• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شاہ رخ جتوئی کے مقدمہ قتل کے بعد عثمان مرزا کے ہاتھوں بے توقیر ہونے والی لڑکی نے بھی ظالم گروہ کے آگے ہتھیار ڈال کر اپنی کمزور ی ور انکی بالا دستی اور قوت کو تسلیم کرلیااور کسی انجانے خوف اور دباو کے تحت ملزموں کے خلاف کوئی چارہ جوئی نہ کرنے کا حلف نامہ عدالت میں پیش کرکے نظریہ عدل کی نفی کر دی۔ دل دہلا دینے اور کمزور معاشرے میں سرا سمیگی اور خوف پیدا کرنے والے اس واقعہ کے مرکزی کردار عثمان مرزا اور اس کے گماشتوں نے 2021 کے اوائل یا 2020 کے اختتامی ایام میں اس سنگین جرم کا ارتکاب کیا تھا جس میں انہوں نے اسلام آباد کے رہائشی علاقہ E/11-2کے میگنم ہائٹس کے ایک اپارٹمنٹ میں ایک 20/22 سالہ لڑکی کی آبرو کا تمسخر اڑایا، اسے طاقت کے زور پر برہنہ کیا، غلیظ زبان استعمال کرتے ہوئے اسے رقص کرنے پر مجبور کیا اور اخلاق سے گری ہوئی وہ حرکتیں کیں جنہیں تحریر کے ربطہ میں لانا لفظوں کے اختیار میں نہیں۔ اور ان تمام حرکتوں کی ویڈیو بنا لی گئی جس کا مقصد اسے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے بلیک میل کرنا تھا۔ 6 جولائی 2021 کو رات تقریباً 10 بجے ایک بھونچال کی صورت میں یہ ویڈیو وائرل ہوئی تو ملک کے ہر اس شخص جو معاشرے کے اقتدار اور آبرو مندی پر یقین رکھتا ہے کی توجہ کا مرکز بن گئی۔ اور رفتہ رفتہ یہ لہر سرحدوں کو پار کر گئی اور اس اعصاب شکن ویڈیو نے دنیا کے مختلف ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا جس میں عثمان مرزا اور اس کے گماشتوں کو اس لڑکی کی آبرو کی تضحیک کرتے دیکھایا گیا تھا۔ بھوکے درندوں میں پھنسی یہ بے بس لڑکی خود کو بے لباس ہونے سے بچاتی رہی۔ لیکن اخلاقیات کے اقدار سے عاری یہ لوگ اس کے جسم سے کھیلتے رہے اور آخرکار اسے برہنہ کر کے رقص کو فلمبند کرتے رہے۔ اس شرمناک ویڈیو کے وائرل ہونے کے ساتھ ہی قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آگئے اور اسلام آباد کے تھانہ گولڑہ نے اپنے طور پر کارروائی کرتے ہوئے تعزیرات پاکستان کے دفعات 344, 506/II, 384, 395/A, ,375/A, 354/A, 509/A, 34کے تحت مقدمہ درج کرکے عثمان مرزا اور اس کے7 ساتھیوں کو گرفتار کر کے ابتدائی تفتیش کے بعد جیل بھیج دیا۔ یہ ویڈیو صرف پاکستان میں ہی نہیں پوری دنیا میں وائرل ہوگئی جو ان ممالک میں مقیم پاکستانیوں کے لیے شرمندگی کا باعث بنی۔ اس ویڈیو کو دیکھنے والا ہر شخص اس معصوم لڑکی کو انصاف دلوانے کے لیے اس کے ساتھ کھڑا ہو گیا یہاں تک کہ وزیراعظم عمران خان نے بھی اس گھناؤنے جرم میں ملوث ہر کردار کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دے دیا۔ لیکن رفتہ رفتہ مقدمے کی تحقیقات کرنے والوں نے کسی خاص مقصد کے تحت تاخیری حربے استعمال کرنا شروع کر دئیے۔ قانونی ماہرین کے مطابق تفتیش کاروں کو فوری طور پر ضابطہ فوجداری 164 کے تحت متاثرہ لڑکی کی جانب سے عدالت میں ریکارڈ کرائے گئے بیان کو چالان میں شامل کرکے اس کاروائی کا حصہ بنانا چاہیے تھا۔ لیکن پولیس کے ان تاخیری حربوں نے ملزم فریق کو اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کا موقع دے دیا اورعثمان مرزا کے ساتھیوں نے مظلوم فریق سے رابطے شروع کر دیئے اور لالچ اور دھمکیوں کے امتزاج سے ان پر دباؤ بڑھا دیا۔ یہ رابطے صیغہ راز میں اس لئے رہے کہ مظلوم فریق رفتہ رفتہ عثمان مرزا کے دباؤ کا شکار ہوتے رہے۔ ان رابطوں میں جڑواں شہروں کی بااثر سیاسی و سماجی شخصیات نے اپنا اپنا منفی کردار ادا کیا اور اس جرم میں شریک عثمان مرزا اور اس کے ساتھیوں کی رہائی کے لیے تمام تر صلاحیتیں اور اثر و رسوخ استعمال کیا۔ لیکن عوام کی ہمدردیاں متاثرہ فریق کے ساتھ تھیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر عوامی دباؤ میں بتدریج اضافہ ہو رہا تھا۔ تفتیش کے ابتدائی عمل کے دوران ہی اس امر کی تصدیق کی گئی کہ وائرل ہونے والی ویڈیو میں متاثرین لڑکے اور لڑکی کو آسانی کے ساتھ دیکھا اور ان کی شناخت کی جا سکتی ہے متاثرہ لڑکے اور لڑکی نے مجسٹریٹ کے روبرو واقعے کی تصدیق کی اور زیر دفعہ ضابطہ فوجداری 164 کے تحت بیان ریکارڈ کرایا۔ متاثرین لڑکے اور لڑکی نے درست طور پر اپارٹمنٹ نمبر 417 فورتھ فلور میگنم ہائٹس سیکٹرE-11/2 کی بھی شناخت کی جہاں یہ گھناؤنا کھیل کھیلا گیا تھا۔ پولیس نے جدید وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے مقدمے کی تفتیش کی اور ٹھوس شواہد پر ملزموں کو چالان کیا۔ اس دوران ویڈیو کی سائنسی بنیادوں پر تصدیق کی جو پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی لاہور نے درست قرار دیں۔

