• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان اور بھارت کے درمیان غیر متوقع طور پر بڑھنے والی سرحدی کشیدگی کے حالات میں وفاقی وزیر خزانہ محمد اسحاق ڈار نے پاکستانی قوم اور فوج کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لئے واضع پالیسی بیان دیا ہے کہ بھارت کو پسندیدہ ملک(MFN)کا درجہ دینے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں ہے حالانکہ انہیں کہنا چاہئے تھا کہ فی الحال ایسی کوئی تجویز فوری طور پر زیر غور نہیں ہے، اس لئے کہ بھارت تو 1996ء سے پاکستان کو یہ درجہ دے چکا ہے جبکہ پاکستان لاتعداد وجوہ کی بناء پر بھارت کو یہ درجہ دینے سے گریز کررہا ہے جس میں قابل ذکر وجہ بھارت کے عائد کردہ نان ٹیرف بیئرز (NTB)ہیں جس کی وجہ سے بظاہر تو پاکستان کی ٹیکسٹائل کی تمام مصنوعات بھارت برآمد ہوسکتی ہیں مگر عملاً ایسا ممکن نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ہماری کئی مصنوعات اور حتیٰ کہ جانوروں کی برآمد میں بھی بے پناہ انتظامی رکاوٹیں حائل ہیں جو کہ بھارت کی بیورو کریسی نے کھڑی کررکھی ہیں۔ بھارت پاکستان سے دوستی اور تجارت بڑھانے کی بات تو دنیا کو خوش کرنے کے لئے کرتا ہے مگر دونوں ممالک میں عوامی سطح اور خاص کر بیوروکریسی اور دونوں ملکوں کی سلامتی کے ذمہ دار حلقوں کے درمیان اعتماد کے فقدان کی وجہ سے بات اس تیزی سے آگے نہیں بڑھ رہی جس کی توقع عالمی بنک، آئی ایم ایف اور دیگر بین الاقوامی ادارے اور امریکہ بہادر کررہا ہے۔
پاکستان بدقسمتی سے اس وقت معاشی اور سیاسی طور پر ایسے حالات سے دو چار ہے جس سے عالمی طاقتیں فائدہ اٹھا کر پاکستان کو ہر لحاظ سے کمزور کرنے کے درپے ہیں حالانکہ دفاعی نقطہ نظر سے پاکستان ہر لحاظ سے بھارت سے بہتر پوزیشن میں ہے۔ ابھی حال ہی میں بھارت کی طرف سے جو سرحدی کشیدگی کا آغاز کیا گیا ہے یہ ہوسکتا ہے کہ وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کی خواہش اور سیاسی ضرورت کے برعکس ہو، مگر یہ بات تو سب کو نظر آرہی ہے کہ بھارت میں ہر دفعہ عام انتخابات سے قبل ہندوؤں کا یہ چلن ہے کہ وہ پاکستان کو ہدف بنا کر وہاں سے زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس میں انہیں مقبوضہ کشمیر کی قیادت کی سرپرستی بھی حاصل ہوتی ہے۔ اب بھی ایسے لگ رہا ہے کہ بھارت میں نئی متوقع بھارتی قیادت ”مودی اینڈ کمپنی“ یہ حربے استعمال کررہی ہے جو یہ چاہتے ہیں کہ وہاں انتہا پسندی کے خاتمہ کے نام پر مسلمانوں کو کرش کردیا جائے حالانکہ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ اس وقت بھارت کی حیثیت کو آگے بڑھانے میں غریب اور محنتی مسلمانوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ چاہے وہ عام کاروبار ہو یا انفارمیشن ٹیکنالوجی سے لے کر ٹیلی کام سیکٹر ہو ، یہ ا چھی بات ہے کہ وہاں کے مسلمان مشکل ترین حالات سے دو چار ہونے کے باوجود بھارت کی تجارت اور معیشت کی ترقی میں بھرپور کردار ادا کررہے ہیں مگر ان میں مالی طور پر کوئی بھی بڑا نام نہیں ہے بلکہ محنتی مسلمانوں کی کمائی سے ہندو بنئیے امیر سے امیرتر ہورہے ہیں۔اس پس منظر میں بھارت کو پاکستان سے ہر قسم کی جارحیت سے گریز کرنا چاہئے ، چاہے جس سے پاکستان کی سلامتی،زراعت یا معیشت کو خطرات لاحق ہوں۔
