اسلام آباد (بلال عباسی)چیئرمین سینیٹ قائمہ کمیٹی اطلاعات فیصل جاوید نے پی ایس ایل 7 ایڈیشن کے نشریاتی حقوق کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ طلب کرلی،کمیٹی نے سرکاری ٹی وی حکام کو پرانے اداکاروں کی رائلٹی بحال کرنے کے احکامات جاری کر دیے، بدھ کو ہ کمیٹی کااجلاس فیصل جاوید کی زیرصدارت ہوا ، چئیرمین کمیٹی نے اگلی میٹنگ میں اے پی پی سے تفصیلات طلب کیں کہ وہ بتائیں کہ اگر اے پی پی نہیں ہوگا تو پاکستان کو کیا نقصان ہوگا؟ کمیٹی نے ملک بھر میں سرکاری ٹی وی کی بلڈنگز اور اثاثوں کی تفصیلات اگلی میٹنگ میں طلب کرلیں۔ اجلاس کے دوران سرکاری ٹی وی حکام نے کمیٹی کو بریفنگ میں بتایا کہ پی ٹی وی سپورٹس پر لائیو کرکٹ ایونٹس کے رائٹس 2023 تک ہیں اور 2012 سے پی ٹی وی اسپورٹس 24/7 چینل بن گیا، کمیٹی میں پی ایس ایل کے ساتویں ایڈیشن کے نشریاتی حقوق پر بھی بات ہوئی۔سرکاری ٹی وی سپورٹس کے حکام نے بتایا کہ معاملہ عدالت میں ہے،ہمارے مقابلے میں جیو سوپر تھا جس کو رائٹس نہیں ملے، جو زیادہ پیسے دیتے ہیں اس کو رائٹس مل جاتے ہیں اور رائٹس ملنے کیلئے پارٹنر شپ کی ضرورت پڑتی ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے سوال کیا کہ کیا آپ نے اشتہار دیا تھا اس کے لئے؟ حکام نے جواب دیا کہ اگست میں اشتہار دئے تھے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ7 ارب آپکو سالانہ بجلی کے بلوں میں ملتا ہے پارٹنر کی ضرورت کیوں پڑتی ہے۔ حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ جیو نے ڈائریکٹ بڈ میں حصہ نہیں لیا۔ جو جواب کورٹ میں جمع کرایا ہے کمیٹی کی اگلی میٹنگ میں پیش کردیں گے، فیصل جاوید نے کہا کہ لائیو کرکٹ کے علاوہ پروگرامز میں بہتری کی بہت گنجائش ہے۔جیو سوپر، اے اسپورٹس کے پروگرامز سرکاری ٹی وی اسپورٹس سے کہیں زیادہ اچھے ہیں۔ پرانے اداکاروں کو رائلٹی کے حوالے سے چئیرمین کمیٹی نے کہا کہ ٹی وی پر آپ ڈرامے ریپیٹ چلا رہے ہیں لیکن ان کو رائلٹی نہیں دے رہے، کمیٹی تجویز دیتی ہے کہ جلد سے جلد ان کو رائلٹی دی جائے۔ سیکرٹری اطلاعات نے کہ آرٹسٹس ویلفئیر فنڈز اداکاروں کیلئے موجود ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ سرکاری ٹی وی میں بھی ایک فنڈ قائم کرنا چاہئے،یا تو پرانے ڈرامے چلانے بند کردیں یا ان کو رائلٹی دیں۔ پرانے کنٹریکٹ کمیٹی کی اگلی میٹنگ میں پیش کریں اور ساتھ یہ بھی بتائیں کہ یہ رائلٹی کیوں اور کس نے ختم کی۔ اگلی میٹنگ میں پرانے اداکاروں کو رائلٹی دینے کے حوالے سے پیش رفت رپورٹ کمیٹی کے سامنے لائیں، ایک سال میں جتنے پرانے ڈرامے نشر کئے اور اس سے کتنا ریوینیو جنریٹ ہوا یہ تفصیلات بھی پیش کریں۔ کمیٹی نے سرکاری ٹی وی اور اے آر وائے کی پی ایس ایل 7 ایڈیشن کیلئے براڈکاسٹنگ رائٹس ملنے کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ بھی اگلی میٹنگ میں طلب کرلی۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اس وقت پاکستان کا کوئی انٹرنیشنل چینل نہیں ہے باہر کسی ہوٹل میں جائیں تو ہر جگہ انڈیا کے چینلز ہیں اور وہ پاکستان کے خلاف پروپیگینڈا کرتا رہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک عالمی معیار کے انگلش نیوز چینل کی ضرورت ہے۔ ایم ڈی ایس آر بی سی نے کمیٹی کو بتایا کہ ہمارا پلان ایک بہترین انگلش نیوز چینل لانے کا ہے۔ نئی بلڈنگ بھی بنانے جا رہے ہیں۔ عرفان صدیقی نے کہا کہ ادارہ پہلے ہی نقصان میں ہے تو نئے بلڈنگ کی کیا ضرورت ہے اور پی ٹی وی ورلڈ کو مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ ایم ڈی ایس آر بی سی نے کمیٹی کو بتایا کہ اس طرح کی پالیسی بنا رہے ہیں کہ ایک بیم پر5 پراڈکٹ چلیں گے اور 4 بیمز کو الوکیٹ کر رہے ہیں۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ ایک اچھی چیز ہے اور ادارے کو بہتر بنانے کا یہی ایک بہترین طریقہ ہے۔ایم ڈی ایس آر بی سی نے کمیٹی کو بتایا کہ بچوں کا چینلز اور ایف ایم ریڈیو 94.6 میگا ہرٹز بھی لا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بڈنگ آج ہونی ہے اور نئی بلڈنگ میں 4 ایم سی آر بنائیں گے۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ارتغلرل کی شکل میں معیاری پروڈکشن آئی تو سب نے ٹی وی دیکھنا شروع کیا جبکہ یو ٹیوب پر ریکارڈ توڑے۔ ایم ڈی اے پی پی نے کمیٹی کوبریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ بورڈ آف ڈائریکٹرز کے 11 ممبرز ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مقامی سطح پر نمائندوں کے علاوہ 4 بیرون ملک نمائندے بھی ہیں، نئی دہلی اور نیو یارک میں بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نسٹ اور نمل یونیورسٹی ان کا تحریری ٹیسٹ لیتی ہے اور انٹرویوز بھی ہوتے ہیں اور زبان کی روانی بھی دیکھی جاتی ہے۔تمام بیرون ملک نمائندے پاکستان سے متعلق ساری خبریں بھیجتے ہیں اور یہاں باقی چینلز کو بھی فراہم کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم دیگرعلاقائی زبانوں کے علاوہ عربی، چینی زبان میں بھی سروسز مہیا کرتے ہیں اور جن ٹی وی چینلز نے اے پی پی کی سبسکرپشن لی ہے ماہانہ کم سے کم 25 ہزار روپے چارجز ہیں جبکہ اخبار کی بھی یہی ریٹس ہیں۔ چیئر مین کمیٹی نے اگلی میٹنگ میں اے پی پی سے دوبارہ بریفنگ طلب کرلی، اے پی پی اگلی میٹنگ میں بتائے کہ اگر اے پی پی نا ہو تو ملک کو کیا نقصان ہوگا؟ایم ڈی اے پی پی نے بتایا کہ اے پی پی میں ایڈیٹر کی پوسٹ ابھی خالی ہوگئی ہے اور ایڈیٹر 20 گریڈ کا افسر ہوتا ہے۔ اے پی پی میں خالی 113پوسٹوں کے حوالے سے چیئرمین کمیٹی نے سوال کیا کہ یہ 113 خالی پوسٹوں پر بھرتیاں کب کریں گے؟ ایم ڈی اے پی پی نے کمیٹی کو بتایا کہ ان 113 پر بھرتیاں نہیں کریں گے بلکہ اس کو مزید ریفائن کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور کچھ عرصے میں 360 ڈگری ڈیجیٹل ایجنسی بن جائیں گے۔ چیئرمین کمیٹی نے ایم ڈی اے پی پی کی اپگریڈیشن کے حوالے سے پالیسی کو سراہا۔