مرتّب: محمّد ہمایوں ظفر
قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ’’اگر اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے، تو تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا، اگر وہ تمہیں چھوڑ دے، تو اس کے بعد کون ہے، جو تمہاری مدد کرے اور ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسا رکھنا چاہیے۔‘‘ غیراللہ سے مدد کا طالب ہونا گناہ کبیرہ اور شرک ہے، اس کامجھے مکمل ادراک نہیں تھا، لیکن پھر ایک واقعے نے میری آنکھیں کھول دیں اور میں نے صدق دل سے توبہ کرکے اللہ ربّ العزت سے رجوع کیا، تو اس نے مجھے اپنی بیش بہا نعمتوں سے اس قدر نوازا کہ اُن پر جتنا شُکر ادا کروں، کم ہے۔
یہ آج سے لگ بھگ 23 سال قبل 1998ءکی بات ہے۔ نامساعد حالات کے باوجود میں نے جیسے تیسے گریجویشن کرلیا، تو دن رات نوکری کی تلاش شروع کردی۔ مالی پریشانیوں کے باعث ہمارے گھریلو حالات شروع ہی سے بہت خراب تھے، لیکن پھر بھی کسی نہ کسی طرح گزارہ ہوہی جاتا تھا۔ میرے والد ہماری دو وقت کی روٹی ہی کے متحمّل تھے، سو، تعلیمی اخراجات اٹھانے سے قاصر تھے۔ ہم بہن بھائی غربت و افلاس کے سبب ہمیشہ احساسِ کم تری ہی میں مبتلا رہے، لیکن ان کٹھن لمحات میں بھی مَیں نے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے بعد گریجویشن تک تعلیم حاصل کرہی لی۔
اپنے ہم عمر ساتھیوں کی طرح میرے بھی بہت سے ارمان اور خواہشات تھیں، لیکن روزگار نہ ہونے کی وجہ سے سارے خواب ادھورے تھے۔ گاؤں میں مَیں اپنے ہم عُمروں میں خاص منفرد تھا، میرا رُجحان فنونِ لطیفہ، شعروشاعری اور دیگر ادبی سرگرمیوں کی طرف زیادہ تھا، لیکن بے روزگاری کی وجہ سے ہر وقت پریشان رہتا۔
اس دوران کئی سرکاری اور پرائیویٹ محکموں میں درخواستیں دیں، مگر ہر جگہ رشوت کا بازار گرم تھا، کافی تگ و دو کے بعد بھی نوکری کے حصول میں ناکام رہا، تو درگاہوں اور پیرفقیروں کے مزاروں کے چکّر لگانا شروع کردیئے۔ جہاں سے بھی کسی بزرگ یا اُن کی کرامات سے متعلق سنتا، دُعا کروانے پہنچ جاتا۔ قسمت کا حال بتانے والے ستارہ شناسوںاور نجومیوں کے پاس بھی گیا، لیکن ہر کوئی عن قریب اچھی خبر ملنے کی نوید سُنا کے چلتا کر دیتا۔
بے روزگاری کی وجہ سے میرے حالات دن بدن بدتر ہوتے چلے جارہے تھے،حالت یہ ہوگئی تھی کہ کسی کو اپنا حالِ دل سُناتا، تو وہ ہم دردی کے دو چار الفاظ بول کے اپنی جان چُھڑالیتا۔ انسان بے روزگار ہو، جیب میں رقم نہ ہو، تو زندگی میں کوئی لُطف نہیں رہتا۔ مَیں آس پاس کے لوگوں کو زندگی کی ہر سہولت سے مستفید دیکھتا، تو اپنی قسمت پہ رونا آتا، دل سے ہر آہ شاعری کی صورت میں نکلنے لگتی، پھرخود بھی شعر کہنے لگا اور اپنا تخلص ’’شکستہ‘‘ رکھ لیا، جس کے معنی ’’ٹوٹا ہوا‘‘ کے ہیں۔
