• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا کا زور ٹوٹنے کے بعد کھیلوں کی سرگرمیاں بحال ہوئیں

گزشتہ دو برسوں میں خوف ناک وبا، کورونا نے نہ صرف دنیا بھر کی معیشت کو بُری طرح متاثر کیا، بلکہ کھیلوں کا بھی بیڑا غرق کرکے رکھ دیا۔ خصوصاً2020ء میں تو کورونا کا مکمل عروج رہا،مگر 2021ء کے وسط سے ٹوکیو اولمپکس، ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ورلڈ کپ، یورپین فٹ بال ٹورنامنٹ اور جونیئر ہاکی ورلڈ کپ سمیت دنیا بھر میں کھیلوں کی سرگرمیاں بتدریج بحال ہونے لگیں۔ جائزے میں سب سے پہلے ٹوکیو اولمپکس کا احوال پیشِ خدمت ہے۔ 206ممالک کے 11656ایتھلیٹس کی میزبانی کرنے والی حکومتِ جاپان اور اولمپکس کے منتظمین یقیناً مبارک باد کے مستحق ہیں کہ جنہوں نے کھیلوں کا سب سے بڑا میلہ انتہائی منظّم انداز میں منعقد کیا۔ 

اس دوران33کھیلوں کے 50ڈسپلن اور 339 ایونٹس ہوئے۔ کھلاڑیوں میں انفرادی اور ٹیم مقابلوں میں میڈلز جیتنے کی جنگ 23جولائی سے شروع ہوئی، جو8؍اگست تک جاری رہی۔ امریکا نے مجموعی طور پر 113تمغے جیت کر پہلی پوزیشن حاصل کی، امریکی کھلاڑیوں نے انفرادی کھیلوں اور ٹیم ایونٹس میں39طلائی 41چاندی اور 33کانسی کے تمغے جیتے۔ دوسرے نمبر پر چین رہا، جس نے 38طلائی تمغوں سمیت 88میڈلز اپنے نام کیے۔ میزبان جاپان نے 27اور برطانیہ نے 22طلائی تمغے جیتے۔ 

جب کہ واڈا رولز کی خلاف ورزی کی پاداش میں روس کا دستہ ٹوکیو اولمپکس میں شرکت نہ کرسکا۔ البتہ اس کے ایتھلیٹس اولمپک پرچم کے زیر سایہ ایشین اولمپک کمیٹی کے تحت گیمز میں شریک ہوئے اور 20طلائی، 28چاندی اور 23کانسی کے تمغے اپنے نام کیے۔ جب کہ کُل 65ممالک کے ایتھلیٹس نے طلائی تمغے اور93ممالک نے کوئی نہ کوئی تمغا ضرور حاصل کیا، لیکن افسوس، پاکستان ایک بھی تمغا اپنے نام نہ کرسکا۔ ہاں البتہ دس ایتھلیٹس کو اولمپئن کا اعزاز ضرور مل گیا۔ 

ایتھلیٹک، بیڈمنٹن، جوڈو، ویٹ لفٹنگ، شوٹنگ اور سوئمنگ کے مقابلوں میں پاکستانی کھلاڑی شریک ہوئے۔ خواتین کی دو سو میٹر ریس میں نجمہ پروین 28.72سیکنڈ کے وقت کے ساتھ پہلی ریس سے آگے نہ جاسکیں۔ بیڈمنٹن میں ماحور شہزاد کو گروپ کے دونوں میچز میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ سوئمنگ میں50میٹر فری اسٹائل میں بسمہ خان 27.78سیکنڈ وقت کے ساتھ 56ویں نمبر پر رہیں۔ مَردوں میں 100میٹر فِری اسٹائل میں محمد حسیب طارق کی شرکت بھی برائے نام رہی۔ 

وہ 53.81سیکنڈ میں مقررہ فاصلہ طے کرکے 62ویں نمبر پر آئے۔ شوٹنگ کے مقابلوں میں خلیل اختر اور غلام مصطفیٰ بشیر نے 25میٹر ریپڈ فائر پسٹل اور گلفام جوزف نے 10میٹر ائرپسٹل میں شرکت کی، لیکن دونوں ہی میڈلز سے دُور رہے۔ جوڈو میں شاہ حسین شاہ 100کلو گرام کیٹگری کی رائونڈ آف 32میں مصر کے کھلاڑی سے شکست کھاگئے، تاہم ان تمام کھلاڑیوں کو ’’اولمپئن‘‘ کا اعزاز ضرور حاصل ہوگیا۔ 