ان تمام شواہد اور سائنسی تصدیق کے باوجود اس وقت تفتیش کا منظر یکسر تبدیل ہوگیا۔ جب 11 جنوری 2020 کو متاثرہ لڑکا اور لڑکی اچانک ابتدائی مراحل میں عدالت کے روبرو ضابطہ فوجداری کی دفعہ 164 کے تحت عدالت کے روبرو ریکارڈ کرائے جانے والے بیان سے منحرک ہوگئے۔ اور ان تمام ملزموں کی شناخت سے انکار کر دیا۔ جو ویڈیو میں صاف پہچانے جا سکتے ہیں لیکن ممکنہ طور پر متاثرہ فریق نے کسی خوف دباؤ یا لالچ کے تحت ملزموں سے سودے بازی کرلی اور مصدقہ شواہد کے باوجود شریک جرم ملزموں کو شناخت کرنے سے انکار کر دیا۔ لیکن ایک موقع پر متاثرہ لڑکی نے یہ اشارہ بھی دیا کہ پولیس نے یہ سب اپنے طور پر کیا ہے۔ اس نے کسی دستاویز یا معاہدے پر دستخط نہیں کیے ۔ البتہ پولیس نے دوران تفتیش اس سے سادہ کاغذوں پر دستخط کراتی رہی۔

ملزموں کے حق میں تحریر کیے جانے والے اس حلف نامے میں تاثر ملتا ہے کہ یہ کسی ماہر پولیس افسر کا لکھا ہوا ہے جو تفتیش کے ایسے رموز سے آگاہی رکھتا ہے۔ جس میں تفتیش کارخ ملزم کے حق میں موڑا جا سکتا ہے۔ اس حلف نامہ کے ماہر مصنف نے قابل دست اندازی پولیس کے ہر جملے اور ہر لفظ کی نفی کی ہے اور قانونی طور پر اسے بے اثر کیا ہے۔ "جو ملزمان مقدمہ بالا میں نامزد ہوئے ہیں اور گرفتار کیے گئے ہیں اور عدالت میں پیش ہوئے ہیں یہ وہ لوگ نہیں جو ویڈیو میں نظر آرہے ہیں اور جو بوقت وقوعہ موقع پر موجود تھے نہ ہی گرفتارشدہ ملزمان میں سے کسی نے میرے ساتھ زور زبردستی کی اور نہ ہی زبردستی ویڈیو بنائی اور نہ زبردستی میرے کپڑے اتارے۔

