• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افسانہ مہر، کراچی

’’اقبال بڑا اُپدیشک ہے ،مَن باتوں میں موہ لیتا ہے…گفتارکا یہ غازی تو بنا ،کردار کا غازی بن نہ سکا۔امّی اس شعر کا مطلب بتا دیں۔اللہ! کتنا مشکل شعر ہے، جب مجھے مطلب ہی سمجھ نہیں آرہا، تو تشریح کیسے لکھوں ۔‘‘فاروق نےبا آوازِ بلند شعر پڑھتے ہوئے کہا۔’’بیٹا! یہ علّامہ اقبال کا شعر ہے اور تمہیں اس لیے مشکل لگ رہا ہے کہ اس میں اُردو کے علاوہ فارسی اور ہندی کے الفاظ بھی موجود ہیں۔‘‘ صابرہ نےمٹر چھیلتے ہوئے جواب دیا۔ 

’’پہلےایسا کرو،جاؤ اردولغت لے کر آؤ اور جن الفاظ کے معنی سمجھ نہیں آرہے، وہ تلاش کرو، پھر مَیں تمہیں اس شعر کا مطلب سمجھاؤں گی۔‘‘ ’’امّی…!!‘‘ ’’اب کیا ہوا؟‘‘صابرہ نے فاروق کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ’’آپ کو پتا ہے ناں کہ مجھے لغت دیکھنی نہیں آتی۔ مَیں لغت لے آتا ہوں ، آپ دیکھ کر بتادیں پلیز، پلیز!!‘‘ فاروق نے لاڈ سے کہا تو صابرہ بھی ساراکام چھوڑ کر کچن میں گئی، ہاتھ دھوئے اور بچّوں کے پاس آگئی۔’’دیکھو ،اُپدیشک کا مطلب ہے نصیحت کرنے والا، سمجھانے والا ۔

جیسے استاد بچّوں کو سکھاتے، سمجھاتے ہیں۔ اسی طرح لوگوں کو سمجھانے والے کو واعظ بھی کہہ سکتے ہیں اور ’’اُپدیشک ‘‘بھی۔‘‘ صابرہ نے معنی پڑھتے ہوئے مزید وضاحت کی ۔ یعنی مَیں یہ لکھ دوں کہ علّامہ اقبال خود کو ایسا واعظ کہہ رہے ہیں، جو باتوں سے لوگوں کا دل جیت لیتے ہیں۔ لیکن وہ خود کو صرف زبان کا غازی کہہ رہے ہیں کہ عمل سے واعظ نہیں بن سکے۔‘‘ فاروق نے اپنے الفاظ میں تشریح کی۔’’مگر امّی !غازی تو جنگ جیت کے آنے والے کو کہتے ہیں ناں؟‘‘فاروق کے برابر بیٹھی انابیہ بولی ۔ ’’ بیٹا! غازی کا مطلب لڑجانے والا ، جنگ جُو یا بہادر ہوتا ہے۔‘‘

’’بھئی! تم لوگ ذرا دھیمی آواز میں بحث کرلویا کمرے میں چلے جاؤ ، مجھے خبریں سننی ہیں ۔‘‘ سرفراز احمد ذرا بلند آواز سے بولے اور تھوڑی دیر میں لاؤنج میں خبروں کی آواز گونج رہی تھی۔ ’’ہماری زمین پر نہ جانے کتنے برس سےطاقت وَر مافیا نے قبضہ کیا ہوا ہے، ہم نے عدالتوں میں کیس بھی کیے، مگر صرف تاریخ پہ تاریخ ہی ملتی رہتی ہے۔ اعلیٰ عدلیہ نوٹس ہی نہیں لیتی۔ ہم نے ساری عمر کی جمع پونجی اس پلاٹ پر لگا دی تھی کہ بڑھاپا سکون سے گزرے گا، لیکن اب بڑھاپے میں عدالتوں کے دھکّے کھا رہے ہیں، کہیں کوئی سنوائی نہیں ۔‘‘ 

یہ خبر ختم ہوئی تو کراچی کے نسلہ ٹاور کے رہایشیوں کا احتجاج دکھایا جانے لگا، جہاں مکین عدلیہ کے عمارت گرائے جانے کےفیصلے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ ’’ہمارا گھر گرایا گیا ،تو ہم بھی اسی ملبے میں دفن ہو جائیں گے۔‘‘ پچاس سالہ شخص اپنی بدحالی کی داستان سُنا رہا تھا۔’’ حکومت کو اس زمین کی لیز کا خیال اُس وقت کیوں نہیں آیا، جب ٹھیکے دار یہاں بکنگ کر رہا تھا، یہاں بنیادیں کھودی جارہی تھیں ، تب حکومت اور حکومت کے کارندے کہاں مرے ہوئے تھے۔ اب تمام لٹیرے اور بڑے گِدھ عوام کو نوچ چُکے اور سارا مال لے اڑے، تو حکومت اور عدلیہ جاگی ہے اور مظلوم عوام پر بلڈوزر چلا نے آگئی۔

