• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے کئی ماہ سے ملک غیریقینی صورت حال سے دوچار ہے لیکن پچھلے چند دنوں میں سیاسی افق پر ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جن سے موجودہ حکومت کے ’’چل چلائو‘‘ کا تاثر ملتا ہے۔ یہ تاثر بڑی حد تک موجودہ حکمرانوں کے طرزِ عمل کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ 

اپوزیشن نے بھی عوام میں امید کی کرن پیدا کر دی کہ بس اپوزیشن کا لاہور سے لانگ مارچ روانہ ہونے کی دیر ہے، ’’کپتان‘‘ اپنا بوریا بستر باندھ کر اقتدار کے ایوانوں سے راہِ فرار اختیار کر لیں گے لیکن سرِدست زمینی حقائق کسی فوری ’’تبدیلی‘‘ کی نشاندہی نہیں کررہے۔ 

آنے والے دنوں میں اسلام آباد کے ’’ریڈ زون‘‘ میں کوئی میدان سجتا نظر نہیں آرہا۔ ماہِ رواں کے اوائل میں وزیراعظم نے جب کچھ اعلیٰ تقرریوں کے ایشو پر اپنے اختیارات باور کرانے کی کوشش کی تو ہر سیاسی و غیرسیاسی محفل کا موضوع گفتگو عمران خان کا ’’سیاسی مستقبل‘‘ تھا اور یہ بات برملا کہی جانے لگی کہ عمران خان کو سزا ضرور ملے گی۔ 

اپوزیشن (پی ڈی ایم) نے بھی ’’آئو دیکھا نہ تائو‘‘ چاروں صوبائی دارالحکومتوں میں جلسوں کا اعلان کر دیا اور کہا کہ آئندہ ماہ لاہور سے اسلام آباد کے لیے لانگ مارچ روانہ ہوگا لیکن پی ڈی ایم ہنوزکوئی حتمی فیصلہ نہیں کر سکی۔ 

پی ڈی ایم اپنے ہر اجلاس کے بعد اگلے اجلاس میں فیصلے کی نوید سنا دیتی ہے، تین چار روز قبل پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا سربراہی اجلاس مولانا فضل الرحمٰن کی زیر صدارت منعقد ہوا جس سے لندن سے نواز شریف اور لاہور سے شہباز شریف اور مریم نواز نے خطاب کیا۔ 

اجلاس میں صرف یہ طے پایا کہ پی ڈی ایم کا ایک اور سربراہی اجلاس 6دسمبر 2021کو اسلام آباد میں ہوگا جس میں تمام جماعتیں اپنی کور کمیٹیوں سے تجاویز لے کر آئیں گی جس کے بعد انتہائی اہم نوعیت کے اعلانات کئے جائیں گے۔ 

لہٰذا یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ پی ڈی ایم کا موجودہ اجلاس کسی بڑے فیصلہ کے بغیر ہی ختم ہو گیا اور عوام کو امید کے سہارے زندہ رہنے کے لئے پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس کی نئی تاریخ کا اعلان کر دیا گیا۔ 

مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے بہ نفس نفیس سربراہی اجلاس میں شرکت نہیں کی بلکہ وڈیو لنک پر اپنی موجودگی کو یقینی بنایا۔ اسی طرح مریم نواز جن کی اگلے روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی تھی، نے بھی اجلاس میں ذاتی طور پر شرکت نہیں کی بلکہ عدالت میں پیشی کے روز ہی آئیں۔

پیشی سے ایک روز قبل پی ڈی ایم کے اجلاس میں شرکت سے گریز کیا اور پیشی کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ سے اپنے صاحبزادے جنید صفدر کی شادی میں مصروفیات کے باعث ایک ماہ کی چھٹی لے لی۔ مسلم لیگ (ن) کے دفتر میں دھواں دار پریس کانفرنس کر کے لاہور واپس چلی گئیں۔ 

پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں مولانا فضل الرحمٰن اور قوم پرست جماعتیں تحریک کو فیصلہ کن مرحلے کی طرف لے جانا چاہتی تھیں لیکن مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت نے اس بارے میں مشاورت کے لیے وقت مانگ لیا ہے۔ پی ڈی ایم کی جماعتیں مسلم لیگ (ن) کی سیاست سے کوئی نتیجہ اخذ نہیں کر پا رہیں کیونکہ کبھی مسلم لیگ (ن) کی سیاست میں یک دم تیزی آجاتی ہے پھر اچانک اس میں ٹھہرائو آجانے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ’’کہیں کوئی‘‘ بات چیت چل رہی ہے۔ 

مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو بات چیت کے نتائج کا انتظار ہے۔ قوم پرست جماعتوں نے پنجاب جو کہ مسلم لیگ (ن) کا گڑھ ہے، میں اس کی سست روی پر شکوہ کیا ہے اور کہا ہے کہ لانگ مارچ اور دھرنے میں پنجاب کی بھرپور شرکت ہی تحریک کو نتیجہ خیز بنا سکتی ہے۔ 

شہباز شریف نے قوم پرست جماعتوں کے نکتہ نظر سے اتفاق نہیں کیا اور کہا کہ مسلم لیگ (ن) ہر مقام پر بھرپور شرکت سے اپنے وجود کا احساس دلا رہی ہے بہرحال مولانا فضل الرحمٰن نے ایک مرحلے پر پی ڈی ایم کی سست روی سے مایوس ہو کر یہاں تک کہہ دیا کہ ’’اگر ہم نے کچھ نہیں کرنا اور کپتان کے اقتدار کو طوالت ہی دینی ہے تو میں پی ڈی ایم کی صدارت سے مستعفی ہو رہا ہوں‘‘۔ 

انہوں نے فوری طور پر استعفیٰ تو نہیں دیا لیکن اپنی ’’ناراضی‘‘ کا برملا اظہار کر کے تمام جماعتوں کو پی ڈی ایم کے اہداف کے حصول کے لئے متحرک ہونے کی وارننگ دے دی، انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ’’بےعملی کی وجہ سے پی ڈی ایم نیچے کی طرف جا رہی ہے‘‘۔ شنید ہے نواز شریف کی مداخلت پر مولانا فضل الرحمٰن کا غصہ قدرے ٹھنڈا ہوا۔ 

نواز شریف نے مولانا فضل الرحمٰن سے کہا کہ ’’آپ پی ڈی ایم کے سربراہ ہیں، آپ کی تجاویز کو ہی ہم آگے لے کر چلیں گے‘‘۔ پارلیمنٹ کے اندر متحدہ اپوزیشن کا تو قیام عمل میں آگیا ہے لیکن پارلیمنٹ کے باہر ابھی تک پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی میں فاصلے کم نہیں ہوئے۔ 

پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کی بجائے چھوٹی جماعتیں پیپلز پارٹی کی پی ڈی ایم میں واپسی کی مخالفت کرتی نظر آئیں جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ فی الحال پیپلز پارٹی کی پی ڈی ایم میں واپسی کا کوئی امکان نہیں۔ 

پی ڈی ایم کے اجلاس میں نواز شریف اور مریم نواز کو سزا دینے کے بارے میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی آڈیو اور سابق چیف جج گلگت بلتستان کے بیان حلفی کا معاملہ بھی زیر غور آیا۔ اجلاس میں تمام جماعتوں نے آڈیو لیک کے معاملہ کو قومی سطح پر اجاگر کرنے پر زور دیا۔ اجلاس میں ایک بار پھر اسمبلیوں سے استعفے دینے کی باز گشت سنی گئی۔ 

نواز شریف نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ وہ اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے حق میں ہیں لیکن ایوانِ بالا سے مستعفی نہیں ہونا چاہیے۔ مریم نواز اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی کے موقع پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتی ہیں لیکن اب کی بار انہوں نے اس کے لئے پارٹی دفتر کا انتخاب کیا۔ شاید وہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے کنڈکٹ پر بات کرنا چاہتی تھیں۔ 

جسٹس (ر) شوکت صدیقی کے بیان، احتساب جج ارشد ملک کی وڈیو کے بعد سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی آڈیو اور سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کے بیان حلفی کو ملکی عدالتی نظام میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، جن لوگوں کے اِس میں نام سامنے آئے ہیں ان کو عدلیہ طلب کرکے حقائق کو منظر عام پر لا سکتی ہے۔ اس سے جہاں عدلیہ کی طرف اٹھنے والے سوالات اپنے منطقی انجام کو پہنچ جائیں گے وہاں آئندہ عدلیہ کے خلاف محاذ کھولنے کی جرأت نہیں ہو گی۔

تازہ ترین