• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

12 اپریل 2018کو سپریم کورٹ کی آئینی پٹیشن 02/2018-SCJ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی صدارت میں اوور سیز پاکستانیوں کے حق ووٹ کے بارے میں بحث ہوئی۔ اس سیشن میں آئی ٹی کے ماہرین ، نادرا کے عملے ، میڈیا کے نمائندگان اور مختلف سیاسی پارٹیوں نے حصہ لیا ۔ اس سیشن میں آئی ٹی ماہرین نے ای وی ایم مشین اور ای ووٹنگ کی مدلل دلائل سے سخت مخالفت کی اور سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ 2018کے 37حلقوں کے ضمنی الیکشنزمیں ای ووٹنگ کا استعمال کیا جائے اور اگر الیکشن کمیشن اس نظام سے مطمئن نہ ہو اسے یہ اختیار ہوگا کہ ان ووٹس کو سرکاری نتائج سے خارج کر دے اور یوں الیکشن کمیشن نے ان نتائج سے مطمئن نہ ہو کران ای ووٹس کو سرکاری گنتی میں شامل نہیں کیا۔ اس سیشن کے بعد الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق ای ووٹنگ کیلئے ایک ٹاسک فورس تشکیل دی جس نے اس نظام کی مخالفت کرتے ہوئے سفارش کی کہ آئی ووٹنگ کے نظام کو پہلے غیر سیاسی تنظیموں مثلا ٹریڈ آرگنائزیشنز، بار کونسل کے الیکشنز میں متعارف کیا جائے اور اسکے بعد چھوٹے پیمانے پر سیاسی جماعتوں کے انٹرا پارٹی الیکشنز اور لوکل باڈیز الیکشنز میں استعمال کیا جائے اور آہستہ آہستہ اس نظام کو ارتقا پذیر کیا جائے اور یہ بھی سفارش کی کہ آئی ووٹنگ سے بہتر ہے کہ پوسٹل ووٹنگ کے نظام کو اوور سیز پاکستانیوں کیلئے استعمال کیا جائے ۔

