• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیر اعظم پاکستان نے 14اگست کوپرچم کشائی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا خطے کی قسمت کا فیصلہ پاکستان کو شریک کئے بغیر ممکن نہیں ۔ یقیناً کوئی دوسری رائے ہو ہی نہیں سکتیں۔الیکشن میں کامیابی کے ساتھ ہی وزیر اعظم نے بھارت سے1998 کی د وستی بس کی آمدسے تعلقات کی بحال کا عندیہ دیا تھا ۔پاکستان کی ساری قابل ذکر لیڈر شپ اور سیاسی پارٹیاں بھارت سے خوشگوار تعلقات کی خواہاں ہیں ۔اس کی ایک وجہ بھارت امریکہ رومانس ہے ،دوسری یہ کہ ہم جنگ کے متحمل نہیں۔خوشگوار تعلقات یقینا ایک اچھی خواہش ہے مگردو متحارب ممالک کے درمیان خوشگواریت کیلئے زمینی حقائق کا معاون ہو نا بھی جزو لاینفک ہوتا ہے ،جو بد قسمتی سے نظر نہیں آتے۔
پاکستان کے اندر سی آئی اے کی کاوشوں کے اثرات 1958میں سامنے آ گئے تھے۔جرنیل اسٹیئرنگ وہیل پر بیٹھ گئے اور ہر مسئلے کاحل جنگ میں دیکھنے لگے ۔بھارت کے ایک سابق آرمی چیف نے ایک انٹر ویو میں بھارت کو مشورہ دیا تھا بھارت کو پاکستان سے محدود ایٹمی جنگ لڑ لینی چاہئے۔ دنیا بھر کے میڈیا نے ان کے خوب لتے لئے۔ عسکری ماہرین کی رائے ہے محدود جنگ کا نظریہ محض افسانہ ہے حقیقت نہیں ۔ جنرل دیپک کپور نے بھی ایسا ہی بیان دیا تھا جو بھارتی فوج کے مائنڈ سیٹ کا اظہار ہے۔ پاکستان نے1965اور کارگل دونوں جنگٰیں تنازعہ کشمیر کی جغرافیائی حدود تک محدود رکھنے کی آپشن سے شروع کیں، ,65میں بھارت نے جنگ بین الاقوامی بارڈر پر منتقل کر دی اور 1998میں بھی جنگ کو بین الاقوامی بارڈر پر منتقل کرنے کے اشارے دے دیئے تھے۔ ایٹمی جنگ کے خطرے کے پیش نظر امریکہ نے مداخلت کی اور جنگ بندی ہو گئی ۔ بھارتی اور پاکستانی عسکری قیادتوں کو تسلیم کر لینا چاہیے کوئی بھی جنگ ہوئی مکمل ہو گی محدود نہیں ۔روایتی جنگ کسی ایک کی شکست پر منتج ہو گی اور ایٹمی دونوں کی تباہی پر۔جب تک دونوں اطراف کی عسکری قوتوں کا مائنڈ سیٹ امن کیلئے معاون نہیں ہو گا، خوشگوار تعلقات کی خواہش خواب ہی رہے گی ۔
متحارب ممالک میں لین دین کا پراسیس بھی امن کے لئے ایک معاون tool مانا جا تا ہے ۔ماضی میں بھارت کا موقف تجارت رہا ہے ،پاکستان کا دو ٹوک موقف تھا پہلے کشمیر پھر تجارت۔1998 میں پاکستان نے بھارتی موقف تسلیم کر لیا ،بھارت کے پاس مذاکرات سے انکار کا کوئی جوازنہیں بچا تھا لہٰذا واجپائی دوستی بس پر بیٹھ کر پاکستان آ گئے۔ وہ تجارت کرنے آئے تھے ۔میری بھی رائے ہے دونوں ممالک میں تجارت ہونی چاہیے مگر کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر ۔ مستقل تجارتی عدم توازن نہ تجارت کیلئے مناسب ہو سکتا ہے اور نہ ہی امن کے لئے ۔ایوب دور میں بھی پاک بھارت بارٹر تجارت کی بات ہو ئی ۔ بھارت نے300 اشیاء کی لسٹ فراہم کی جو بھارت میں پاکستان کی نسبت سستی تھیں ۔ جبکہ پاکستان کے پاس ماسوائے نمک کے کوئی ایسی پراڈکٹ نہ تھی جو بھارت سے سستی ہو ۔ اب بھی حالات وہی ہیں اگر مختلف ہیں تو وزیر اعظم میڈیا کو ان اشیاء کی لسٹ فراہم کردیں جو پاکستان میڈ ہیں اور بھارت کی نسبت سستی ہیں ۔ جنرل مشرف کے دور میں جب ہماری بیو رو کریسی نے سینما اونرز سے مل کر بھارتی فلموں کی درآمد کا شوشہ چھوڑا تھا تو موقف تھا مسابقت کے ماحول میں پاکستانی فلم انڈسٹری کو بہتر کارکردگی کا موقع ملے گا ۔آج پاکستان کی فلم انڈسٹری خوردبین سے بھی کہیں نظر نہیں آتی۔ بھارت میں انڈسڑیلایزیشن ہورہی ہے وہ ہم سے سریا سیمنٹ خرید لیں گے مگر کب تک ۔جیسے آجکل پیاز کی قلت ہے تو پاکستان سے امپورٹ کر لیں گے مگریہ عارضی فیز تجارت نہیں کہلاتے ۔ ہم چین سے 9 ارب ڈالر کی تجارت کرتے ہیں8 ارب چین کماتا ہے ایک ارب ہم ، یہی توازن تجارت بھارت کے ساتھ ہو گا توکب تک چلے گا۔ کالم کاموضوع ہے خوشگوار تعلقات اور مذاکرات۔ میرے پاس بیٹھے ہوئے ایک دوست نے سوال کیا ،کیا ہم مذاکرات سے کشمیر لے لیں گے ،میں ہنس پڑا بھائی جنگ کے میدانوں میں کھو جانے والے اثاثے مذاکرات کی میزوں پر نہیں ملا کرتے۔کشمیر حاصل کرنے کے تین مواقع تھے وہ ہم تینوں کھو چکے۔پہلا جب نہرو نے محسوس کیا امریکہ بھارت کی غاصبانہ پالیسی کو اس خطے میں دیا سلائی کے طور پر استعمال کرے گا تو اس نے سردار پٹیل کے ذریعے پیغام بھیجا اگر پاکستان حیدر آباد دکن اور جونا گڑھ پر بھارتی قبضہ تسلیم کر لے تو بھارت کشمیر سے دستبردار ہوسکتا ہے۔ امریکہ نے وزیر اعظم لیاقت علی خان سے کہا تینوں ریاستیں آپ کی ہیں ہم آپکو دلائیں گے ۔آج بھارت کو کہہ رہا پورا پاکستان آپ کا ہے اور ہم آپکے ساتھ ہیں۔1962 میں جب چین بھارت جنگ ہو رہی تھی مگر امریکہ نے ہمیں روکے رکھا ۔80 کی دہائی میں جب امریکہ کو سوویت یونین توڑنے کیلئے پاکستان کی ضرورت تھی۔ موصوف فرمانے لگے تو ہمیں اقوام متحدہ میں جانا چاہئے جس نے ہمارے حق میں فیصلہ دے رکھا ہے ۔میں پھر ہنس پڑا بھولے بادشاہ ہمارے حکمران ہم سے جھوٹ بھولتے ہیں۔ اقوام متحدہ کا فیصلہ پنچائتی فیصلہArbitration ہے ۔ اگر فریقین کو قبول ہے تو اقوام متحدہ فیصلے پر عمل درآمد کیلئے سہولتیں فراہم کرنے کو تیار ہے ۔یو این او کے چارٹرکے چیپٹر6 کے مطابق تمام فیصلے پنچائتی ہوتے ہیں کسی فریق پر Binding نہیں ہوتے۔ چیپٹر 7 کے تحت ہونے والے فیصلے Binding ہوتے ہیں اور بذریعہ طاقت نافذ کئے جاتے ہیں جیسے 2001 میں افغانستان کے خلاف فیصلہ ہو ا،طالبان کے انکار سے نیٹو افواج نے حملہ کر دیا ۔ یہ سب کچھ نیٹ پر موجودہے ۔کشمیر کا ایک حل تھرڈ آپشن یعنی کشمیر بطور آزاد ریاست بھی کہا جاتا ہے ، حریت کانفرنس کا بھی یہی موقف ہے ۔ حریت کانفرنس کے تیار کردہ نقشے کے مطابق آزاد کشمیر کی جغرافیائی حدود اس طرح ہے۔جموں سے مظفر آباد، گلگت بلتستان سے جہلم کے شہر دینہ بشمول منگلہ ڈیم شاہراہ ریشم اور لداخ تک ،پاکستان بھارت اور چین کے زیر قبضہ علاقے ۔ کیا تھرڈ آپشن پاکستان کو قبول ہو گا ۔کشمیر کی جغرافیا ئی حدودکے متعلق بھارت کا مئوقف بھی یہی ہے۔ یاد رکھیں بھارتی افواج سیاچن پر پانی ٹھنڈا کرنے کیلئے برف لینے نہیں آئیں پاکستان سے علاقے واگزار کر وانا یا مذاکرات میں زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا ان کا مقصد ہے ۔بھارت سیاچن کے بہت بڑے حصے پر قابض ہے جبکہ پاکستان سالتورو رینج کے مغربی ڈھلانوں میں ہے ۔بھارت نے بلند چوٹیوں پر ہیلی پیڈ تک بنالئے ہیں اور فون لائن لے آیا ہے ۔وہ سیاچن پر اپنا قبضہ مضبوط کر رہا ہے ، مقاصد دور رس اورگہرے ہیں ۔بھارتی پالیسی سازوں کی رائے ہے سیاچن پر رکنے کی قیمت ہے اور پاکستان کی کمزور معیشت اس کی زیادہ دیر تک متحمل نہیں ہو سکتی ،خود ہی ایک دن پاکستانی اتر جائیں گے ۔ پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم 2012میں پاکستانی فوج کو یکطرفہ واپسی کا مشورہ دے چکے ہیں جو زمینی حقائق سے مماثل نہیں۔جیسا میں نے پہلے لکھا ہے بھارتی افواج اور پینٹاگون میں رومانس اسی طرح شروع ہو چکا ہے جس طرح کبھی جی ایچ کیو میں تھا۔ نتائج بھی سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں ۔ فوج طاقت پکڑ نے لگی ہے اور جمہوریت کمزور ہونے لگی ۔منموہن سنگھ کی حیثیت پاکستان کے اوائل عمری کے وزرائے اعظم سے کسی طور مختلف نہیں ۔کبھی بھارتی آرمی چیف سیاست پر بات نہیں کرتے تھے اب جنرل بکرم سنگھ ڈکٹیشن دے رہے ہیں۔ 2012 میں سیاچن پر پاک بھارت ملٹری سیکرٹریز کے مذاکرت بھارتی جنرل کے بیان ہم سیاچن پر بہتر پوزیشن میں ہیں اتریں گے نہیں ختم ہو گئے تھے ۔خطے میں بھارتی افواج کی Deployment سے اندازہ ہو تا ہے اس نے پاکستان کو ہرسمت سے گھیرنے کا پلا ن بنا رکھا ہے ۔ سیاچن سے افغانستان تک اور Loc پر بڑی اور طاقتور فوج کا اظہارکس امن کی شاہراہ کی نشاندہی ہے ۔ بڑی فوج ہیں ،روایتی ہتھیاروں میں برتری حاصل ہے ،270ارب ڈالر سے زائدریزو ہیں ،امریکہ اور روس سے مثالی تعلقات ہیں۔یاد رکھیں جنگی فریقین اور جنگ زدہ علاقوں کے فیصلے بھارتی فوج کرتی ہے ،جس کی پشت پر پینٹاگون کا ہاتھ ہے ۔ مذاکرات کی پیشکش پاکستان کے معروضی حالات کے مطابق درست ہو سکتی ہے مگر خطے کے لئے نہیں۔ امریکی افواج کی واپسی کے بعد افغان جنگ نیا موڑ لے گی۔ طالبان کا رخ کابل کی طرف ہو گا ۔بھارت اپنے پاؤں جمانے کی کوشش کریگا جو پاکستان کے مفادات سے متصادم ہو گا ۔امن کی خواہش رکھنا اچھی بات ہے مگر یکطرفہ خواہش سے قائم نہیں ہو سکتا ۔آپ ٹریفک لاز کے مطابق گاڑی چلا رہے ہیں کوئی غلط سمت سے آپکی گاڑی ٹھوک دے آپ کیا کریں گے ۔خطے میں امن کے راستے میں پینٹاگون اور بھارتی فوج کے عزائم حائل ہیں، پھر خوشگوار تعلقات اور امن کیسے قائم ہوں گے۔
تازہ ترین