• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتّب: محمّد ہمایوں ظفر

اکلوتی نرینہ اولاد کو کھودینے کا یہ درد ناک واقعہ دس برس قبل ہمارے محلّے میں پیش آیا، جس کا آج تک کوئی سراغ نہیں مل سکا۔یہاں اس واقعے کا ذکرکرنے کا مقصد یہ ہے کہ اپنے بچّوں کا حد سے زیادہ خیال رکھیں، انہیں اکیلا کہیں جانے نہ دیں اور ان کی نقل و حمل پر کڑی نگاہ رکھیں۔

ہمارے محلّے میں قیام پزیر ظفر احمد انتہائی شریف النّفس اور اپنے کام سے کام رکھنے والے آدمی تھے۔ اُن کی شادی کوکئی سال بیت گئے تھے، مگر اولاد کی نعمت سے محروم تھے، پھر جب اللہ تعالیٰ نے پانچ برسوں کے دوران لگاتار تین بیٹیوں سے نوازا، توبجائے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں پر شُکر بجالانے کے ان کے گھر میں نرینہ اولاد نہ ہونے کے طعنے دیئے جانے لگے، عجیب عجیب باتیں ہونے لگیں، حالاں کہ رحمت اللعالمین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تو بیٹیوں کورحمت قرار دیا ہے۔ 

بیٹیاں گھر کا قیمتی ترین زیور، کانچ کی گڑیاں، گھرانے کی رونق ہوتی ہیں اور پھر باپ کے گھر کی یہ رحمت، آگے جا کربچّوں کی جنّت بنتی ہے، لیکن ظفر احمد کے گھر میں تین بیٹیوں کے بعد اولادِ نرینہ کے نہ ہونے پر بے چینی بڑھتی گئی۔ ظفر صاحب اور اُن کی اہلیہ، اہلِ خانہ کے علاوہ خاندان بھر کے لوگوں کی طرح طرح کی جاہلانہ باتوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے رہے۔ بہرحال، ایک روز ظفر صاحب کی اہلیہ نے اپنے شوہر کو ایک بار پھر اُمید سے ہونے کی خوش خبری سنائی اور سختی سے تاکید کی کہ فی الحال کسی کو یہ بات نہ بتائی جائے، جب چاند چڑھے گا، تو دنیا دیکھے گی۔

دونوں میاں بیوی احتیاط سے زندگی بسر کرتے رہے اور اللہ اللہ کرکے وہ گھڑی آن پہنچی کہ جب اللہ تعالیٰ نےانھیں ایک چاند سا بیٹا عطا کردیا۔ بیٹے کی پیدایش پر خوب خوشیاں منائی گئیں، جس کے بعد ظفر احمد اور اُن کی اہلیہ کے لیے طعن و تشنیع کا سلسلہ بھی بند ہوگیا۔ دن گزرتے رہے، بیٹا جب پانچ سال کا ہوا، تو اسے اسکول داخل کروادیا گیا۔ ایک روز حسبِ معمول صبح اسکول گیا، لیکن چھٹّی کے بعد گھر نہیں پہنچا۔ 

دوپہر سے رات ہوگئی، اسکول اورمحلّے کے آس پاس کی تمام گلیاں چھان ماری گئیں، مگر اس کا کہیں سراغ نہ مل سکا۔ بچّے کے ماں باپ کی تڑپ دیکھی نہیں جارہی تھی، محلّے کے لوگ بھی پریشان تھے، ہر طرف ایک کہرام سا مچا ہوا تھا۔ دوسرے روز پولیس کو بھی اطلاع کردی گئی۔ پولیس نے بھی اپنے روایتی انداز میں بچّے کو ڈھونڈنے کی ہر ممکن کوشش کی، مگر کچھ پتا نہیں چل رہا تھا کہ بچّہ کہاں گیا۔

دو روز بعد محلّے کے ایک شخص نے اچانک اطلاع دی کہ پرانے اسکول سے شدید بدبُو آرہی ہے۔ اس کی اطلاع پرمحلّے کے لوگ اسکول پہنچے، تو کچرے کے ڈھیر سے بچّے کی مسخ شدہ لاش برآمد ہوگئی۔ ظفر صاحب اپنے لختِ جگر کو اس حالت میں دیکھ کر وہیں بے ہوش ہوگئے۔ تھوڑی دیر بعد پولیس بھی پہنچ گئی۔ پولیس کارروائی کے بعد بچّے کی نعش گھر لائی، تو ماں اور بہنیں غش کھاکر گرپڑیں، اُن کی گریہ و زاری سے گھر ہی نہیں، پورا محلّہ ماتم کدہ بن گیا، ہر طرف آنکھوں میں آنسو اور سسکیاں تھیں۔ یوں ظفر صاحب اپنی اکلوتی اولادِ نرینہ سے محروم ہوگئے۔ 

پولیس کافی عرصہ ملزمان کی تلاش میں سرِگرداں رہی، مگر سراغ لگانے میں کام یاب نہ ہوسکی۔ یہاں اس واقعے کو بیان کرنے کا مقصد محض یہ ہے کہ والدین اپنے بچّوں کا خصوصی خیال رکھیں، انھیں خود ہی اسکول چھوڑنے جائیں اور خود ہی واپس گھر لائیں۔ ساتھ ہی بچّوں کی ذہنی تربیت کریں اور انھیں سمجھائیں کہ کسی بھی اَن جان شخص سے کچھ لینا دینا تو دُور، گفتگو بھی نہ کریں۔ مزید برآں، بچّوں کے دوستوں پربھی نظر رکھیں۔ 

انھیں نماز کا پابند بنائیں اور موبائل فون کی خرافات سے بھی بچائیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اولاد اللہ کا مال ہے۔ خواہ بیٹی ہو یا بیٹا، اسے نعمت و رحمت جانیں۔ دونوں میں ہرگز کوئی تخصیص نہ برتیں۔ نہ جانے اللہ کو کب، کس کی کہی ہوئی کوئی بات بُری لگ جائے اور پھر کہنے والے کے ساتھ، دوسروں کو بھی زندگی بھر کی اذیّت و دُکھ سہنا پڑے۔ (ملک محمد اسحاق راہی،صادق آباد)