ہاں، البتہ ارشد ندیم اور طلحہٰ طالب نے ٹوکیو اولمپکس میں اپنی شرکت کے نشان ضرور چھوڑے۔ ارشد ندیم نے جیولین تھرو ایونٹ میں فائنل کے لیے کوالیفائی کیا، تاہم فائنل میں بدقسمتی سے زیادہ لمبی تھرو نہ کرسکے اور 84.62میٹر تک نیزہ پھینک کر پانچویں پوزیشن حاصل کرپائے۔ 

وہ میڈل تو نہیں جیت سکے، لیکن انھوں نے پوری قوم کے دل ضرور جیت لیے۔ اسی طرح طلحہ طالب، ویٹ لفٹنگ میں 170 کلو گرام وزن اٹھاکر ساتویں نمبر پر اور مجموعی وزن میں 320 کلو گرام کے ساتھ پانچویں نمبر پررہے۔اولمپکس، ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ یا جونیئر ہاکی ورلڈ کپ میں تو پاکستان کوئی میڈل یا پوزیشن حاصل نہیں کرسکا، لیکن پیرالمپکس گیمز میں پولیو کے شکار حیدر علی نے اسٹینڈنگ ڈسکس تھرو ایونٹ میں 55.26میٹرز کے فاصلے کے ساتھ پہلا گولڈ میڈل حاصل کیا۔

سالِ گزشتہ، کرکٹ کے بڑ ے ایونٹ ’’ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ‘‘ میں فتح کا تاج پہلی بار آسٹریلیا کے سر سجا۔ میگا ایونٹ میں پاکستانی ٹیم ٹائٹل تو نہ جیت سکی، لیکن اس کی کارکردگی تمام ٹیموں کے لیے مثال ضرور بنی۔ گرین شرٹس نے پہلے ہی میچ میں بھارت کو ایسی شکست دی کہ دنیا بھر میں کرکٹ کے شیدائی اس میچ کو برسوں یاد رکھیں گے۔اس سے پہلے بھارت کو ورلڈ کپ مقابلوں میں کبھی پاکستان سے شکست نہیں ہوئی تھی، لیکن اس بار کہانی پلٹ گئی۔ ایک دن کے وقفے کے بعد پاکستانی ٹیم کا مقابلہ نیوزی لینڈ سے ہوا،تو بھی گرین شرٹس نے بہترین پرفارمینس کا مظاہرہ کرتے ہوئے 5وکٹس پر ہدف پورا کرلیا۔ 

افغانستان کے خلاف میچ میں بھی اچھے کھیل کا مظاہرہ کیا، لیکن اسے آخری دو اوورز میں فتح کے لیے 24 رنز درکار تھے،تو ایسے میں آصف علی نے ایک ہی اوور میں چار چھکّے لگا کر میچ کو یادگار بنادیا۔ سُپر 12تک رسائی حاصل کرنے والی ٹیموں نمیبیا اور اسکاٹ لینڈ کے خلاف بھی گرین شرٹس نے بآسانی فتح حاصل کی اوراپنے تمام لیگ میچز جیت کر سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرلیا۔ گروپ میں سیمی فائنل تک پہنچنے والی دوسری ٹیم نیوزی لینڈ رہی، جب کہ بھارت، اسکاٹ لینڈ اور نمیبیا کا سفر تمام ہوگیا۔ 

دوسرے گروپ سے انگلینڈ اور آسٹریلیا نے سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کیا۔ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے پہلے سیمی فائنل میں انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کے درمیان مقابلہ ہوا۔ ون ڈے کے عالمی چیمپئن، انگلینڈ نے 4 وکٹ پر 166 رنز بنائے، لیکن نیوزی لینڈ نے ہدف 5وکٹ پر ایک اوور پہلے حاصل کرلیا۔ دوسرے سیمی فائنل میں پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان مقابلہ ہوا۔