یاد رہے کہ اگر بیرون مقیم پاکستانیوں کو2023کے الیکشن میں آئی ووٹنگ کا حق دیا جاتا ہے تو یہ ساٹھ لاکھ سے زائد ووٹوں کا پول دنیا کا سب سے بڑا پول ہوگاکیونکہ اس سے پہلے ناروے میں2013ء کے الیکشن میں 70,000، اسٹونیا میں 2015 کے الیکشن میں 176,491ووٹس اور آسٹریلیا کے نیوسائوتھ ویلزکے صوبے میں 280,000آئی ووٹس ڈالے گئے۔اس نظام میں ایک بڑی خامی یہ بھی ہے کہ ساٹھ لاکھ سے زائد ووٹرز کو سیاسی پارٹیاں اپنے منشور اور لائحہ عمل سے آگاہ بھی نہیں کرسکیں گی اور پاکستان جیسے ملک میں جہاں پہلے ہی الیکشن میں حصہ لینا بہت مہنگا ہو گیا ہے اس سے اشرافی طبقہ ہی فائدہ اٹھا سکے گا جو پاکستان سے لمبے لمبے کرائے دے کر ان ووٹرز سے ملنے کا شرف حاصل کرے گا۔اس کے علاوہ ماہرین کا خیال ہے کہ آئین کے آرٹیکل 63کے ہوتے ہوئے جس میں دہری شہریت رکھنے والے پاکستانیوں کو الیکشن لڑنے کا حق ہی حاصل نہیں ہے تو اس صورت میں کتنے اوورسیز پاکستانی اپنے ووٹ کا حق استعمال کر سکیں گے؟۔ہندوستان میں بھی 2011ء میں اوور سیز ای ووٹنگ کا قانون پاس ہوااور آج بھی وہاں ای ووٹنگ کی بجائے پوسٹل بیلٹ کے ذریعے بذات خود ہندوستان آکر ووٹ ڈالنے کی اجازت ہے۔کیا وجہ ہے کہ ہندوستان جیسے آئی ٹی میں اتنے ایڈوانس ملک کو ای ووٹنگ کا نظام قبول نہیں ہے تو پاکستان جیسا ملک جہاں ہندوستان کے مقابلے میں آئی ٹی ماہرین بھی بہت کم ہیں ، اس کا متمل کیسے ہو سکتا ہے جبکہ بہت سارے علاقوں میں انٹر نیٹ کی سہولت ہی موجود نہیں ہے۔ ماہرین کا ایک اہم اعتراض یہ ہے کہ آئی ووٹنگ الیکشن ایکٹ 2017کی شق 94اور آئین پاکستان کے آرٹیکل 226کی روح کے مطابق ووٹر زکو خفیہ رائے دہی کا حق نہیں دیتی جبکہ پاکستان میں یہ آئین کاحصہ ہے اور کوئی ایسا قانون بناناجو ووٹر کو آئینی حق سے محروم کر دے ، کوئی قانونی حیثیت نہیں رکھتا ۔بہت سے واقعات دیکھنے میں آئے ہیں کہ ووٹرزنے اپنا آئی ووٹ ڈالنے کے بعد ووٹ کو سوشل میڈیا پر آویزاں کیا۔ اس کے علاوہ جب یہ ووٹ پولنگ بوتھ سے باہر انٹرنیٹ کے ذریعے ڈالے جائیں گے اور وہاں الیکشن کمیشن کے عملے کی موجودگی بھی نہیں ہوگی تو وہاں ووٹ کی خرید و فروخت پر پابندی کیسے نافذ کی جا سکتی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ آئی ووٹنگ کا یہ نظام ان محنت کش طبقات کیلئے بہت سی مشکلات پیدا کرے گا جس کی وجہ ان کاآئی ٹی سے ناواقفیت اور مہارت کا نہ ہونا ہے۔اس کے علاوہ حال ہی میں پاکستان میں ڈیٹا چوری اور بینکنگ نظام کی ہیکنگ کے کئی واقعات نے اس نئے نظام پر کئی سوالات اٹھا دیے ہیں ۔

یاد رہے کہ ہندوستان میں ای وی ایم مشین کے استعمال کا قانون 1989میں پاس ہوااور پھر چھوٹے بڑے پائلٹ پروجیکٹس کرنے کے بعد پہلی دفعہ 2004ء میں لوک سبھا کے الیکشن میں الیکٹرونک مشینز کا استعمال کیا گیا۔یاد رہے کہ الیکٹرونک مشینز کے بین الاقوامی ماہر عاطف مجید نے اپنے مقالے میں بتایا ہے کہ دنیا بھر میں 92فیصد ممالک میں الیکٹرونک ووٹنگ مشینز کا استعمال نہیں ہو رہا اور جن ممالک میں یہ نظام رائج بھی ہے وہ مسلسل اس نظام کے مستقبل کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔گو کہ نادرا کا شناختی کارڈ اور ووٹر کی شناخت کا نظا م بہت ہی منظم ہے لیکن اس کے باوجود یہ حقیقت مدنظر رکھنی چاہئے کہ یہ نظام صرف 82فیصد ووٹرز کی صحیح معنوں میں شناخت کر سکتا ہے۔اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ تحریک انصاف نے جہاں بیس نومبر کی ڈیڈ لائن سے پہلے اپنے مطلوبہ نتائج توحاصل کر لیے ہیں لیکن اس کےباوجود پاکستان میں الیکشن کی شفافیت کی خاطر الیکٹرونک ووٹنگ مشینوں، انٹر نیٹ ووٹنگ اور آئین کے متصادم اصلاحات لانے کی بجائے الیکشن کمیشن کے ادارے کو آزادانہ طور پر اپنے اہداف حاصل کرنے دے تاکہ وہ کسی دبائو کے بغیر آئین کی روح کے مطابق آزادانہ اور غیر جانبدارانہ الیکشن کرا سکے۔

تازہ ترین