میاں محمود الرشید کے صاحبزادے حافظ حسین محمود کی تعزیت کے بعد سابق صدر جسٹس (ر) رفیق تارڑ کو رخصت کرنے دروازے تک آئے تو برادر عزیز اسلم خان اور سلمان عابد کے ساتھ بات انسانی مزاج، جبلت اور سرشت کے حوالے سے چل پڑی، اسلم خان نے ایک امریکی یونیورسٹی سے مزاج شناسی کے مضمون میں ڈگری حاصل کرنے والے نوجوان کا قصہ سنایا جو مئی میں مختلف سیاستدانوں سے ملنے کے بعد آئندہ کی تصویر کشی کرتا رہاہے۔
مجھے اس موقع پر شیخ مصلح الدین شرف سعدی یاد آئے جنہیں فارسی سے نابلد اور اپنے شاندار ماضی سے کئی نوجوان نسل نہیں جانتی۔ شیخ سعدی نے ایک بادشاہ کے دربار کا قصہ قلمبند کیا ہے جس میں دو وزیروں کے درمیان یہ بحث چھڑ گئی کہ انسان اپنے اعمال و افعال اور اہم فیصلوں میں جبلت اور سرشت کے مطابق بروئے کار آتا ہے یا ماحول، تربیت، درپیش واقعات و حالات اثر انداز ہوتے ہیں۔ جس وزیر کا موقف تھا کہ جبلت پر تربیت، ماحول اور زندگی کی تلخیاں، آسودگیاں اثر اندازہوتی ہیں ایک ماہ بعد اس نے یہ ثابت کرنے کا وعدہ کیا کہ وہی درست اور برحق ہے۔
مقررہ مدت کے بعد بادشاہ کا دربار سجا، وزیر نے اشارہ کیا اور آٹھ دس بلیاں، سر پر روشن دیئے سجائے پنجوں میں مشعلیں پکڑے قطار میں رقص کرتی نمودار ہوئیں۔ رقص کے دوران قطار ٹوٹی، کوئی دیا گرا نہ مشعل بجھی اور تالیوں کی گونج میں بلیاں دوسرے دروازے سے نکل گئیں۔ بادشاہ اور درباری عش عش کر اٹھے۔ دوسرے وزیر نے عرض کی بادشاہ سلامت میں کل اپنے دوست کی غلط فہمی دور کردوں گا۔
دوسرے دن پھر دربار سجا، بلیوں کا رقص شروع ہوا اور داد وتحسین کے ڈونگرے برسائے گئے مگر اچانک بادشاہ نے دیکھا کہ بلیوں نے مشعلیں پھینکیں، دیئے گرائے، قطار توڑی، رقص چھوڑا اور دیوانہ وار ایک طرف بھاگنے لگیں، پتہ چلا کہ دوسرے وزیر نے بلیوں کے سامنے چوہا چھوڑا ہے جس کا ساری بلیاں تعاقب کررہی ہیں۔ جبلت اور سرشت کسی قیمت پر تبدیل نہ ہونے کے دعویدار وزیر نے اپنے ساتھی کی مہینے بھر کی ریاضت اور بلیوں کی تربیت پر پانی پھیر دیا تھا۔
حکایات سعدی میں ایک واقعہ چرواہے کا ہے جس نے شیرنی کے نوزائیدہ بچے کو جنگل سے اٹھایا اور اپنی بکریوں میں سے ایک کے دودھ پر لگا دیا۔ بکری اسے دیگر بچوں کی طرح لاڈ پیار سے رکھتی اور شیر کا بچہ بھی ریوڑ کے دوسرے میمنوں کی طرح دودھ پیتا، گھاس کھاتا اورمنمناتا۔ چرواہا فخر سے دوسروں کو بتاتا کہ اس نے پال پوس کر شیر کے بچے کو میمنہ بنا دیا ہے جو شکل و صورت سے تو شیر لگتا ہے مگر عادات و خصائل میں میمنہ ہے مگر ایک دن اس کی یہ دیکھ کر خوش فہمی دور ہوگئی کہ شیر کے بچے نے بکری کی گردن پر پنچے گاڑھے، شہ رگ چیری اور بکری کی سانسیں رکنے پر ایک طرف بیٹھ کر مزے سے اس کا گوشت کھانے لگا۔ تب چرواہے نے تعجب سے شیر کے بچے کو مخاطب کیا ”سکھایا تو بکری نے تمہیں دودھ پینا، گھاس کھانا اور منمنانا تھا یہ تمہیں دھاڑنا‘ جاندار کی گردن دبوچنا اور گوشت سے پیٹ بھرنا کون سکھا گیا؟“
