سیکورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان، ڈائریکٹر جنرل ٹریڈ آرڈیننس اور فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز سے میری درخواست ہے کہ وہ ڈائریکٹ سیلنگ ایسوسی ایشن آف پاکستان کو رجسٹرڈ کرکے ڈائریکٹ سیلنگ صارفین کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے ایک باضابطہ پلیٹ فارم فراہم کرے۔
تازہ ترین