ایونٹ میں پاکستان نے چھٹے اور اہم میچ میں بھی ایک وننگ کامبی نیشن برقرار رکھا اور پہلے کھیلتے ہوئے چار وکٹ پر 176رنز بنائے۔ جواب میں ڈیوڈ وارنر اور اسٹوائنس نے ٹیم کی اننگز کو اچھی طرح بِلڈ کیا۔ باوجود اس کے کہ پاکستانی بائولرز نے 96رنز پر آسٹریلوی ٹیم کے آدھے کھلاڑیوں کو پویلین پہنچادیا، آسٹریلیا کو فتح کے لیے دو اوورز میں 22رنز درکار تھے۔ ایسے میں شاہین آفریدی کی گیند پر حسن علی کے ہاتھوں میتھیو ویڈ کا کیچ کیاڈراپ ہوا کہ میچ ہی ہاتھوں سے نکل گیا۔

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے فائنل میں بھی آسٹریلیا نے شان دار پرفارمینس کے سلسلے کو برقرار رکھا اور پہلی بار ٹی ٹوئنٹی کے عالمی چیمپئن ہونے کا اعزاز اپنے نام کرلیا۔ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ تو آسٹریلیا کی جیت پر ختم ہوا، لیکن اس میگا ایونٹ اور سال 2021ء میں بابر اعظم اور محمد رضوان نے بہت سے ریکارڈز توڑے۔ محمد رضوان نے صرف ایک کیلنڈر ایئر میں سب سے زیادہ ٹی ٹوئنٹی رنز بنانے کا ریکارڈ ہی قائم نہیں کیا، بلکہ ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں ایک سال میں ایک ہزار سے زائد رنز بنانے والے دنیا کے پہلے کھلاڑی بھی بن گئے۔ 

محمد رضوان نے بابر اعظم کے ساتھ پارٹنر شپ کے ریکارڈ بھی قائم کیے، اور یہ جوڑی پانچ مرتبہ ایک سورنز سے زیادہ کی شراکت بنانے والی دنیا کی واحد جوڑی بن گئی۔ بابراعظم کا نام صرف شراکت داری ہی میں نہیں آیا، بلکہ وہ بطور کپتان سب سے زیادہ، 15نصف سنچریاں بنانے والے کھلاڑی بھی بن گئے۔اسی ٹورنامنٹ میں شعیب ملک بھی ایک ریکارڈ بنانے میں کام یاب ہوئے، انہوں نے اسکاٹ لینڈ کے خلاف 18 گیندوں پر نصف سینچری اسکور کی، جو پاکستان کی جانب سے بنائی گئی تیز ترین نصف سینچری ہے۔

کرکٹ ہی کی بات آگے بڑھائیں،تو سالِ گزشتہ پاکستان نے مجموعی طور پر 9 ٹیسٹ میچز کھیلے، جن میں نیوزی لینڈ اور ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں ایک ایک ٹیسٹ میں شکست ہوئی، جب کہ جنوبی افریقا کو دو ٹیسٹ کی سیریز میں شکست دی۔ زمبابوے کے خلاف بھی دو صفر سے کام یابی ملی۔ ایک ٹیسٹ میں ویسٹ انڈیز کو ہرایا، جب کہ بنگلا دیش کے خلاف بھی دو ٹیسٹ کی سیریز میں کلین سوئپ کیا۔ 2021ء میں پاکستانی ٹیم کو صرف چھے ون ڈے میچز ملے۔ تین میچز کی سیریز جنوبی افریقا سے ہوئی، جس میں گرین شرٹس نے دو، ایک سے کام یابی سمیٹی، جب کہ انگلینڈ میں اسے تینوں میچز میں شکست ہوئی۔ 

ٹی ٹوئنٹی میچز میں پاکستانی کھلاڑیوں نے جہاں متعدد ریکارڈز بنائے، وہیں اس فارمیٹ میں پاکستان نے ویسٹ انڈیز کے خلاف ہوم سیریز سے قبل تک 26میچز کھیلے۔ ورلڈ کپ میں 5میچز جیتے، اس کے علاوہ جنوبی افریقا سے دو سیریز اورزمبابوے، بنگلادیش سے ایک ایک سیریز کھیلی اور چاروں سیریز جیتیں۔ ویسٹ انڈیز سے چار میچز کی سیریز کے تین میچ بارش کی نذر ہوئے، جو ایک مکمل ہوا، وہ پاکستان کے نام رہا، البتہ انگلینڈ سے ہونے والے تین میچز کی سیریز میں گرین شرٹس کو دو، ایک سے شکست ہوئی۔ 

