رات صرف بھیگی ہی نہ تھی، منجمد بھی تھی۔ برف کے روئی جیسے گالے آسمان سے نازل ہوتے تھے اور ہمیشہ سے بےبس انسان مزید لاچار ہو جاتا تھا، اٹھارہ گھنٹوں سے قطار میں کھڑی گاڑیوں پر برف کے انبار لگے تھے۔ ونڈ اسکرین پر چاندی کا لیپ چڑھا تھا اور ٹریفک کی روانی کی کوئی امید روشن نہ تھی۔ ہم سب فطرت کے خوبصورت مناظر کو یادداشت کے صفحات پر تحریر کرنے پہنچے تھے مگر بدانتظامی کے سبب راہوں کی گرد کے محتاج تھے، وہ گرد جو صرف اس لیے اڑائی گئی تھی کہ نیا پاکستان وجود میں آئے مگر ملک کے مصروف ترین ہل اسٹیشن پر ٹی ایم اے یا ڈسٹرکٹ انتظامیہ کا نام و نشان نہ تھا۔ یہ 6جنوری 2022کی ایک اداس مغرب تھی اور موذن فلاح کی طرف بلاتا تھا- ہم جھیکا گلی چوک سے ذرا پہلے گاڑیوں کی قطار میں لگے پُر امید تھے کہ ٹریفک کی روانی کے لیے کوئی اہلکار ضرور کوشش کر رہا ہوگا کیونکہ اسی چوک پر ملٹری پولیس کے اہلکار اور ٹریفک وارڈن کھڑے ہوتے تھے۔ میری تین سالہ بیٹی آیت بہت خوش تھی، شاید اسے یقین تھا کہ اس کا باپ نکلنے کی کوئی سبیل نکالے گا۔ باقی دونوں بچے عون اور حجاب زہرا ابھی تازہ دم تھے، وہ جانتے تھے کہ نانگا پربت بیس کیمپ، کنکورڈیا اور دیوسائی کے برفیلے طوفانوں کے سامنے بھلا مری کی برف باری کیا چیز ہے؟ ہم وہاں سے بچ نکلے تھے، یہ تو پھر بھی پنجاب کا ایسا شہر جہاں ہر اس ادارے کے دفاتر ہیں اور تعلیمی اداروں کی وسیع عمارتیں ہماری عارضی پناہ گاہیں ہو سکتی تھیں۔ افسرانِ بالا بھی یہیں کہیں رہتے ہیں۔ میں نے گاڑی کا انجن بند کیا اور حسبِ معمول موبائل فون پر ’’سفر نامہ‘‘ لکھنا شروع کر دیا، اس شام تک ہم ٹریفک میں پھنسے ضرور تھے مگر موت کے منتظر نہ تھے۔ گاڑی کی ونڈ اسکرین کا وائپر برف ہٹاتا تھا اور شیشے کا اندرونی حصہ ہم کپڑے سے صاف کرتے تھے۔ رات ایک بجے تک اپنی مدد آپ کے تحت ٹریفک بس اس قدر کھلی کہ ہماری گاڑیاں پچاس گز تک آگے ایکسپریس وے کی طرف بڑھیں تو بچ نکلنے کا پختہ یقین ہوا کہ سامنے پاک افواج کے دفاتر اور برف میں ڈھکے بورڈ نظر آئے۔ بائیں جانب ’’مری، خوش آمدید‘‘ کے گیٹ کو نظر انداز کرکے، ایک دوسرے کی گاڑیاں کو بذریعہ دھکا پھسلن سے بچاتے بچاتے رات دو بجے تک ہماری گاڑیاں وہاں آگئیں جہاں چند دکانیں تھیں اور جھیکا گلی کی جامع مسجد تھی۔ میں نے بار بار برف کے انبار ہاتھوں سے اتارے۔ دو بجے دن شروع ہونے والی اسنو فال رات دو بجے تک جاری تھی۔