جب انسان کی شامیں اُداس اور صبحیں غم گین ہوں، تو اُس کا دل کسی چیز میں نہیں لگتا۔ بہرحال،دن بیتتے گئے، میری بے روزگاری میرا روگ بنتی چلی گئی۔ ہمارے گاؤں کی گلیوں میں ایک درویش گھومتا رہتا تھا، اُس کے بارے میں بہت سی باتیں مشہور تھیں کہ یہ کسی سے کچھ مانگتا نہیں ہے، جو جتنا بھی دے دیتا ہے، خوشی خوشی لے لیتا ہے۔اکثر لوگ اپنے مَن کی مُراد پانے کے لیے اس سے دُعا کرواتے، تو حیرت انگیز طور پر اُن کی دُعائیں پوری بھی ہوجاتیں، لیکن اُس کی اپنی حالت بہت خَستہ تھی، تن پہ میلے، پھٹے پُرانے کپڑے اور ہمیشہ بھنگ کے نشے میں رہتا۔
مَیں نے اُسے کبھی کسی سے بات کرتے دیکھا، نہ کسی سے اِس کی بُرائی سُنی۔ اُس کی اتنی شہرت سننے کے بعد میرے دل میں خیال آیا کہ اپنے لیے بھی اس سے دُعا کروائوں، لیکن یہ سوچ کر کہ لوگ کیا کہیں گے، اُس کے پاس جانے کی ہمّت نہیں ہوئی۔ کئی برس بِیت گئے، اُس درویش کو میں روزانہ اپنے آگے پیچھے، دائیں بائیں گھومتے پِھرتے دیکھتا رہا، مگر مجھے یقین نہیں آتا تھا کہ یہ بھی دُعا سے کسی کی تقدیر بدل سکتا ہے، لیکن کبھی کبھی دل میں یہ خیال بھی آتا کہ کسی روز موقع پا کے اس کو آزمادیکھنے میں کیا حرج ہے۔
اُن دنوں ہمارے علاقے سے ایک چھکڑا بس چلا کرتی تھی، گائوں کے لوگ اس میں بیٹھ کر شہر جاتے اور شام کو واپس لوٹ آتے۔ ایک روز مجھے بھی ایک ضروری کام سے شہر جانا پڑا، تو چھکڑا بس میں سوار ہوگیا۔ سیٹ پر بیٹھتے ہی اچانک میری نظر جنگل کی طرف جانے والے راستے پر پڑی، جہاں پیر صاحب اپنی دُھن میں مگن چلے جارہے تھے۔ انھیں دیکھتے ہی اچانک میرے ذہن میں آیا کہ آج ان سے دُعا کروانے کا بہت اچھا موقع ہے۔ یہ سوچ کر فوراً ہی چھلانگ لگا کر بس سے اُترا اور جنگل کی طرف دوڑ لگادی۔ سرپٹ دوڑتا ہوا تھوڑی ہی دیر میں درویش کے قریب پہنچ گیا۔
انہوں نے حیرت سے میری طرف دیکھا، تو مَیں نے ہانپتے کانپتے اپنا مدعا بیان کیا کہ ’’مَیں کئی برسوں سے بے روزگاری کا عذاب جھیل رہا ہوں، تنگ دستی نے مجھے کنگال اور مفلس کردیا ہے، آپ لوگوں کے لیے دعائیں کرتے ہیں، آپ سے درخواست ہے کہ میرے لیے بھی دُعا کریں کہ مجھے ایک اچھی سی نوکری مل جائے۔‘‘ درویش نے میری باتیں بغور سُننے کے بعد اپنی گول گول آنکھیں میرے چہرے پر گاڑیں اور شہادت کی انگلی آسمان کی طرف کرتے ہوئے بڑے تیقّن سے کہا ’’جا بیٹا! میں دُعا کرتا ہوں، اللہ تجھے تین سو روپے تن خواہ کی نوکری دے گا۔‘‘ دُعا کرکے وہ تو ایک طرف چل دیے، اور میں وہیں بُت بنا اُنھیں جاتے ہوئے حیرت سے دیکھتا رہ گیا۔
میرا سَر چکرانے لگا کہ انہوں نے یہ کیسی دُعا کی کہ تین سو روپے والی نوکری ملے۔ سوچنے لگا، یہ درویش صاحب کس عہد میں رہ رہے ہیں۔ مَیں سمجھ گیا تھا کہ وہ درویش دورِ حاضر سے کئی سال پیچھے تھے۔ تین سو روپے تن خواہ کی بات ایسے کر رہے تھے، جیسے تین لاکھ روپے کی بات کررہے ہوں۔ اُن کے جانے کے بعد میں دل ہی دل میں خود کو کوسنے لگا کہ اتنی مُدت سے مَیں تین سو کی نوکری کی دُعا کروانے کے لیے اُن کے پیچھے بھاگ رہا تھا۔ انہوں نے تو میرے سارے خواب ہی چکنا چُور کردیے۔ اللہ کرے اُن کی یہ دعا کبھی قبول نہ ہو۔ مَیں دونوں ہاتھ سر پہ رکھ کے بوجھل قدموں سے اُس جانب چلنے لگا، جہاں سے شہر جانے والے چھکڑے کو چھوڑا تھا۔
چھکڑے کے واپس آنے اور دوبارہ شہر جانے میں تین سے چار گھنٹے باقی تھے، لہٰذا شہر جانے کا ارادہ ملتوی کرکے مسجد چلا گیا۔ مَیں دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ اگر اِس درویش کی دُعا قبول ہوگئی، تو کیا میں ساری زندگی تین سو روپے ماہانہ تن خواہ والی نوکری پر گزارہ کروں گا، میرا دماغ بوجھل ہوگیا تھا۔ بہرحال، نماز پڑھنے کے بعد کچھ سکون نصیب ہوا، تو وہیں ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ مجھے اس طرح اداس اور مایوسی کے عالم میں بیٹھا دیکھ کر ایک سفید رِیش بزرگ میرے پاس آئے اور سلام دعا کے بعد مجھ سے میری اداسی کا سبب پوچھا، تو مَیں نے مختصراً انھیں اپنی بے روزگاری، تنگ دستی سے لے کر جنگل میں درویش سے ملاقات تک کے بارے میں بتادیا۔
انہوں نے میری بات غور سے سننے کے بعد کہا ’’بیٹا! تمہیں کہیں بھٹکنے کی ضرورت نہیں، اللہ نے چاہا تو تمہارے سارے خواب سچّے ثابت ہوں گے، تمہیں اتنی دولت ملے گی، جس کا تمہیں اندازہ بھی نہیں، لیکن شرط یہ ہے کہ صرف اللہ سے لو لگائو، جو مانگنا ہے، اُسی سے صدقِ دل سے مانگو، تو وہ تمہیں بہت کچھ دے گا، غیر اللہ سے مانگنا نہ صرف گناہ، بلکہ شرک ہے۔‘‘ سفید ریش بزرگ کی باتوں سے میرے دل کو کافی تسلّی ہوئی اور مَیں نے پیروں فقیروں کے چکّر سے نکل کر اپنے رب سے لَو لگالی۔
ہر نماز میں اپنے رب سے گڑگڑا کردُعائیں مانگنے لگا۔ میں جو کئی برس سے نوکری کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا تھا، پیر فقیروں کے درباروں کے چکّر لگا لگا کر تھک چکا تھا، جب اللہ سے براہ راست لَو لگائی، تو اس نے بھی مجھے مایوس نہیں کیا، اور جلد ہی میری قابلیت کے مطابق اور توقع سے بھی بڑھ کر نوکری ملی کہ میرے سارے دُکھ درد اور مالی پریشانیاں ختم ہوگئیں۔ اسی نوکری کے دوران مزید تعلیم اور محکمے کی جانب سے کروائے جانے والے مختلف کورسز کے باعث آج مَیں بہت ہی اچھے عہدے پر فائز ہوں۔
مجھے اللہ تعالیٰ نے ہر آسائش سے نواز رکھا ہے، بچّوں کو اچھی تعلیم دلوارہا ہوں، مختصر یہ کہ میری زندگی کا سفر دن بدن ترقی کی شاہ راہ پہ گام زن ہے۔ مَیں اپنی زندگی سے بہت خوش اور مطمئن ہوں۔ بلاشبہ، یہ سب کچھ صرف اللہ ربّ العزت سے مانگنے کا نتیجہ ہے۔ بے شک، وہ سب کی سُنتا ہے، بس شرط یہ ہے کہ اُس سے بہت سچّے دل سے مانگا جائے۔ (شکستہ مزاری، کشمور)