فرد ہو یا قوم ماحول، تربیت اور زندگی کے تجربات سے سیکھنے اور اپنے آپ کو بدلنے کی صلاحیت تو اللہ تعالیٰ نے سب کو عطا کی ہے اور ہم بڑی حد تک سیکھنے اور بدلنے کا عمل جاری بھی رکھتے ہیں مگر اپنی سرشت، جبلت، مزاج، طبیعت اور بشری تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر اعلیٰ ترین اخلاقی اصولوں اور بلند ترین مقاصد کے لیے زندگی بسر کرنا اور اپنی ذات و مفاد سے بالا تر ہو کر محض دوسروں کے لیے اپنی قوم اور ریاست کے لیے کچھ کر گذرنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں اور اقوام بھی اس اصول سے مبرا نہیں۔
یہ اللہ تعالیٰ کے فرستادا پیغمبر اور رسول ہوتے ہیں، ولی ، قطب اور ابدال جو اپنے آپ کو طمع، لالچ، ہوس زر، مفاد پرستی، ریا کاری، نمودونمائش، اقربا پروری، حب جاہ اور اقتدار پسندی سے دور رکھتے اور اللہ کی خوشنودی، خدمت خلق کو زندگی کا نصب العین بنا کر اپنے اور معاشرے کے لیے دائمی مسرتوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ ہم آپ دعوے جو بھی کریں اپنے عمل اور فیصلوں میں جبلت کے تابع رہتے ہیں اور کبھی رتی بھر انحراف نہیں کر پاتے۔
برس ہا برس سے قوم کا مزاج بدلا ہے نہ حکمرانوں اور فیصلہ سازوں کی خو تبدیل ہوئی۔ اشرافیہ کے حالات ضرور بدلے، سرشت وہی ظالمانہ اور سنگدلانہ رہی، عوام کی سرشت بدلی نہ قسمت اور نہ خوئے غلامی میں ذرہ بھر فرق آیا البتہ خواہش یہ ہے کہ حکمران اپنے طور طریقے بدل لیں اور اقربا پروری، خویش نوازی اور شعبدہ بازی چھوڑ کر ان کی خدمت میں جت جائیں، راتوں رات ان کی تقدیر بدل ڈالیں۔
فارسی میں کہتے ہیں خِر عیسیٰ اگر بہ مکہ رود، چوں باز آید ہنوز خرباشد
(اخوت عیسی علیہ السلام کا خچر مکہ سے واپس آکر بھی خچر ہی رہتا ہے) سرور کائنات ﷺ نے فرمایا ”اگر کوئی شخص مجھے آکر یہ خبر دے کہ احد کا پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ گیا ہے تو شائد میں مان لوں مگر کسی کی جبلت تبدیل ہوگئی؟ ہرگز نہیں) #
نہ دل بدلا نہ دل کی آرزو بدلی نہ وہ بدلے
میں کیسے اعتبار انقلاب آسمان کر لوں
مگر مایوسی تو انہیں ہوگی جو بادشاہ کے وزیر کی طرح یہ سمجھ بیٹھے کے بلیاں چوہوں کے پیچھے دوڑنے سے باز آسکتی ہیں اور شیر کا بچہ گوشت کھانا چھوڑ کر گھاس خوری پر اکتفا کریگا۔
ایں خیال است و ممال است و جنوں