• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ اپوزیشن والے بھی بڑے چلاکو ماسے (چالاک لوگ) ہیں۔ ایسی دور کی کوڑی لاتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جائے۔ ووٹ کو عزت دو سے شروع ہوئے تھے، مرشد کے سوا تین سالہ دور میں چھپتے چھپاتے، مختلف پینترے بدلتے، لانگ مارچ، استعفوں کی دھمکیاں دیتے، احتساب کی چکی میں رگڑا کھاتے رہے، کبھی اسٹیبلشمنٹ کیساتھ پنجہ آزمائی کرتے تو کبھی مفاہمت کے سہارے نئی راہیں نکالتے آج مرشد کو اسی کے حصار میں ایسے بند کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ جہاں سے نکلنا بظاہر ممکن نظر نہیںآتا لیکن مرشد اب بھی ڈٹا کھڑا ہے۔

وہ مریدوں سےپھر کہہ رہا ہے گھبرانا نہیں ، حوصلہ رکھو، مہنگائی کا جن بوتل میں بند کرکے ہی دم لوں گا۔ مرشد کی سوچ کو سلام۔ حالات نے تو انہیں وہاں لاکھڑا کیا ہے کہ جہاں یہ سوالات اٹھنے لگے ہیں کہ آج گئے یا کل۔ اب تو مرشد کے آئندہ جانشین بارے بھی پیش گوئیاں زور پکڑنے لگی ہیں اور لندن سے یہ اطلاعات آرہی ہیں کہ بڑے میاں صاحب کا علاج مکمل ہوچکا۔ اب وہ تندرست و توانا ہیں اور دسمبر کی کسی صبح پاکستان تشریف لائیں گے۔ اندیشے یہ بھی ہیں کہ مرشد 20 نومبر سے پہلے کوئی بڑا دھماکہ نہ کردیں۔ سیاسی پنڈت یہ پیش گوئیاں کررہے ہیں کہ ووٹ کوعزت دو سے شروع ہونے والی سیاسی جنگ کا یہ آخری راؤنڈ کھیلا جارہا ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی کے نام پر پارلیمنٹ ہاؤس میںبڑوں کی جو بیٹھک لگی تھی نہ جانے اپوزیشن وہاں سے کون سی ایسی طاقت حاصل کرکے واپس آئی کہ اگلے ہی دن ہواؤں کا رخ بدل گیا اور قومی اسمبلی میں حکومت کو دو بلوں کی منظوری کے دوران عددی شکست اور اس سے اگلے دن پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں مرشد کے اعلان کردہ ”جہاد“ کے ملتوی ہونے، سانحہ اے پی ایس کے شہید بچوں کے والدین کی سپریم کورٹ میں درخواست کے نتیجے میں مرشد کی اچانک طلبی، ڈسکہ ضمنی انتخاب بارے الیکشن کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ، آئی ایم ایف سے تادم تحریر مذاکرات میں ناکامی کے بعد یقینی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ہائبرڈ نظام وینٹی لیٹر پرآخری سانسیں لے رہا ہے اور اس ہائبرڈ نظام کے نگران ڈاکٹروں نے بھی مریض کے بچنے کی امید چھوڑ دی ہے۔ ایسے میں مرشد نے اپنے مریدوں کو جو ہدایات دی ہیں اسی کا اثر ہے کہ منصوبہ بندی کے وزیر اسد عمر اچانک میدان میں ڈانگ سوٹا لے کر کود پڑے ہیں ببانگ دہل اپوزیشن اورمیڈیا کو دھمکیاں دے رہے ہیں کہ اگر کسی نے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کی کوشش کی تو ٹانگیں توڑ دیں گے۔

دوسری طرف پی آئی اے کا بیڑا غرق کرنے والے وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان اتحادیوں پر طنز کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ دو دو وزارتیں لینے کے بعد بھی انہیں چین نہیں اور کیا چاہئے؟ مرشد کی ہدایت پر وفاقی کابینہ میں بیٹھے خیبر پختونخوا کے کچھ مریدوں نے اپنے اپنے حلقوں میں جا کر پی ڈی ایم والوں کو للکارے مارنے شروع کر دیئے ہیں اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا بھی اس مہم کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ آثار سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ مرشد ابھی تک ڈٹے ہوئے ہیں اورمستقبل میں کسی بھی قسم کی ممکنہ تبدیلی کے خلاف بھرپور مزاحمت کا ارادہ رکھتے ہیں۔ سب سے بڑا سوال تو یہ ہے کہ اگر ایسی کوئی تبدیلی طاقت کے ایوانوں میں کہیں زیر غور ہے اور اپوزیشن کو کہیں سے یہ اشارہ مل رہا ہے تو اس تبدیلی کاباعزت جمہوری طریقہ کار کیا ہوگا؟ سب سے بہترین فورم تو پارلیمنٹ ہی ہے جہاں پی ڈی ایم، پیپلز پارٹی، اے این پی اور حکومت سے ناراض اتحادی، ق لیگ ، ایم کیو ایم اور جے ڈی اے کے ارکان سے مل کر مرشد کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لا کر کوئی نیا عبوری سیٹ اپ تشکیل دیں یا مرشد ہی دوبارہ اعتماد کا ووٹ حاصل کریں ، یہ آپشن بھی زیر غور ہے کہ حالیہ جوڑ توڑ کے اصل محرک پیپلز پارٹی کے سینئر ترین رہنما سید خورشید شاہ کو عبوری مدت کے لئے وزیراعظم منتخب کیا جائے اور مارچ میں عام انتخابات کا اعلان کر کے تاریخ میں پہلی بار کسیکی مداخلت کے بغیر جس جماعت کو عوام اپنے ووٹ سے منتخب کریں اسے اقتدار منتقل کر دیا جائے۔ اس ایک نکتے پر اسٹیبلشمنٹ سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کا اتفاق نظرآتا ہے تاہم میاں محمد نواز شریف بدستور اس بات پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اپنی غلطیوں کو دوبارہ نہ دہرانے کی گارنٹی دے اور اس بات کی ٹھوس یقین دہانی کرائے کہ آئندہ جو بھی حکومت منتخب ہو کر اقتدار میں آئے گی اسے ہر سطح پر فیصلہ سازی میں خود مختاری حاصل ہوگی۔ مقتدرہ کی آخری حد تک تو کوشش یہی تھی کہ یہ ہائبرڈ نظام نہ صرف اپنی مدت پوری کرے بلکہ مزید دس سال تک چلتا رہے، افسوس نتائج اس کے بالکل برعکس نکلے۔ تبدیلی کی ہوائیں چل پڑیں، آج پاکستان کو تاریخ کے ایسے نازک ترین موڑ پر لاکر کھڑا کر دیا گیا ہے کہ اس سے آگے صرف کھائی ہے۔ بہتر ہے تبدیلی سے پہلے تمام اسٹیک ہولڈرز خارجہ پالیسی خصوصاً افغانستان، گوادر پورٹ کے حوالے سے امریکہ، چین، بھارت، ایران سے تعلقات، معیشت کو دوبارہ پاؤں پر کھڑا کرنے، کالعدم تنظیموں سے مذاکرات یا بزور طاقت نمٹنے اور بلوچستان بارے حتمی ٹھوس حکمت عملی پر اتفاق کریں تا کہ اس تباہی کا کچھ تو ازالہ ہوسکے۔ مقتدرہ کو بڑے کھلے دل کا مظاہرہ کرنا ہوگا بصورت دیگر یہ ممکنہ تبدیلی کسی کام کی نہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین