• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

آنجہانی راجہ تری دیو رائے اور محمود علی مرحوم دو عظیم بنگالی لیڈر تھے جنہوں نے بنگلہ دیش کی شہریت قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا، دونوں نے پاکستانی کی حیثیت سے جینے اور مرنے کا فیصلہ کیا۔ راجہ تری دیو رائے اپنے قبیلے کے سردار تھے، اسی طرح محمود علی بھی صاحبِ جائیداد تھے لیکن دونوں نے اپنا سب کچھ پاکستان پر قربان کر دیا۔ میں محمود علی کے ہاں اکثر جایا کرتا تھا، انہیں حکومت نے وفاقی وزیر کے برابر سہولیات دے رکھی تھیں، وہ برملا یہ بات کہا کرتے تھے کہ ’’میں اپنے پاسپورٹ پر بنگلہ دیش کے ویزے کی مہر نہیں لگوانا چاہتا‘‘۔ محمود علی اسلام آباد کے قبرستان میں ابدی نیند سو رہے ہیں جب کہ راجہ تری دیو کی وفات کے بعد ان کی آخری رسوم اسلام آباد میں ہی ادا کی گئیں۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد اقوامِ متحدہ سے راجہ تری دیو رائے پاکستان واپس آئے تو اسلام آباد ایئرپورٹ پر ذوالفقار علی بھٹو نے اُن کا شاندار استقبال کیا اور انہیں ایک جلوس کی شکل میں اسلام آباد لایا گیا۔ شیخ مجیب الرحمٰن کے قتل کے بعد مشتاق کھنڈکر بنگلہ دیش کے صدر بنے، میں نے ان سے ٹیلی فون پر بات کی، ضعیف العمری کی وجہ سے ان سے ملاقات نہ ہو سکی، انہوں نے ٹیلی فون پر ہی بات چیت پر اکتفا کیا، انہوں نے پاکستان کے لیے جس محبت کا اظہار کیا اس سے ان کے اندر پائی جانے والی ’’پاکستانیت‘‘ کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔ میں نے لیفٹیننٹ کرنل سید فاروق رحمن کا ٹھکانہ بھی تلاش کر لیا تھا جو کئی برسوں سے ڈھاکہ کی فوجی چھائونی کے میس میں قیام پذیر تھے۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انہیں اس بات کا خدشہ تھا کہ وہ چھائونی سے باہر عوامی لیگ کے غنڈوں کے ہاتھوں انتقام کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ ان کے اندر بھی ’’پاکستانیت‘‘ کوٹ کوٹ کر بھری تھی، وہ شیخ مجیب الرحمنٰ کے حفاظتی دستے کے کمانڈر تھے جس کے 12افسروں نے شیخ مجیب الرحمٰن اور ان کے اہلِ خانہ کے تمام افراد کو موت کے گھاٹ اتارا تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بیگم حسینہ واجد شیخ مجیب الرحمٰن کے قتل کا الزام بھی پاکستان پر عائد کرتی رہی ہیں، لیفٹیننٹ کرنل فاروق برملا یہ بات کہتے تھے کہ ’’پاکستان کو دولخت کرنے میں جہاں دیگر کردار نمایاں تھے وہاں شیخ مجیب الرحمٰن کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، اگر شیخ مجیب الرحمٰن چاہتے تو پاکستان دو ٹکڑے ہونےسے بچ جاتا لیکن انہوں نے مشرقی پاکستان میں سول نافرمانی کی کال دے کر بنگالیوں کو بغاوت پر اکسایا جس کے نتیجے میں بات آرمی ایکشن تک پہنچ گئی، بیگم حسینہ واجد نے اقتدار سنبھالتے ہی جہاں اپنے باپ اور خاندان کے دیگر افراد کے قاتلوں کو چن چن کر پھانسی کے تختے پر لٹکا یا وہاں انہوں نے جماعتِ اسلامی کے رہنمائوں عبدالقادر ملا، مطیع الرحمٰن، میر قاسم علی، قمر الزمان اور مسلم لیگ کے صلاح الدین چوہدری کو بھی سزائے موت دی جبکہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے امیر پروفیسر غلام اعظم پیرانہ سالی کی وجہ سے اسپتال میں زیر علاج تھے، ان کو بھی سزائے موت دی جانی تھی لیکن اسپتال میں ان کا انتقال ہو گیا۔ میں نے متحدہ پاکستان کی قومی اسمبلی کے اسپیکر فضل القادر چوہدری کے صاحبزادے صلاح الدین چوہدری سے بھی ملاقات کی، ان کی آواز میں اپنے والد کی طرح گھن گرج پائی جاتی تھی، وہ بنگلہ دیش کی پارلیمنٹ کے رکن بھی منتخب ہوئے انہوں نے بنگلہ دیش سے وفاداری کا حلف بھی اٹھایا لیکن بیگم حسینہ واجد نے ان کو بھی پاکستان سے محبت کی سزا دی۔ میں نے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے امیر پروفیسر غلام اعظم سے ان کے دفتر میں ملاقات کی، انہوں نے ایک پاکستانی صحافی سے ملاقات کرکے جس خوشی کا اظہار کیا اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ وہ بھی پاکستان سے بےپناہ محبت کرتے تھے انہوں نے کہا کہ جماعتِ اسلامی کے کارکنوں نے ’’البدر و الشمس‘‘ میں شامل ہوکر دفاع پاکستان میں اپنا قومی فریضہ ادا کیا۔ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی تیسری بڑی سیاسی قوت ہے یہی وجہ ہے کہ بیگم حسینہ واجد نے جماعت اسلامی کو پاکستان کی حامی جماعت قرار دے کر پابندی لگا دی ہے لیکن جماعت اسلامی پابندیوں سے کیسے ختم ہو سکتی ہے، وہ آج بھی نئے نام سے پوری قوت سے کام کر رہی ہے۔ میں میر پور(ڈھاکہ) میں بہاریوں کی بستی بھی دیکھنے گیا جہاں محصور پاکستانی (اب بھی)نصف صدی سے پاکستان آنے کے منتظر ہیں۔وہ پاکستان آنا چاہتے ہیں لیکن حکومت پاکستان، سندھ حکومت کی مخالفت کی وجہ سے اب تک انہیں پاکستان واپس نہیں لا سکی، انہوں نے انتہائی کسمپرسی کے عالم میں زندگی بسر کرنا قبول کر لی ہے لیکن بنگلہ دیش کی شہریت اختیار نہیں کی، ان کے دل آج بھی پاکستان کے لیے دھڑکتے ہیں۔ جب پاکستان دو لخت ہوا تو اس وقت مغربی پاکستان کے مقابلے میں مشرقی پاکستان کی آبادی 6فیصد زائد تھی لیکن پچھلے پچاس سال کے دوران بنگلہ دیش نے اور کچھ کیا یا نہیں اپنی آبادی کنٹرول کر لی ہے، آج بنگلہ دیش کی آبادی 19کروڑ ہے جبکہ پاکستان کی آبادی 23کروڑ سے تجاوز کر گئی ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ بنگلہ دیش کی فی کس آمدنی پاکستان کے مقابلے میں دو گنا ہو گئی ہے، یہ سب کچھ پچھلے دو اڑھائی سال میں ہوا جبکہ پاکستان میں عمران خان کی حکومت میں ترقی کا پہیہ رک گیا ہے۔ بنگلہ دیش کی برآمدات میں اس لیے اضافہ ہوا ہے کہ اسے پاکستان کے مقابلے میں مغربی ممالک کی سرپرستی حاصل ہے، اسے خصوصی کوٹہ دیا گیا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بنگلہ دیش کی معیشت کے اعشاریے ہم سے بہتر ہونے کے باوجود وہاں ہم سے زیادہ غربت ہے، آج بھی لاکھوں بنگالی کراچی میں روزگار کے سلسلے میں موجود ہیں، بنگلہ دیش میں اگر پاکستان سے زیادہ خوشحالی آگئی ہے تو پھر یہ بنگالی بنگلہ دیش کیوں نہیں چلے جاتے؟ بنگلہ دیش الگ ملک تو بن گیا لیکن وہ خطے میں بھارت کی طفیلی ریاست بن گیا ہے۔

تازہ ترین