رواں برس آٹھ نومبر کا دن پاکستان میں بسنے والی محب وطن غیرمسلم اقلیتی کمیونٹی بالخصوص ہندو برادری کیلئے ہر لحاظ سے تاریخی قرار دیا جاسکتا ہے جب ایک طویل پرامن جدوجہد کے نتیجے میں مالک نے اپنے بندوں پر خاص کرم فرمایا اور شرپسند طاقتوں کو شکست دے کر حق و انصاف کا بول بالاہوگیا۔ میں اپنے گزشتہ کالم میں یہ واضح کرچکا ہوں کہ ہندو دھرم کا بڑا تہوار دیوالی شری رام کی اپنی پتنی سیتا اور بھائی لکشمن کی ایودھیا واپسی کی خوشی میں منایا جاتا ہے، وہ چودہ سال بعد لنکا کے طاقتور راجا راون کو شکست دینے کے بعد گھر لوٹے تھے، ان کی واپسی کی خوشی میں پورے علاقے میں جشن منایا گیا تھا ۔ دنیا کے ہرقدیمی تہوار کی طرح ہندومت کا یہ تہوار بھی ایک مثبت پیغام اجاگر کرتا ہے کہ ظلم و زیادتی اور مایوسی کی اندھیری رات کتنی ہی گہری کیوں نہ ہو، ایک نہ ایک دن ختم ہو جاتی ہے اور روشنی کی ایک کرن اندھیرے کا خاتمہ کردیتی ہے۔ تاہم پاکستان میں رواں برس دیوالی کا تہوارحقیقت میں اندھیروں کے خاتمے کا باعث بن گیا جب صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع کرک کے علاقے ٹیری میں واقع ایک انسان دوست ہندو شخصیت شری پرم ہنس جی مہاراج کی سمادھی ایک طویل عرصے بعد روشنیوں سے جگمگا اٹھی۔ٹیری میں دیوالی کے موقع پر روشنی کا تہوار منانا کوئی آسان کام نہ تھابلکہ اس کے پس منظر میں ایک طویل انتھک جدوجہد تھی جس میں میرا ساتھ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ، میڈیا اور سول سوسائٹی اور سب سے بڑھ کر علاقے کی مقامی آبادی نے دیا، انہوں نے میرے اس موقف کی حمایت کی کہ قائداعظم کے وژن اور آئین پاکستان کے تحت غیرمسلم اقلیتی کمیونٹی کو اپنی مرضی سے زندگی بسر کرنے کی مکمل آزادی یقینی بنانی چاہئے۔سپریم کورٹ نے ہمیشہ پاکستان کی محب وطن اقلیتی کمیونٹی کے حقوق کی دادرسی کیلئے مثبت کردار ادا کیا ہے،معززچیف جسٹس آف پاکستان جناب گلزار احمد نے ہندو کمیونٹی کے ساتھ دیوالی کو خوشیوں میں شریک ہوکرملک بھر کے پِسے ہوئے عوام کے دِل جیت لئے ہیں،آج اقلیتی کمیونٹی کو یقین ہوچلا ہے کہ پاکستان میں آئین کی بالادستی کیلئے ہرممکن قدم اٹھایا جائے گااور ملک و قوم کو چند ایسے شرپسند عناصر کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا جن کا مقصد اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے نفرتوں کو پروان چڑھانا ہے، ریاست کی نظر میں تمام شہری آئینی طور پر مساوی حقوق رکھتے ہیں اور ریاست کے اعلیٰ ترین ادارے شرپسندی کے خاتمے کیلئے پُرعزم ہیں۔میں جب آٹھ نومبر کو ٹیری مندر میں شری پرم ہنس جی مہاراج کی سمادھی پرحاضر ی دے رہا تھا تومجھے ایسا محسوس ہونے لگا کہ میں آج سے سو سال قبل کے زمانے میں پہنچ گیا ہوں جب یہاں شری مہاراج کے آشرم پر ہر وقت انسانوں کا رش ہوا کرتا تھا۔ شری پرم ہنس جی مہاراج ایک خداترس نیک شخص تھے جو کسی بھی قسم کے تعصب سے بالاتر ہوکر صرف انسانیت کی خدمت پر یقین رکھتے تھے،ان کو ماننے والوں کا تعلق مختلف مذاہب سے ہے، وہ حافظ قرآن بھی تھے،انہوں نے برصغیر کے مختلف حصوں میں کرشن دوارا مندر /آشرم قائم کئے، تاہم شری مہاراج کوخصوصی محبت موجودہ پاکستان کے علاقے ٹیری میں بسنے والوں سے تھی، وہ جولائی1919ء میںدارِ فانی سے کوچ کرگئے تو یہیں ان کے آشرم کے احاطے میں ان کی سمادھی قائم کردی گئی، انگریز کے جانے کے وقت برصغیر میں خوف و ہراس کا ماحول پیدا ہوا تو مقامی ہندو آبادی یہاں سے ہجرت کر گئی لیکن ان کی سمادھی پر پھر بھی لوگ اپنی عقید ت کا اظہار دیے جلاکر کرتے رہے۔پھر 1997 میں یہاں مقامی مذہبی گروہ کی جانب سے قبضہ کرلیا گیا۔ ایک طویل قانونی جنگ کے بعد سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق سمادھی کو بحال کرانے کی کوششیں رنگ لانے لگیں تو گزشتہ برس 31دسمبر2020ء کو ایک متشدد ہجوم نے یہاں دھاوا بول دیا، شدت پسندوں نے اس مقدس مقام کا تقدس مجروح کرتے ہوئے سمادھی کو مسمار کرکے علاقے میں ایک مرتبہ پھر خوف و ہراس کی فضا قائم کردی۔میں شکرگزار ہوں جناب چیف جسٹس گلزار احمد کا جنہوں نے فوری طور پر اس قابلِ مذمت واقعے کا نوٹس لیا او ر ذمہ داران کو قانون کے کٹہرے میں لانے کے احکامات صادر فرمائے، اس نفرت انگیز واقعے کی مذمت کرنے کیلئے مقامی لوگوں نے بھی مجھ سے رابطہ کرکے افسوس کا اظہار کیا۔آج سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت شری پرم ہنس جی مہاراج کی سمادھی /کرشن دوارامندر نہ صرف مکمل طور پر بحال ہوچکی ہے بلکہ یہاں کی مقامی آبادی ہندو یاتریوں کی آمد سے بہت خوش ہے، ہم جب دیوالی منانے ٹیری پہنچے تو مقامی لوگوں کی جانب سے ہمارا پرتپاک خیرمقدم کیا گیا،انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ ہندو یاتری علاقے کی ترقی و خوشحالی میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے،وہ جانتے ہیں کہ شری پرم ہنس جی مہاراج کے ماننے والے پاکستان سمیت دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں اور فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ میں نے چیف جسٹس صاحب کی موجودگی میں اپنی تقریر میں مقامی آبادی کو درپیش مسائل اجاگر کئے، میں سمجھتا ہوں کہ کرک کے عوام کو بنیادی سہولتوں سے محروم رکھنا بہت ناانصافی ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)