اگرچہ حلف نامے کے الفاظ کے ماہرانہ چنائو سے پولیس اور ملزموں کی باہمی ہم آہنگی اور گٹھ جوڑ کا اشارہ ملتا ہے لیکن جبر کا نشانہ بننے والی لڑکی کی جانب سے اس تاثر کے مدھم اظہار سے کہ سب کچھ پولیس نے کیاتھا اور اس نے کسی حلف نامے پر دستخط نہیں کیے۔ یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ اس لڑکی کا ذہن ابھی تک اسی خوف میں جکڑا ہوا ہے جو وقوعہ کے روز اسے زبردستی بے لباس کرنے کے دوران طاری ہوا تھا۔ جس میں بتدریج اضافہ ہوا کمی نہیں ہوئی اور وہ نفسیاتی طور پر پولیس اور ملزموں کی محکوم بن گئی ہے کیونکہ پولیس ذرائع نے عندیہ دیا ہے کہ پولیس نے بھی مختلف حربےاستعمال کرکے اسے ملزموں کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہ کرنے پر مجبور کیا۔ ملزموں کے علاوہ پولیس کی جانب سے روا رکھے گئے منفی رویہ اور دبائو کی جھلک ملتی ہے جس کا مقصد ملزم گروہ کے لئے آسانیاں پیدا کرنا ہے۔اس حلف نامہ کے منظر عام پر آتے ہی اسلام آباد پولیس کے متعلقہ حکام کے ساتھ ساتھ حکومتی ترجمان نے بھی یہ واضع کردیا کہ اس مقدمہ کو ہر حال میں منتقی انجام تک پہنچایا جائیگا اور متاثرین کی بجائےریاست اس مقدمے کی پیروی کرے گی، ماہرین قانون کا خیال ہے کہ ایسے حالات میں جب متاثرہ فریق خوف یا لالچ کے دباو میں اس قسم کا حلف نامہ پیش کرکے ملزموں کو معاف کردے یا عدالت میں ضابطہ فوجداری کے دفعہ 164کے بیان ریکارڈ کرانے کے باوجود اصل ملزموں کی شناخت کرنے سے انکار کردے، اس کی قانونی حیثیت کو چیلنج کیا جاسکتا ہے اس کیلئے ضروری ہے کہ حلف نامہ اصلی اور جعلی ہونے کی تصدیق کی جائے اور متاثرہ فریق کو بھی شامل تفتیش کرکے اس انحرافی بیان کی وجہ معلوم کی جائے کہ کس مجبوری یا دباوکے تحت یہ حلف نامہ تحریر کیا گیا ہے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ شاہ رخ جتوئی کے مقدمے کی طرح اعلیٰ عدالت ازخود نوٹس لینے کا اختیار استعمال کرےتاکہ متاثرہ فریق کسی خوف کے بغیر مقدمے کی سماعت میں شریک ہوسکے، دولت کی طاقت اور سماجی برتری کی بنیاد پر شاہ رخ جتوئی کے مقدمہ میں متاثرہ فریق سے صلح کرنے کی مثال ریکارڈ پر موجود ہے، جب دیت کے نام پر یہ مقدمہ ختم کرنے کی کوشش کی گئی اور شاہ رخ جتوئی کے ورثاء نے مبینہ طور پر مقتول شاہ زیب خان کے ورثاء کو ڈیفنس کراچی میں500 گز کا گھر ، آسٹریلیا میں ایک فلیٹ اور 27 کروڑروپے کے عوض صلح کا حلف نامہ تحریر کرا لیا تھا، لیکن سپریم کورٹ آف پاکستان نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے ملزم شاہ رخ جتوئی اور اسکے ساتھیوں کیخلاف انسداد دہشتگردی عدالت میں مقدمہ شروع کرنے کا حکم دیا جس کے نتیجے میں شاہ رخ جتوئی سمیت دو افراد کو سزائے موت اور باقی شریک مجرموں کو سزائیں اور جرمانے کئے گئے۔

ایک بار پھر عوام کی نگاہیں اعلیٰ عدلیہ کی طرف اس امید کے ساتھ لگی ہیں کہ ان گماشتوں کیخلاف اس متاثرہ لڑکی کیساتھ عدل ہو جسے بہیمانہ انداز میں بےتوقیر کیا گیا اور اسکی ناموس کا تمسخر اڑایا گیا ایسے بے لگام ، طاقتور مجرموں کو نشان عبرت بنایا جاسکے تاکہ آئندہ کیلئے معاشرہ ان کے شر سے محفوظ رہے ، عوام اس یقین کے ساتھ کہ یہ مقدمہ بھی انسداد دہشتگردی کی عدالت میں چلایا جائے اعلیٰ عدالتوں کی جانب ازخود نوٹس کے منتظر ہیں۔

تازہ ترین