آپ کے مسائل اور اُن کا حل
سوال: کیا پیغمبر کے علاوہ کسی شخص کے لیے ’’پیغمبر بے کتاب‘‘ اور خدا کے لیے ’’یزداں‘‘ کا استعمال جائز ہے؟
جواب: لفظ صرف حروف کا مجموعہ نہیں ہوتا، بلکہ معنی بھی رکھتا ہے اور معنی کے ساتھ اس میں معنویت بھی پوشیدہ ہوتی ہے۔ لفظ محض آواز بھی نہیں ہوتا کہ منہ سے نکل کر تحلیل اور ہوا میں اُڑ کرگم ہوجائے، بلکہ ہمارے جذبات اور احساسات کا ترجمان ہوتا ہے۔ پھر بعض الفاظ وہ ہوتے ہیں جوبرائی کا استعارہ ہوتے ہیں اوربعض تقدس اور پاکیزگی کی چادر لپیٹے ہوتے ہیں ۔پیغمبر کا لفظ اصطلاحی معنی کے لحاظ سے نہایت مقدس اور ایسے بلند ترین منصب پر دلالت کرتا ہے جو روحانیت کی معراج ہے اور اس سے بلند دینی مقام ممکن نہیں ہے۔
یہ منصب نہ ذاتی اورنہ کسبی ہے، بلکہ وہبی اور آسمانی ہے اورخالص اللہ تعالیٰ کی عطا سے ملتا ہے۔ اس لفظ کا لفظی معنی کے اعتبار سے ایک ایسے شخص کے لیے استعمال جائز ہے جو نبی یا رسول نہ ہو، مگر اصطلاحی معنی کے لحاظ سے ایسے شخص کےلیے اس کا استعمال جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی یا رسول بناکر نہ بھیجا گیا ہو، نہ صرف یہ کہ جائز نہیں ہے، بلکہ کفر کا باعث ہے۔ اگر کوئی غیر نبی کے لیے یہ ترکیب استعمال کرے اور لغوی معنی مراد لے تو اسے کفر نہیں کہا جاسکتا، مگر لفظ کا تقدس اس سے ضرور پامال ہوتا ہے اور عام لوگوں کے لیے یہ ترکیب غلط فہمی کا باعث بن سکتی ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ کے لیے لفظ ’’یزداں‘‘ کا استعمال جائز نہیں ہے۔ مجوس اسے ایک خاص نظریے کے مطابق استعمال کرتے ہیں ،ان کے عقیدے کے مطابق ایک خالق خیر’’یزداں‘‘ ہے اور ایک خالق شر’’اہرمن‘‘ ہے۔ اس طرح وہ دوخداؤں کے قائل ہیں۔ یہ عقیدہ اسلام کے عقیدۂ توحید کے صریح مخالف ہے۔اس سے دوئی اور ثنویت کی نہ صرف بو آتی ہے، بلکہ یہ صریح طور پر ایک سے زائد خداؤں کے وجود پر دلالت کرتا ہے، کیوں کہ یزداں کے مقابلے میں اہرمن ہے،اس لیے اللہ تعالیٰ کے لیے یزداں کے استعمال سے گریز لازم ہے ۔
قرآن حکیم ہمیں الفاظ کے استعمال میں احتیاط کی تعلیم دیتا ہے۔اس کی مثال لفظ ’’راعنا‘‘ ہے جو سورۂ بقرہ کی آیت نمبر ۱۰۴ میں وارد ہے۔آیت کے ابتدائی حصے کا مفہوم یہ ہے کہ ایمان والو !راعنا نہ کہو، بلکہ اُنظرنا کہا کرو۔ لفظ ’’راعنا‘‘ فصیح و بلیغ ہے اور جب سے عربی زبان ہے، اس وقت سے بولا اور سمجھا جارہا ہے، مگر یہود جب نبی کریم ﷺ کی مجلس میں حاضر ہوتے اور گفتگو کا سلسلہ چل پڑتا تو آنحضرت ﷺ کو مخاطب کرکے یہ لفظ استعمال کرتے ۔راعنا کا مطلب یہ ہے کہ ہماری رعایت کیجیے، ہماری سنیے، اس لحاظ سے یہ لفظ ٹھیک اور درست تھا، مگر یہودیوں کی مذہبی زبان عبرانی میں اس سے ملتا جلتا ایک اورلفظ بے احترامی اور بددعا کے طور پر استعمال ہوتا تھا، نیز اگر اسی لفظ میں عین کو ذرا کھینچ کر ادا کریں تو وہ ’’راعینا‘‘ بن جاتا ہے جس کا معنی ’’ہمارے چرواہے‘‘ ہے۔
یہود یہ گستاخی اپنے بغض وحسد کی وجہ سے کرتے تھے ۔اصول یہ ہے کہ جب تلواریں کند ہوجاتی ہیں تو الفاظ نوکدار ہوجاتے ہیں اور دل کا غبار الفاظ کے ذریعے نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ یہود بھی اس ذومعنی لفظ کے استعمال سے دل کا غبار نکالتے تھے ۔صحابۂ کرام ؓ صاف دل کے مالک تھے ،اس لیے ان کی توجہ اس جانب نہیں ہوئی، مگر اللہ تعالیٰ چوں کہ ہرظاہر وباطن سے واقف ہے اور وہ لحن القول کو بھی جانتا ہے، اس لیے اس نے آیت شریفہ کے ذریعے مسلمانوں کو یہود کی اس شرارت کی طرف توجہ دلائی اور انہیں حکم دیا کہ تم بجائے ’’راعنا ‘‘کے اس کا متبادل ’’اُنظرنا‘‘(ہماری طرف توجہ فرمائیے) کہہ لیا کرو۔غرض لفظ ٹھیک تھا، مگر یہود کی نیت اسے خراب معنی میں استعمال کرنے کی تھی، اس لیے مسلمانوں کو ایسے لفظ کے استعمال سے روک دیا گیا اور یہ تعلیم دے دی گئی کہ ایسے الفاظ کااستعمال مناسب نہیں ہے جس میں غلط مفہوم کا احتمال ہویا جس سے کوئی غلط فہمی پیدا ہوسکتی ہو۔