• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے موسم پر ان دنوں دھند اور اسموگ کا راج ہے۔ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا۔آگے بڑھنے کا سفر رک سا گیا ہے۔تمام قومی شاہراہیں اس دھند کی لپیٹ میں ہیں۔ اس موسم میں کسی کے آنے کا پتہ چل رہا ہے نہ جانے کا۔بس کچھ اسی سے ملتا جلتا موسم ہمارے سیاسی افق پر بھی طاری ہے۔ بےیقینی کی ایسی کیفیت ہے جس کا لفظوں میں بیان ممکن نہیں۔ سیاسی ماحول پر حبس کی کیفیت ہے۔ہر طرف سے تازہ اور ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں کا انتظار کیا جارہا ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ اب انتظار کی گھڑیاں ختم ہونے کو ہیں۔پاکستان اس وقت جس بدترین معاشی بحران کا شکار ہے تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ڈالر کی اڑان کو روکنا مشکل ہو گیا ہے۔روپیہ بری طرح اپنی قدر کھو چکا ہے۔صنعتی سرگرمیاں ٹھپ پڑی ہیں۔بے روزگاری کا جن بے قابو ہو چکا ہے۔اوپر سے حکومتی بد تدبیری عروج پر ہے۔ملک کا نظم و نسق منجمد ہوا پڑا ہے۔لیکن اس کے باوجود بظاہر اس حکومت کو کوئی خطرہ نظر نہیں آرہا۔ایک بے جان سی اپوزیشن ہے جس کے تن مردہ میں زندگی کے آثار تک نظر نہیں آ رہے۔اپوزیشن جماعتیں اپنے اپنے مفادات کے حصار میں قید ہیں۔بڑے قد اور سیاسی رہنما اپنی مجبوریوں کے اسیر ہیں۔پارلیمنٹ کے اندر ہوں یا پارلیمنٹ سے باہر، عوامی مفاد کی بات ان کے منہ سے کم ہی سنائی دیتی ہے۔جب بھی بولتے ہیں اپنا رونا روتے ہیں۔اس لیے اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ مارچ میں ہونے والے پی ڈی ایم کے لانگ مارچ سے حکومت کو کوئی خطرہ ہے تو یقیناً اس کا اندازہ درست نہیں۔اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ نون اپنے ہی بیانیے میں گومگو کا شکار ہے۔ووٹ کو عزت دو کا نعرہ بھی بلند ہوتا ہےاور بیک ڈور چینل سے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی بات چیت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔کبھی ٹویٹر سر گرم ہوتا ہے تو کبھی جلسوں کا میدان سجایا جاتا ہےلیکن تاحال اس کی سمت واضح نظر نہیں آتی۔بیانیے کی قید میں مقید مسلم لیگ نون، حکومت کے لیے کوئی موثر اپوزیشن ثابت نہیں ہو سکتی۔پاکستان پیپلز پارٹی بھی انہی مجبوریوں کا شکار ہے۔آصف علی زرداری کی حکمت اور بلاول بھٹو زرداری کا جوش، حکومت کو ٹف ٹائم دینے میں دلچسپی نہیں دکھا رہے مولانا فضل الرحمان بھی ایک قدم آگے تو چار قدم پیچھے چلتے ہوے نظر آ رہے ہیں۔تو پھر آخر کیا وجہ ہے اسلام آباد کے ڈرائنگ روموں میں ہونے والی سرگوشیاں اب بلند آوازوں میں تبدیل ہونے لگی ہیں۔افسر شاہی کے اہم ارکان کھلے بندوں حکومت کے جانے کی باتیں کرنے لگے ہیں۔حکومتی جماعت سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی ٹکٹوں کی بھاگ دوڑ میں مصروف ہیں۔بلدیاتی الیکشن کی آڑ میں قومی انتخابات کی ریہرسل شروع ہوچکی ہے۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہو رہی ہے۔اقتدار کی شب دیگ میں پکنے والی کھچڑی کیسا رنگ نکالتی ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن باخبر لوگوں کی سرگوشیاں چیخ چیخ کر یہ کہہ رہی ہیں

جی کا جانا ٹھہر گیاہے، صبح گیا یا شام گیا

حکومت کے حامی حلقے تو یہ کہتے ہیں کہ حکومت اپنی مدت پوری کرے گی۔

عمران خان کی کرشماتی شخصیت نے پوری دنیا کو اپنے سحر میں لیا ہوا ہے۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کی جانے والی تقریروں کی گونج ابھی تک عالمی ایوانوں میں گونجتی سنائی دیتی ہے۔خارجہ پالیسی کے میدان میں حکومت نے اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑے ہیں۔اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کی ہونے والی کانفرنس اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔افغانستان میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔مختلف ممالک کے ساتھ دوستی کے نئے دروازے کھلے ہیں۔اندرون ملک بھی استحکام کی حالت ہے۔تحریک انصاف عمران خان کی قیادت میں متفق اور متحد ہے۔خیبر پختونخوا میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات نے ثابت کیا ہے کہ تحریک انصاف کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی۔تمام تر مشکل حالات کے باوجود تحریک انصاف کا ووٹر اپنی جماعت کے ساتھ کھڑا ہے۔ایسےحالات میں حکومت کو کون سے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔یہ ساری باتیں اپنی جگہ پر درست مان لیتے ہیں۔لیکن ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ملک کا نظم و نسق نہیں چل رہا۔اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ پاکستان عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہے۔اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ شبر زیدی کے بقول پاکستان گویادیوالیہ ہو چکا ہے۔اس امر سے بھی آنکھیں چرانا ممکن نہیں کہ پاکستان کے روایتی دوست اس کے ساتھ کھڑے نظر نہیں آ رہے۔پاکستان کے معاشی اشاریے بھی درست نہیں اور سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ آئی ایس آئی چیف کے تقرر کے معاملہ پر پیدا ہونے والی دراڑ ابھی تک ختم نہیں ہو سکی۔حکومت اور فوج ایک پیج پر نظر نہیں آرہے۔انہی خبروں سے آگاہ ہوکر لندن میں بیٹھے مسلم لیگ ن کے جہاندیدہ لیڈر میاں محمد نواز شریف نے چوہدری برادران سے رابطہ کیا ہے۔ ان کا چوہدری پرویز الٰہی کو فون کرنا معمول کی کرٹسی کال نہیں ہے۔بلکہ اس سے اس درجہ حرارت میں کافی اضافہ محسوس کیا جا رہا ہے۔تمام سیاسی پنڈت اس بات پر متفق نظر آرہے ہیں کہ مارچ کے مہینے میں کچھ ہونے والا ہے۔مارچ میں ہونے والی متوقع تبدیلی اپوزیشن جماعتوں کی مرہون منت نہیں بلکہ حکومت اپنے ہی بوجھ تلے دم توڑ رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مجھے یہ بات کہنے میں کوئی عار نہیں کی اگر موجودہ حکومت نے مارچ کا مہینہ گزار لیا اور اسے کسی نئے بحران کا سامنا نہ کرنا پڑا تو پھر یہ حکومت اپنے پانچ سال پورے کرے گی۔لیکن یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ حکومت کے پانچ سال پورے کرنے کا نقصان ملک کو اٹھانا پڑے گا۔اقتدار کا ہما مناسب فرد کی تلاش میں ادھر ادھر اڑ رہا ہے۔بلاول بھٹو زرداری نے اپنے طرز عمل سے مقتدر حلقوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی ہے جس میں وہ کافی حد تک کامیاب رہے ہیں۔جبکہ میاں شہباز شریف ہمیشہ سے مقتدر حلقوں کے پسندیدہ رہے ہیں۔یار لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ انکے ہاتھوں میں وزیراعظم کی لکیر نہیں تاہم انکے صبر ایوبی کے انعام کے طور پر قدرت ان پر مہربان ہوسکتی ہے۔آنے والے تین ماہ بہت اہم ہیں۔ان مہینوں میں پاکستان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ ہونے جا رہا ہے۔فیصلہ جو بھی ہو یہ پاکستان کی سیاسی اشرافیہ کا امتحان ہوگا۔انکے سرخرو ہونے سے ملک میں سیاسی استحکام کی توقع کی جا سکتی ہے۔

تازہ ترین