سال بھر قابلِ قدر کارکردگی کے باوجود کرکٹ بورڈ اور قومی ٹیم کی مینجمنٹ میں اچانک تبدیلی کردی گئی۔ پی سی بی کے چیئرمین احسان مانی کی مدّتِ ملازمت مکمل ہونے پر وزیر اعظم عمران خان نے سابق کپتان، رمیز راجا کو کرکٹ بورڈ کا سربراہ نام زد کیا۔ بورڈ میں تبدیلی تو احسان مانی کا کانٹریکٹ کی میعاد پوری ہونے پر ہوئی، لیکن قومی ٹیم کے ہیڈ کوچ، مصباح الحق کا استعفیٰ زیادہ حیرت انگیز تبدیلی تھی۔ ساتھ ہی بائولنگ کوچ وقار یونس بھی ازخود رخصت ہوگئے، جب کہ بیٹنگ کوچ یونس خان پہلے ہی اس سیٹ اپ سے الگ ہوچکے تھے۔ 

بعدازاں، بورڈ نے ثقلین مشتاق کو عبوری ہیڈ کوچ مقرر کیا، جب کہ آسٹریلیا کے میتھیو ہیڈن کو بیٹنگ کنسلٹنٹ اور جنوبی افریقا کے ورنن فلینڈر کی بطور بائولنگ کنسلٹنٹ خدمات حاصل کیں۔ نیز، پاکستانی کرکٹ میں ایک بھونچال اُس وقت بھی آیا، جب 3 ون ڈے اور 5ٹی ٹوئنٹی میچزکی سیریز کھیلنے کے لیے نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم، اٹھارہ سال بعد پاکستان آئی اور پہلا میچ شروع ہونے سے چند منٹ قبل دورہ منسوخ کرکے متحدہ عرب امارات روانہ ہوگئی۔ بعدازاں، انگلینڈ نے بھی اپنی ٹیم پاکستان بھیجنے سے معذرت کرلی، جسے دومیچز کی سیریز کھیلنے کے لیے اکتوبر میں کراچی آنا تھا۔ یقیناً نیوزی لینڈ اور انگلینڈ نے کچھ غیر مصدّقہ اطلاعات پر اتنے بڑے اور غیرسنجیدہ فیصلے کیے کہ بعد میں خود اس پر نادم بھی ہوئے۔ 

خیر، اگلے ہی ماہ نومبر میں انگلینڈ کرکٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹیو، ٹام ہیریسن پاکستان کرکٹ بورڈ سے تعلقات کی بحالی اور غلط فہمیاں دُور کرنے پاکستان پہنچ گئے۔ ساتھ ہی دونوں ممالک کے درمیان ایک مکمل سیریز پاکستان میں کھیلنے کا اعلان بھی کیا گیا۔ رواں برس انگلش ٹیم 5کے بجائے 7 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچز کھیلنے کے ساتھ ساتھ دو ٹیسٹس پر مشتمل سیریز کھیلنے پاکستان آئے گی، جب کہ آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیم 28سال بعد مارچ، اپریل میں پاکستان کا دورہ کرے گی۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے اس بڑی سیریز کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان سُپر لیگ کے ساتویں ایڈیشن کو تھوڑا پہلے آرگنائز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یعنی اس بار پی ایس ایل فروری/مارچ کے بجائے جنوری/فروری میں کروانے کا منصوبہ ہے۔

آئی سی سی کے تحت ہونے والی ٹیسٹ چیمپئن شپ کا فائنل 2021ء میں کھیلا گیا۔ آئی سی سی کی جانب سے فیوچر ٹور پروگرام کے تحت ہونے والی ٹیسٹ سیریز میں پوائنٹس سسٹم متعارف کروایا گیا تھا، جس کی بنیاد پر بھارت اور نیوزی لینڈ کی ٹیمیں سب سے زیادہ پوائنٹس حاصل کرکے فائنل تک پہنچی تھیں۔ فائنل پہلے تو لارڈز انگلینڈ میں طے تھا، لیکن کووڈ کے باعث یہ فائنل سائوتھمپٹن میں کھیلا گیا، جس میں نیوزی لینڈ نے بھارت کو آٹھ وکٹ سے شکست دے کر پہلا ٹیسٹ چیمپئن شپ ٹائٹل اپنے نام کیا۔