دوسری طرف وزیر اعظم میاں نواز شریف کو چاہئے کہ وہ مسئلہ کشمیر ہو یا بھارت سے تعلقات اس حوالے سے قدم احتیاط سے آگے بڑھائیں، اس سے انہیں دائیں بازو کی سیاسی اور اخلاقی سپورٹ کی بجائے خاص مخالفت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ ہم بھارت سے تجارت نہ بڑھائیں تو اس سے ہم کوئی مر نہیں جائیں گے مگر اگر ہم خود معاشی طور پر بڑے مضبوط اور مستحکم ہو جائیں گے تو اس سے بھارت ہو یا امریکہ ہمیں کسی سے بھی کوئی خطرہ نہیں رہے گا۔وزیر اعظم کو چاہئے کہ وہ ڈومسٹیک اکانومی کو بہتر بنانے کے لئے عملی اقدامات کو ترجیح دیں۔ اس سے جہاں ہماری تجارت وسیع ہوگی وہاں حکومت کو ٹیکس چوری روکنے اور ٹیکسوں کی آمدنی بڑھانے میں بھی خاصی مدد مل سکے گی۔ اس سلسلہ میں توانائی کے بحران کے حل کے لئے قدرتی موسم پر انحصار سے بات نہیں بنے گی ا س کے لئے مزید ایسے قابل عمل اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جس سے عوام کو ریلیف ملنے کا احساس ہوسکے۔ اس سلسلہ میں ٹیرف بڑھانے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ ا س سے صنعتی پیداواری لاگت بڑھے گی جس سے مہنگائی کی شرح میں بھی اضافہ ہوگا۔ اس سے حکومت کو سیاسی طور پر کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ،اس لئے موجودہ حالات میں حکومت کو بھارت کے ساتھ معاملات سوچ سمجھ کر بڑھانے ہوں گے۔ اس وقت تو بھارت سے دوستی پر اندرون ملک ردعمل ہوتا ہے لیکن ایسا نہ کرنے پر عالمی سطح پر پاکستان کئی حوالوں سے دباؤ میں آسکتا ہے۔ اس پس منظر میں پچھلے دنوں عالمی بنک نے پاکستان پر زور دیا کہ زرمبادلہ کے ذخائر کی صورتحال بہتر بنانے کے لئے بھارت سے تجارت کو آسان بنایا جائے۔ اس کے لئے بھارت، چین اور ملائیشیا کے سرمایہ کاروں کے لئے ”نیو سپیشل اکنامک زون“ قائم کیا جائے جہاں ان ممالک کے سرمایہ کاروں کو تمام تحفظات اور مراعات دی جائیں۔اس کے علاوہ واہگہ سرحد پر خصوصی بزنس اینڈ سروسز سنٹر بنانے کے لئے بھی عالمی بنک سے تعاون کیا جائے۔ اب فیصلہ ہمارے حکام نے کرنا ہے کہ وہ پاکستانی قوم کے جذبات کے ساتھ چلیں گے یا عالمی ضروریات کے ساتھ۔ اس سلسلہ میں بڑے ہوش ا ور سمجھداری سے چیزوں کو دیکھنا چاہئے۔ بھارت کو ہر سطح پر یہ احساس دلانا چاہئے کہ وہ آبادی اور معیشت کے حجم میں جنوبی ایشیاء ا ور بالخصوص پاکستان سے بڑا ضرور ہے مگر ایٹمی پاکستان بھارت سے بہتر دفاعی پوزیشن اور صلاحیت رکھتا ہے۔ اس لئے بھارتی قیادت اور دانشوروں کو جنگ کے حالات کی سپورٹ سے گریز کرنا چاہئے اس سے ان کے اپنے ایجنڈے کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے شاید انہی حقائق کے پس منظر میں بڑے محتاط انداز میں سیاسی حالات کے پس منظر میں مذکورہ بیان دے کر اپنی حکومت کی پوزیشن کو متنازعہ ہونے سے بچانے کے لئے کوشش کی ہے مگر بات تو تب بنے گی جب عملی طور پر پاکستان کی معیشت اور زراعت کو بچانے کے لئے کوئی اقدامات ایسے سامنے آئیں جس سے اپوزیشن اور عوام سب مطمئن ہوسکیں۔
تازہ ترین