600 سے زائد دنوں سے اسرائیلی مظالم کا نشانہ بننے والے غزہ کے لوگوں نے دکھ تباہی اور محرومی کی فضا میں عیدالاضحیٰ منائی، شہریوں نے اس عید کو زندگی کی سب سے مشکل عید قرار دیا ہے۔
جہاں عید روایتی طور پر خوشیوں، قربانی اور میل ملاپ کا موقع ہوتی ہے، وہیں اس بار فلسطینیوں کے لیے یہ دن مایوسی اور صبر کا امتحان بن گیا ہے۔
غزہ کے رہائشی ابراہیم احمد نے الجزیرہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ "یہ ہماری زندگی کی سب سے مشکل عید ہے۔ لوگ شدید معاشی اور انسانی بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔"
انہوں نے بتایا کہ وہ مسجد جہاں وہ ماضی میں عید کی نماز پڑھتے تھے، اب کھنڈر بن چکی ہے اور لوگ ملبے پر نماز ادا کرنے پر مجبور ہیں۔
ایک کمسن لڑکے سعید نصر نے حالات کی سنگینی کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ "ہم نئے کپڑے، مٹھائیاں یا قربانی کا جانور کچھ بھی نہیں خرید سکے۔ چاروں طرف تباہی ہے۔ یہ عید بالکل ویسی نہیں جیسی ہم پہلے منایا کرتے تھے۔"
خیال رہے کہ اسرائیلی فوج نے عید کے دن بھی غزہ میں بمباری کی جس سے 34 فلسطینی شہید ہوگئے ہیں۔
غزہ ہیومنیٹیرین فاؤنڈیشن نے سیکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر اپنے تمام امدادی مراکز بند کر دیے ہیں، فاؤنڈیشن نے بھوکے فلسطینیوں سے اپیل کی ہے کہ وہ "اپنی حفاظت کے لیے مراکز سے دور رہیں"۔
غزہ کی مقامی انتظامیہ کے مطابق، گزشتہ ماہ کے اختتام سے اب تک جب سے جی ایچ ایف نے امدادی سرگرمیاں بحال کی ہیں، کم از کم 110 فلسطینی امداد حاصل کرنے کی کوشش میں شہید ہو چکے ہیں۔
7 اکتوبر 2023 سے اب تک اسرائیلی فوج کے ہاتھوں 54,677 فلسطینی شہید اور 1,25,530 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