مَیں مُلک سے باہر نوکری کرتا ہوں، مَیں نے حکومت کی اپیل پر پاکستان میں اپنا سرمایہ لگایا تھا، تب تو بیرونِ مُلک پاکستانیوں سے بڑی ہم دردی تھی، اب میرا ڈیڑھ کروڑ اپارٹمنٹ پر لگ گیا، فیملی یہاں رہنے لگی،تو اسے گرانے کا حکم دے رہے ہیں۔ مَیں پوچھتا ہوں، ہمارے ساتھ یہ دھوکا کیوں کیا گیا۔ ہم اربابِ اختیار سے احتجاج کرتے ہیں کہ ہمیں ہمارا مال واپس دلوائیں۔‘‘ عمارت کا رہایشی نوجوان غصّے سے آگ بگولا ہو رہا تھا۔

’’اللہ غارت کرےانہیں، نہ جانے کیسے حکم ران اور منصفین ہم پر مسلّط ہوگئے ہیں ۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں، جن کی زمینوں پر قبضے ہوئے ہیں، جو رو رو کر التجائیں کر رہے ہیں کہ ہمارے خون پسینے کی کمائی ، زمین پر سے قبضہ چھڑوایا جائے، لیکن ان کی کوئی سنوائی نہیں ہو رہی، تو دوسری جانب بنی بنائی، آباد عمارت کو بم سے گرانے کے احکامات جاری ہو رہے ہیں۔ اللہ ہی پوچھے گا ان ظالموں سے، جب عمارتیں تعمیر ہو رہی ہوتی ہیں، تب تو کوئی نوٹس جاری ہوتا ہے، نہ ایکشن لیا جاتا ہے اور جب عوام کا پیسا لگ جاتا ہے تو انہیں قانون اور تجاوزات یا دآتی ہیں۔ 

پتا نہیں شرم سے ڈوب کیوں نہیں مرتے یہ لوگ، اللہ کو کیا جواب دیں گے۔ عوام سے کہتے ہیں کہ ہم تمہار ے مخلص ہیں اور دیکھو، ہر عمل ظالمانہ ہے ۔مَیں تو کہتی ہوں یہی انقلاب کا وقت ہے، عوام کو ظالموں کے خلاف ایک ہوجانا چاہیے۔‘‘صابرہ خبریں سُن کر انتہائی جذباتی ہوگئی۔ انابیہ اور فاروق بھی ماں کا درد بھرا لہجہ محسوس کرتے ہوئے ، چُپ چاپ انہیں دیکھے جا رہے تھے۔ ’’اُف خدایا…!! کیا ہو رہا ہے ہمارے اس مُلک میں۔

یہ سرزمین تو ’’اندھیر نگری ،چوپٹ راج کی تصویر بن گئی ہے ۔‘‘کوئی اس ظلم کے خلاف آواز کیوں نہیں اٹھاتا؟‘‘ صابرہ نے سرفراز کی طرف دیکھتے ہوئے سوالیہ انداز میں کہا۔’’بھئی ،مَیں تو اپنے حصّے کا کام کر آیا ہوں۔ ‘‘ سرفراز احمد نے جواب دیا۔’’ کیا کرآئے ہیں آپ؟‘‘ صابرہ نے متجسّس لہجے میں پوچھا۔ مَیں آج سارا دن ان مکینوں کے احتجاجی جلسے میں شریک رہا۔‘‘ سرفراز بولے۔’’الحمدُ للہ کہ آپ نےحق کا ساتھی دیا، مگر افسوس یہ ہے کہ یہاں دوسروں کی مدد کو صرف چند ہی لوگ کھڑے ہوتے ہیں ۔

اکثر لوگ ’’کون سا ہماراگھر گرایا جارہا ہےیا ہمارا پیسا تو محفوظ ہے‘‘ سوچ کر دھیان ہی نہیں دیتے۔ اور جو سیاسی جماعتیں ساتھ دےرہی ہیں، انہیں بھی صرف اپنا مفادہی پیارا ہے، گفتار کےغازیوں کی تو ایک فوج ہے، ہمارے مُلک میں ، لیکن عملاً کچھ نہیں ہوتا۔ ہم میں اتّحاد نہیں ہے، اگر الٰہ دین شاپنگ مال کی دُکانیں گرائے جاتے وقت ہی شہر بھر میں بھر پور احتجاج ہوتا،تو آج یہ نوبت نہ آتی۔ قبضہ مافیا کے خلاف تو حکومت یا عدلیہ اس قدر متحرّک نظر نہیں آتی،تو لوگوں کو بے گھر اور بے روزگار کرنےکے لیے سب ایک کیوں ہوجاتے ہیں۔ اسی لیے عوام ہر ایک سے بد دِل ہوگئے ہیں۔ 

آج اکثریت کسی پہ بھروسا نہیں کر تی۔ ‘‘ ’’لیکن ان معصوم شہریوں کی داد رسی کی کوئی تو سبیل ضرور نکالنی چاہیے۔ ہر شخص، اپنے حاکم سے اُمید باندھ کر ہی کاروبار اور پراپرٹی پہ حلال کمائی لگاتا ہے ۔ لیکن اگر حاکم ہی ساتھ نہ دیں، توکیا ، کیاجائے ؟‘‘ سرفراز احمد نےایک سرد آہ بھرتے ہوئے کہا تو صابرہ بھی آہ بھرتے ہوئے بچّوں کو پڑھانے چلی گئی۔ مگر دل میں علّامہ اقبال کاشعر کچھ ردّو بدل کے ساتھ گونج رہا تھا کہ ؎ ’’حاکم‘‘ بڑا اُپدیشک ہے،مَن باتوں میں موہ لیتا ہے… گفتار کا یہ غازی تو بنا ،کردار کا غازی بن نہ سکا۔

تازہ ترین