پاکستان بڑی جدوجہد اورقربانیوں سے حاصل کیا گیا لیکن بدقسمتی سے آزادی کے ابتدائی ایام سے ہی ایسے جاگیردار خاندانوں نے اقتدار کے ایوانوں تک رسائی حاصل کرلی جن کی اکثریت نے دل سے پاکستان کو قبول نہیں کیا تھا ۔ قیام پاکستان کے چند برس بعد سیاسی بصیرت سے مشرقی پاکستان میں جاگیردارانہ نظام ختم کردیا گیا لیکن مغربی پاکستان (جو اب پورا پاکستان ہے) میں موجود رہا۔ ان جاگیردار خاندانوں میں اچھے لوگ بھی ہیں لیکن زیادہ تر ایسے ہیں جنہوں نے اپنے بے پناہ اثرورسوخ اور طاقت سے جمہوریت کو کسی نہ کسی شکل میں اپنی باندی بنا لیا اور آمریت کی پرورش کرتے رہے۔ زیادہ تر یہی لوگ اقتدار کے ایوانوں میں موجود رہے۔ ان کے بغیر حکومت چلانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ حکومتوں کی تبدیلی میں بھی انہی خاندانوں کا بنیادی کردار رہا ہے۔ پاکستان میں ایک بار پھر حکومت کی تبدیلی کی باتیں ہورہی ہیں اور عوام و خواص کی نظریں انہی خاندانوں پر مرکوز ہیں۔ ماضی میں جمہوری حکومتوں کو غیر جمہوری طریقوں سے ہٹا یا جاتا رہا ہے۔ ہماری اس سوچ کے سبب ملک میں سیاسی استحکام نہیں آتا۔ اس معاملے میں کوئی دورائے نہیں ہوسکتیں کہ سیاسی عدم استحکام کی وجہ موروثی جاگیردار ہیں، جن کی مرضی کے بغیر کوئی حکومت چل نہیں سکتی، اقتدار ان کا حق بن چکا ہے ۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے رہبر ورہنما زیادہ تر وہی لوگ ہیں جو پاکستان بننے کے مخالف اور انگریزوں کے وفادار تھے۔ قائداعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کی وفات کے بعد ان لوگوں نے اپنے مفاد کیلئے مسلم لیگ چھوڑ کر راتوں رات ری پبلکن پارٹی کی چھتری تلے پناہ لی۔ غیرسیاسی گورنر جنرل غلام محمد اور صدراسکندر مرزا نے خواجہ ناظم الدین، حسین شہید سہروردی، آئی آئی چندریگر اور فیروز خان نون جیسے تجربہ کار سیاسی وزرائے اعظم تبدیل کئے۔ ایوب خان کی آمریت ہویا ذوالفقار علی بھٹو کی عوامی جمہوریت، جنرل ضیاء الحق کا اسلامی نظام ہو یا جنرل پرویز مشرف کی اعتدال پسند حکومت، بے نظیر بھٹو ہوں یا نواز شریف، یہی خاندان کسی نہ کسی طور اقتدار کے ایوانوں میں رہےاور یہی وہ لوگ ہیں کہ جن کی وجہ سے ملک ترقی کرسکا نہ جمہوریت کو پنپنے کا موقع ملا۔ زیادہ تر یہی لوگ آج کل تبدیلی سرکار کی حکومت میں بھی شریک ہیں۔ اقتدار کی ہوس اور ذاتی مفادات کی بنا پر یہ لوگ جمہوریت سے کھلواڑ کرتے رہے اور جان بوجھ کر عوام کو تعلیمی اور معاشی لحاظ سے پسماندہ رکھا کیونکہ یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ تعلیم کے نتیجے میں عوام میں شعور پیدا ہوگا اور وہ ان کی 75 برس سے جاری لوٹ کھسوٹ کو جان جائیں گے اور اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کرنے لگیں گے۔ جمہوری نظام کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ناخواندہ شہری کا ووٹ ایک برابر ہےناخواندہ ووٹرز کے ووٹ کے ذریعے اکثر ناخواندہ اور نااہل لوگ ایوانوں میں پہنچ جاتے ہیں یہ لوگ ایسی پالیسیوں کی راہ میں دیوار بن جاتے ہیںجن سے ملک میں خواندگی کی شرح بڑھے ووٹروں میں اتنا شعور آجائے کہ وہ مفاد پرستوں کے جھانسے میں نہ آئیں اور ووٹ کی طاقت سے اپنی تقدیر کے فیصلے خود کریں۔ یہ لوگ اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے ہر پارٹی میں اپنے بندے شامل کروا دیتے ہیں۔ اس کا فائدہ انہیں یہ ہوتا ہے کہ جو بھی پارٹی اقتدار میں آئے ان کی خواہشات پوری ہوتی رہتی ہیں۔ جمہوری سسٹم کو سب سے زیادہ نقصان انہی ’’پارٹی بدل خاندانوں‘‘ نے پہنچایا ہے۔ یہ لوگ ہوا کا رخ دیکھ کر اپنا قبلہ تبدیل کرلیتے ہیں۔ قانون بنایا گیا تھا کہ الیکشن میں جیتنے والا کسی دوسری پارٹی میں شامل نہیں ہوسکتا۔ لیکن یہ اتنے طاقتور ہیں کہ اکثر فارورڈ بلاک بنا کر اس قانون سے بھی کھلواڑ کرجاتے ہیں۔ آئین اور قانون کو جب چاہتے ہیں اپنی مرضی و منشا کے مطابق تبدیل کرلیتے ہیں۔ اس کام میں بعض ادارے بھی ان کی بھرپور حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں حقیقی جمہوریت کو مضبوط بنانے کیلئے ایسے اقدامات کئے جائیں جن پر عملدرآمد سے ملک میں حقیقی جمہوری کلچر پروان چڑھے۔ سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ وہ پارٹی بدلنے والوں کی حوصلہ شکنی کریں۔ ملک میں جمہوری اقدار کی پاسداری وقت کی اہم ضرورت ہے، اقتدار پر مخصوص خاندانوں کی اجارہ داری ختم کرنا ہوگی، چہروں کے ساتھ ساتھ مفاد پرستانہ کلچر کو بھی تبدیل کرنے کیلئے اقدامات اُٹھانا ہوں گے، اس کے بغیر ملک میں جمہوریت کامیاب ہوسکتی ہے نہ ہی عوام کی حالت بدل سکتی ہے۔ بقول شاعر
بدلنا ہے تو مے بدلو، نظامِ مے کشی بدلو
وگرنہ ساغرومینا بدل جانے سے کیا ہوگا