پھر ایک نیا مسٗلہ یہ بنا کہ بیٹی نے دودھ مانگنا شروع کر دیا، میں نے گاڑی سے نیچے قدم ہی رکھا تھا کہ دو فٹ تک پاؤں برف میں دھنس گئے، کچھ فاصلے پر ایک چائے والے کو التجا بھری درخواست کی، فیڈر دیا اور اس سے دو ہزار روپے کے عوض دو کپ گرم دودھ لیا اور دل سے شکریہ بھی ادا کیا۔ میں نے گوگل سے ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کا نمبر لے کر فون کیا اور چند مراحل کے بعد کسی پی اے نما شخص نے بات کی اور فرمایا کہ ’’سڑکیں صاف کرنا محکمہ ہائی ویز کی ذمہ داری ہے‘‘، ساتھ ہی مجھے متعلقہ افسر کا نمبر عطا کر دیا۔ ہائی ویز کے افسر نے فرمایا ’’جو بھی ہو گا کل ہوگا‘‘۔ میں نے راولپنڈی میں موجود ہیڈ کوارٹر کے نمبرز پر بھی فون کیا مگر تین بجے شب شاید ان کا آپریٹر سو چکا تھا۔ پولیس ریسکیو 15والوں نے کمال کی بات کی ’’برف باری میں پھنسے ہوئے سیاحوں کے ساتھ ڈکیتی ہوئی ہے تو پھر بات کریں، برف ہٹانا اور راستے کھلوانا ہمارا کام نہیں‘‘۔
ملک کے تمام متعلقہ اداروں کی طرف سے ملنے والا ردِعمل بھی برف میں جما ہوا ایک حوصلہ ثابت ہوا اور ہم گاڑی سے نکلے، ٹوائلٹ کی تلاش میں وہاں آ گئے جہاں سے بھوربن اور نتھیا گلی کے راستے جدا ہوتے تھے۔ جامع مسجد کی انتظامیہ پچاس روپے کے عوض ایک منٹ کی رفع حاجت کی سہولت فروخت کر رہی تھی۔ ہم نے بھی بچوں کو جلدی جلدی فراغت سے گزارا اور خود بھی فارغ ہوئے۔ پھر فجر کی اذانوں میں فلاح کی طرف بلایا جا رہا تھا اور عین اسی وقت ہمارے عقب میں پھنسی ہوئی گاڑیوں میں موت معصوم بچوں اور ان کے باپ کو اس بےحسی کے جہنم سے آزاد کر رہی تھی۔ گاڑی کے گیٹ برف میں ایسے جم گئے تھے کہ وہ کھل نہ سکے، برف کی دیواروں میں آکسیجن بھلا کب ہوتی ہے۔
صبح ہوئی مگر امید پر وہی برف جمی تھی۔ کوئی مدد کے لیے نہ آیا۔ مری کے تاجروں نے گرم پانی کا گلاس پانچ روپے میں بیچا، روٹی بھی انتظامیہ کی طرح پہنچ سے دور ہو گئی۔ بہت سے سیاح اپنی گاڑیوں کو چھوڑ کر پیدل نکل گئے۔ پھر اموات کی تصدیق ہونے لگی۔ سیاحوں کی لاشوں کو نکالا گیا اور پھر ان کی تعداد بیس تک پہنچی۔ اِس دوران پاک فوج کے افسران جوانوں کو لیے پہنچ گئے۔ 22لوگوں نے اپنی جانیں دے کر ہزاروں افراد کو بچا لیا۔ بیلچے ہاتھوں میں پکڑے فوجی جوان راستے کھولتے رہے، تب تک بھی سول انتظامیہ کہیں عملی طور پر نظر نہ آئی۔ ہم سب کو فوج کی طرف سے چائے دی گئی۔ جماعت اسلامی کی طرف سے بسکٹ بھی ملے، مگر یہ سب کچھ تب ہوا جب برف باری رک گئی تھی اور 22لاشیں گنتی میں آگئی تھیں۔ سامنے سرکاری دفاتر کی بلند دیواروں کے اوپر لگی باڑ پر بھی برف کے گالے جمے تھے۔
یہ سب کچھ اس ملک میں ہوا تھا جہاں سیاحت کے فروغ کو پہلی ترجیح بنایا گیا تھا۔ یہ پاکستان کے مصروف ہل اسٹیشن میں ہوا تھا۔ 6جنوری کا آدھا دن اور پھر ساری رات، 7جنوری کا دن اور برف کے مدفون سب دیکھ لیے۔ 7جنوری کی شام کو چند گاڑیوں کو نکالا گیا۔ حکومتی بےحسی اور تاجروں کی لوٹ مار ہمیں بتاتی ہے کہ تہذیب و تمدن کے نام پر درندگی اور وحشت کا بازار برف میں بھی گرم ہو سکتا ہے۔ اب مری کو ضلع بنا دیں یا صوبہ، بےحسی کی خباثت کیسے ختم کریں گے؟ ہم دراصل کفن بلیک میں بیچنے والے سرکاری و نجی تاجروں کی حراست میں دفن تھے، برف تو ہمیشہ سے نازل ہوتی ہے۔