2021ء میں کرکٹ کے ساتھ ساتھ کچھ تنازعات نے بھی جنم لیا کہ آسٹریلوی ٹیسٹ کرکٹ ٹیم کے کپتان ٹم پین نے ایشیز سیریز سے چندروز قبل کپتانی چھوڑنے کا اعلان کردیا۔ ٹم پین نے 2017ء میں خاتون ساتھی کو نازیبا پیغامات بھیجنے کا انکشاف کیا، جس پر ندامت کے ساتھ نہ صرف کپتانی چھوڑی، بلکہ سیریز سے بھی دست بردار ہوگئے۔ آسٹریلیا نے ایشیز سیریز کے لیے فاسٹ بائولر پیٹ کمنز کو ٹیسٹ ٹیم کا کپتان اور اسٹیو اسمتھ کو نائب کپتان مقرر کردیا۔

کرکٹ سے اب رُخ کرتےہیں فٹ بال کا۔ ورلڈ کپ کے بعد ہونے والا دوسرا بڑا ٹورنامنٹ یوروکپ، 2020ء میں تو نہ ہوسکا، لیکن 2021ء میں اس کا کام یابی سے انعقاد کیا گیا۔ پہلی بار گیارہ ممالک کے گیارہ شہروں نے اس میگا ایونٹ کی میزبانی کی۔ پرتگال کی ٹیم بحیثیت دفاعی چیمپئن ایونٹ میں شریک تھی۔ اس کے اسٹار اسٹرائیکر، کرسٹیانو رونالڈو نے ایونٹ میں سب سے زیادہ پانچ گول اسکور کیے اور ایران کے علی دائی کا 109گول کا ریکارڈ بھی توڑا، لیکن اپنی ٹیم کو رائونڈ آف سیکسٹین سے آگے نہ لے جاسکے۔ 

بیلجیم کی ٹیم بھی اگلے ہی میچ میں اٹلی کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوگئی۔ اس ایونٹ میں انگلینڈ کی کارکردگی شان دار رہی، جوفائنل تو نہ جیت سکی، لیکن پہلی بار فائنل تک رسائی ضرور حاصل کی۔ انگلینڈ نے 1966ء کے بعد پہلی مرتبہ کسی بڑے ٹورنامنٹ کا فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا، لیکن فائنل میں اسے اٹلی کے ہاتھوں پینالٹی شوٹ آؤٹ پر شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ لندن کے ویمبلے اسٹیڈیم میں 67ہزار سے زائد شائقینِ فٹ بال نے یہ میچ دیکھا، جس میں شاہی خاندان کے افراد بھی شامل تھے۔ مگر اٹلی کی ٹیم نے ان ہزاروں مسکراتے چہروں پر افسردگی بکھیرکے ٹائٹل اپنے نام کرلیا۔

اب کچھ ذکر ہاکی کا بھی ہوجائے، جو اب صرف نام کا ’’قومی کھیل‘‘ رہ گیا ہے۔ اس کھیل کی فیڈریشن ہو یا مختلف ایسوسی ایشنز، ہر جگہ صرف عُہدوں پر قبضہ جمائے رکھنے پر توجّہ ہے۔ کھیل کہاں جارہا ہے، ٹیم کی پرفارمینس کیسی ہے، اس سے کسی کو کوئی غرض نہیں۔ نومبر،دسمبر میں بھارت کے شہر، بھونیشور میں جونیئر ورلڈ کپ کھیلا گیا، جس میں پاکستان سمیت 16ٹیمیں شریک ہوئیں، مگر پاکستانی ٹیم کی کارکردگی انتہائی مایوس کُن رہی۔ وہ گیارہویں پوزیشن پر تھی، جب کہ جونیئر ورلڈ کپ ارجنٹینا کے نام رہا، جس نے فائنل میں جرمنی کو دو کے مقابلے میں چار گول سے شکست دی۔

ٹینس کی بات کی جائے، تو 2021ء سربیا کے نوواک جوکووچ کے لیے بہترین رہا۔ انہوں نے نہ صرف سال کے تمام گرینڈ سَلیم ٹورنامنٹس کے فائنل تک رسائی حاصل کی، بلکہ تین ٹائٹل جیت کر راجر فیڈر اور رافیل نڈال کے برابر یعنی 20 گرینڈ سَلیم جیتنے والے کھلاڑی بھی بن گئے۔ ویمنز سنگلز میں نائومی اوساکا نے آسٹریلین اوپن جیتا، باربورا نے فرینچ اوپن، ایشلے بارٹی نے ومبلڈن اور ایما ریڈوکانو نے یو ایس اوپن ٹائٹل اپنے نام کیا۔