دُنیا بَھر میں سرطان کی تمام اقسام میں بڑی آنت کےسرطان کو، جسے طبّی اصطلاح میں colon cancer کہاجاتا ہے، تیسرے نمبر پر شمار کیا جاتا ہے، جب کہ سرطان کی وجہ سے اموات کا دوسرا بڑا سبب بھی یہی موذی مرض قرار دیا گیا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دُنیا بَھر میں سالانہ 1.9 ملین افراد اس سے متاثر ہوتے ہیں اور خواتین کی نسبت مَردوں میں اس کی شرح 30فی صد زائد ہے۔ یہ سرطان پچاس سال یا اس سے زائد عُمر کےافراد میں عام ہے۔
تاہم، کچھ عرصے سے نوجوانوں میں بھی بڑی آنت کا سرطان رپورٹ ہورہا ہے، جو اس لیے بھی زیادہ تشویش کا باعث بن رہا ہے کہ ان میں اس مرض کی تشخیص تاخیر سے ہورہی ہے۔ مرض کی ابتدا میں بڑی آنت میں گٹھلیاں بن جاتی ہیں، جنہیں طبّی اصطلاح میں پولپس (Polyps)کہا جاتا ہے۔
یہ پولپس بتدریج نشوونما پاتی ہیں اور تقریباً دس سال کے عرصے میں سرطان کی صُورت اختیار کرلیتی ہیں، جسے Adenocarcinoma کہا جاتا ہے۔ اگر ان پولپس کو سرجری کے ذریعے آنتوں سے نکال دیا جائے، تو یہ سرطان میں تبدیل نہیں ہوتیں۔ یہی وجہ کہ طبّی ماہرین 45سال کی عُمرکے بعد قولونو اسکوپی(Colono scopy) تجویز کرتے ہیں، تاکہ ابتدائی مرحلے ہی میں مرض تشخیص ہوجائے۔یاد رکھیے، یہ مرض قابلِ علاج ہے، بشرطیکہ بروقت تشخیص ہو۔خاندان میں دو قریبی رشتے داروں کا بڑی آنت کے سرطان میں مبتلا ہونا خطرے کی گھنٹی ہے۔
اس کے علاوہ ذیابطیس، نظامِ ہاضمہ کی خرابی، Irritable Bowel Syndrome، آنتوں میں سوزش اور Ulcerative Colitis میں مبتلا افراد میں بڑی آنت سے سرطان سے متاثر ہونے کے امکانات زیادہ پائے جاتے ہیں۔ بڑی آنت کے سرطان کی علامات میں سرِفہرست پاخانے میں خون کا اخراج ہے، جب کہ دیگر علامات میں خون کی کمی، بغیر کسی وجہ کے اچانک وزن کم ہوجانا، قے میں خون خارج ہونا، ریاح، بھوک کم لگنا، پیٹ میں درد، مروڑ، قبض، اسہال اور نظامِ ہاضمہ کی خرابی وغیرہ شامل ہیں۔ یاد رکھیے، اس مرض میں پاخانے اور قے میں خون کا اخراج خطرے کی علامت گردانی جاتی ہے، اس صُورت میں فوری طور پر معالج سے رجوع کیا جائے۔
بڑی آنت کے سرطان سے بچائو کے لیے ضروری ہے کہ45سال سے75سال کی عُمر میں ایک بار قولونواسکوپی کروالی جائے۔ اگر اسکریننگ نارمل ہو، تو دس سال کے وقفے سے دوبارہ کروائیں۔ طبّی اصطلاح میں اس پورے عمل کو ’’کیس فائنڈنگ‘‘ کہتے ہیں۔ عام طور پر مریض قولونو اسکوپی کروانے سے ڈرتے ہیں۔ حالاں کہ سرطان کی تکالیف کی نسبت یہ بہت آسان اور سادہ سا ٹیسٹ ہے۔ قولونو اسکوپی میں تقریباً ایک میٹر لمبی مخصوص ٹیوب استعمال کی جاتی ہے، جس کے آخری سرے پر کیمرا نصب ہوتا ہے ۔
اس ٹیوب کو مقعد کے ذریعے بڑی آنت میں داخل کرکے معائنہ کیا جاتا ہے۔ بڑی آنت کے سرطان کی تشخیص کے لیےقولونو اسکوپی ناگزیر ہے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں اس سے متعلق معلومات عام نہیں ،جب کہ بیرونِ مُمالک میں قولونواسکوپی ایک عام ٹیسٹ تصوّر کیا جاتا ہے۔
بڑی آنت کے سرطان سے تحفّظ کے لیے ضروری ہے کہ سادہ طرزِ زندگی اختیار کیا جائے۔ ذیابطیس اور موٹاپے پر کنٹرول رہے۔ الکحل اور تمباکو نوشی سے پرہیز کیا جائے، ورزش معمولات کا حصّہ ہو۔ اس ضمن میں 30منٹ کی ورزش بھی کافی ہے۔ اپنی خوراک میں سُرخ گوشت کا استعمال کم سے کم کریں۔ زیادہ عرصے کا فریزڈ گوشت احتیاط سے استعمال کریں، مرغّن غذائیں اعتدال سے کھائیں کہ زائد چکنائی استعمال کرنے کے نتیجے میں آنتوں میںSterol نامی غیر نامیاتی مرکب جمع ہوجاتا ہے،جس پربیکٹریا اثر انداز ہو جائے،تو اسے(یعنی اسٹرول کو) زہریلے کیمیائی مادّے میں تبدیل کردیتا ہے، جو بعد ازاں بڑی آنت کے کینسر کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
ہمیں روزمرّہ زندگی میں تازہ پھل، سبزیاں، اجناس اور خشک میوہ جات، جب کہ سمندری خوراک، خاص طور پر مچھلی جس میں اومیگاتھری کی زائد مقدار پائی جاتی ہے، استعمال کرنے چاہئیں۔ دودھ اور دودھ سے تیار اشیاء کا استعمال بھی مفید ثابت ہوتا ہے۔ چوں کہ بڑی آنت کے سرطان سے بچاؤ بروقت تشخیص ہی سے ممکن ہے، تو حکومت کو چاہیے کہ آگہی مہمات کا آغاز کرے، تاکہ ہر سطح تک معلومات عام ہوسکیں۔ اس کے علاوہ حکومتی سطح پر 45 سے 75سال کی عُمر کے افراد کے لیے ایسے سینٹرز قائم کیے جائیں، جہاں مفت قولونواسکوپی کی سہولت دستیاب ہو، تاکہ بروقت تشخیص سے اس سرطان پر قابو پایا جاسکے اور سالانہ اموات کی شرح میں بھی کمی لائی جاسکے۔
جہاں تک علاج کی بات ہے، تو مرض کے ابتدائی مرحلے میں سرجری کے ذریعے ٹیومر کو آنت سے نکال دیا جاتا ہے۔ بعد ازاں، کیمو تھراپی اور ریڈیوتھراپی کے مراحل آتے ہیں، جو بہرحال تکلیف دہ ہیں۔ لہذا سب سے بہتر تو یہی ہے کہ مرض سے بچاؤ کے لیے حتی الامکان احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں۔ (مضمون نگار، لیاقت یونی ورسٹی اسپتال، حیدرآباد کے شعبہ گیسٹرو انٹرولوجی سے بطور سینئرمیڈیکل آفیسر وابستہ ہیں)